پاکستانی معیشت کو سمجھنے کے لیے سیاست اور طاقت کے مہروں پر نظر جمانا ضروری ہے۔ یہ بظاہر طاقتور ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں انہیں'' لوٹے‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ جس پارٹی کا ساتھ دیں وہ حکومت بنا لیتی ہے۔ الیکشنز میں یہ فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں عوامی سطح پر عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ عوام انہیں ووٹ ڈالیں یا نہ ڈالیں‘ جیت انہی کی ہوتی ہے۔ انہیں بعض طاقتیں الیکشن جتواتی ہیں۔ ان کی سیٹ گروی ہوتی ہے۔ جسے بعض طاقتیں جب چاہیں واپس لے سکتی ہیں۔ وہ جیسے ہی پارٹی بدلنے کا اشارہ کرتے ہیں تو یہ اس کے لیے تاویلیں بنانے لگتے ہیں۔ کسی کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے‘ کسی کو کارکردگی پر اعتراض ہو جاتا ہے اور کسی کو عوام کا دکھ محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایسا صرف تحریک انصاف کے ساتھ نہیں ہو رہا بلکہ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ نواز شریف کی چھانگا مانگا کی سیاست اور بے نظیر بھٹو کی سوات کی سیاست قوم ابھی تک بھلا نہیں سکی۔ 1993ء میں میاںمنظور وٹوچند سیٹوں پر وزیراعلیٰ پنجاب بن گئے تھے۔ حالیہ مثالوں میں (ق) لیگ اور تحریک انصاف کی تشکیل عوام کے سامنے ہے۔ قومی اسمبلی کی تقریباً پچاس سے زائد ایسی سیٹیں ہیں جو ہر حکومت کا حصہ ہوتی ہیں۔ حقیقت میں تُرپ کا پتایہ پچاس لوگ ہی ہوتے ہیں۔ ضمیر کی آوازیں جگانے کیلئے صرف پیسے کا استعمال نہیں ہوتا بلکہ بارٹر ڈیل بھی ہوتی ہے۔ ایسا کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔اس حوالے سے صدر پاکستان کی جانب سے سپریم کورٹ کو ایک ریفرنس بھی بھیجا گیا ہے جس میں عدالت عظمیٰ سے یہ پوچھا گیا ہے کہ منحرف ارکان کے حوالے سے آئین کیا کہتا ہے‘ کیا نااہلی چند سال کے لیے ہو گی یا مستقل‘ یعنی سوال صرف نااہلی کی مدت کے تعین کا باقی رہ گیا ہے۔ کچھ منحرف ارکان نے حلفاً کہاہے کہ انہوں نے پیسہ نہیں لیا۔ ویسے تو ہمارے اکثر سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی نظر میں حلف کی جتنی اہمیت ہے یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔یہ حضرات ایم این اے یا سرکاری ملازم بننے کے پہلے دن ہی حلف اٹھاتے ہیں کہ خود کو نہیں بیچیں گے‘ رشوت نہیں لیں گے‘ بے ایمانی نہیں کریں گے‘ اپنا کام ایمانداری سے انجام دیں گے‘لیکن ووٹ بھی بیچے جاتے ہیں اور رشوتیں بھی لی جاتی ہیں۔ ملک کی عدالتوں میں صرف پانچ سو روپے کے عوض مصحفِ مقدس پر ہاتھ رکھ کر روز کتنی جھوٹی گواہیاں دی جاتی ہیں یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
حقائق عوام کے سامنے ہیں اور پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ لوٹے کہلائے جانے والے ارکانِ اسمبلی ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ کسی وزیراعظم کا اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرنا انہی کی بدولت ہے۔ پالیسیوں میں تسلسل نہ رہنے کی وجہ سے حالات اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ آج پاکستان کو مستقبل کا سری لنکا کہا جانے لگا ہے۔ سری لنکا میں بھی سیاسی عدم استحکام پاکستان ہی کی طرح ہے‘ جس نے بڑھتے بڑھتے شدید معاشی بحران کو جنم دے دیا ہے۔ سنٹرل بینک آف سری لنکا دیوالیہ ہو چکا ہے۔ اس کے پاس اتنے ڈالرز نہیں بچے ہیں کہ وہ ملک کے لیے ڈیزل‘ پٹرول یا مٹی کا تیل بھی خرید سکے۔ سری لنکا میں سات گھنٹے سے زیادہ لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس بجلی پیدا کرنے کی مشینری نہیں ہے۔اس وقت سری لنکا کی ضرورت تین ہزار میگا واٹ بجلی ہے اور اس کی بجلی پیدا کرنے کی کپیسٹی چار ہزار میگا واٹ ہے۔ لیکن غلط پالیسیز کی وجہ سے سری لنکا بھی بجلی کی پیداوار کے لیے فرنس آئل پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔ ان کے پاس بھی پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لیے بڑا ڈیم ہے لیکن وہ ملکی ضرورت کے لیے ناکافی ہے۔
حکمرانوں نے شعبدہ بازی کے لیے آسان حل تلاش کیا۔ قرض لے کر سولر پلانٹس اور ڈیمز پر کام کرنے کے بجائے ڈیزل پر چلنے والے پلانٹس لگائے۔ قرضوں کی ادائیگی کے لیے برآمدات اور آمدن بڑھانے کے لیے کام نہیں کیا۔ نتیجتاً قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے بھی انہیں مزید قرض لینا پڑ رہے ہیں۔ اس وقت سنٹرل بینک آف سری لنکا کے پاس صرف دو ارب چھتیس کروڑ ڈالرز کے ذخائر باقی رہ گئے ہیں۔ جبکہ اس کے قرض چھپن ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں جن کے سود کی ادائیگی تقریباً سات ارب ڈالر ہے۔ یعنی آج ملکی ذخائر میں اتنے ڈالرز بھی موجود نہیں ہیں کہ سود کی ادائیگی کی جا سکے۔ فروری 2022ء میں تیل کا جہاز کولمبیا بندرگاہ پر چالیس ہزار ٹن تیل لے کر پہنچا تو سری لنکا کے سرکاری بینک نے ادائیگی کرنے کے لیے پورے ملک سے ڈالر ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن اسے مطلوبہ ڈالرز نہیں مل سکے۔ انڈیا نے مدد کے لیے چالیس ہزار ٹن تیل سری لنکا بھجوایا۔ اسی طرح چین بھی سری لنکا کی مدد کر رہا ہے۔ سری لنکن حکومت نے چین سے گزارش کی ہے کہ ان کے واجب الادا قرضوں کی مدت بڑھا دی جائے۔ اس کے علاوہ انہیں مزید قرض دیے جائیں۔ یہاں میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ پاکستان نے بھی چین سے درخواست کر رکھی ہے کہ اس کے دس ارب ڈالرز کے واجب الادا قرضوں کو مؤخر کیا جائے اور مزید دس ارب ڈالرز کے قرض دیے جائیں۔ یہ درخواست وزیراعظم کے حالیہ دورۂ چین کے دوران کی گئی ہے۔
چین نے فی الحال مارچ میں واجب الادا چار بلین ڈالرز کے قرضوں کو مؤخر کر دیا ہے لیکن یہ معاملہ آخر کب تک چلے گا؟ ملکی قرضے آٹو پائلٹ پر لگے ہوئے ہیں۔ پچھلے قرض ادا نہیں ہو رہے‘ان پر سود بڑھتا جا رہا ہے۔ ہر سال ان میں اضافہ فطری ہے۔ ڈالرز ذخائر ایک مرتبہ پھر 16 ارب ڈالرز سے کم ہو گئے ہیں۔ سری لنکا کی طرح پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملکی استطاعت سے بڑھ چکا ہے۔ سری لنکا کی طرح پاکستان کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سری لنکا نے بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضوں کی ڈیمانڈ کر رکھی ہے اور پاکستان نے بھی بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے قرض مانگ رکھے ہیں۔ اگر سری لنکا کا آٹھ ماہ پہلے کا معاشی گراف دیکھیں تو وہ پاکستان کے آج کے گراف سے مشابہت رکھتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آنے والے آٹھ دس ماہ میں پاکستان بھی خدا نخواستہ سری لنکا والی صورتحال کا شکار ہو جائے گا؟ ملک میں اتنے ڈالرز ہی نہ ہوں کہ ہم تیل کی درآمدات کی ادائیگی کر سکیں۔ پہلے ہی تیل کمپنیوں نے پچھلے تین ماہ میں مطلوبہ مقدار سے کم ڈیزل درآمد کیا ہے۔
جن حکومتوں نے ماضی میں پاکستان کو قرضوں کی دلدل میں پھنسایا وہ کس طرح قرض ختم کر سکیں گی؟ (ن) لیگ نے 15 ہزار میگا واٹ بجلی کے منصوبے لگائے جو فرنس آئل اور کوئلے پر چلتے ہیں جبکہ اسی دور میں ترکی نے دس ہزار میگا واٹ سولر بجلی کے منصوبے لگائے۔ پاکستان کو اپنے تھرمل بجلی گھروں کے لیے ڈیزل اور کوئلہ درآمد کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر بہتر حکمت عملی سے کام لیا جاتا پاکستان بھی سولر منصوبے لگا کر سستی بجلی پیدا کر سکتا تھا جس کے نتیجے میں آج پاکستان پر ڈالر کا دباؤ بھی کم ہوتا اور بجلی بھی سستی ہوتی۔ پرویز مشرف کے دور کے اختتام پر ملکی قرض جی ڈی پی کے تقریبا 55 فیصد کے قریب تھا جو کہ پیپلز پارٹی اور( ن) لیگ کے دور میں جی ڈی پی کے 85 فیصد سے زیادہ بڑھ چکا تھا جبکہ ملکی قانون کے مطابق قرض جی ڈی پی کے 65 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھا سکتے۔ آج پاکستان کے قرضے جی ڈی پی کا 95 فیصد ہو چکے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینا ہے۔ اس وقت سری لنکا کے قرض جی ڈی پی کا 119 فیصد ہیں۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہیں کہ اگر سیاسی عدم استحکام جاری رہا تو خدانخواستہ پاکستان چند ماہ میں سری لنکا بن سکتا ہے۔