تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-03-2022

سوچو کبھی ایسا ہو تو کیا ہو؟

یوکرین پر روس کی لشکر کشی کے بعد سے اب تک کئی بار ایٹمی جنگ چھڑنے کے خدشے کا اظہار کیا جاچکا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے نیوکلیئر فورس کو ہائی الرٹ بھی کردیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا جان رکھے کہ کسی بھی وقت ایٹمی ہتھیار بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ کیا ایٹمی ہتھیار ایسی چیز ہے جسے استعمال کرنے کے بارے میں سوچا بھی جاسکے؟ ایٹمی ہتھیار تو انتہا کا نام ہے۔ امریکا نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے تھے۔ تب کا معاملہ اور تھا۔ جاپان کے پاس ایٹمی ہتھیار نہ تھے۔ کوئی اور طاقت بھی امریکا کو منہ دینے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ آج کی دنیا بہت مختلف ہے۔ امریکا سمیت 9 ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں۔ اب اگر کسی نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیا تو جواب میں خود بھی اس کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی ملک کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں اور وہ ایٹمی ہتھیار کا نشانہ بننے پر بھی اپنے ایٹمی ہتھیار نہ چلائے۔
دنیا نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اس موڑ سے معاملات کسی بھی طرف جاسکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں مفادات کی جنگ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایک بڑا‘ بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر متعارف کرایا جانے والا عالمی نظام اپنی طبعی عمر پوری کرچکا ہے۔ اس کی فرسودگی بڑھتے بڑھتے اُس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں نیا ہمہ گیر عالمی نظام تیار کرنا لازم ہوچکا ہے۔
روسی صدر کے بارے میں بہت سوں کا خیال ہے کہ وہ یوکرین کو دبوچنے اور دیگر علاقائی ممالک کو اپنی مٹھی میں لینے کے چکر میں بدحواس ہوکر ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی سیاسی رہنما کتنا ہی بدحواس ہو‘ اتنا ضرور جانتا ہے کہ ایسا کوئی بھی ہتھیار نہیں چلایا جاسکتا جو پلٹ کر اپنی ہی طرف آسکتا ہو۔ ایسے ہتھیار کو boomerang کہا جاتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار بھی اسی درجے میں ہیں۔ ایٹمی ہتھیار چلانے والا ملک بھی تباہی سے نہیں بچ سکتا۔ یہ کوئی پستول سے گولی داغنے جیسا معاملہ نہیں کہ کہیں چُھپ کر بیٹھ گئے اور گولیاں داغ دیں۔ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے پر خود استعمال کرنے والا بھی تباہی کے دائرے میں آئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات ایسی آسانی اور روانی سے کی جاتی ہے جیسے یہ کوئی بچوں کا کھیل ہو! کسی نے سوچا بھی ہے کہ ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعے جنگ لڑی جائے تو دنیا کا حشر کیا ہوگا؟ دوسری جنگِ عظیم کے اختتامی لمحات میں امریکا نے جاپان کے دو شہروں پر جو ایٹم بم گرائے تھے اُن سے ہونے والی تباہی کو جاپانی آج تک بھگت رہے ہیں۔ بم گرائے جانے کے وقت مجموعی طور پر ڈیڑھ لاکھ افراد لقمۂ اجل ہوئے تھے اور تابکاری کی زد میں آنے والوں کو کینسر اور دیگر جان لیوا بیماریاں ہوگئی تھیں۔ یہ بیماریاں اُن کی نسلوں میں منتقل ہوگئیں۔ آج بھی بعض جاپانی گھرانوں میں ایٹم بم کی پیدا کردہ تابکاری کے اثرات والے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اب یہ بھی یاد رکھیے کہ آج تک گرائے جانے والے دو ایٹم بم آج کے ایٹم بموں سے کہیں کم طاقت کے حامل تھے۔ فی زمانہ اُن دو ایٹم بموں سے کئی سو گنا طاقت رکھنے والے بم موجود ہیں جن کے بروئے کار لائے جانے کی صورت میں اس دنیا کا حشر نشر ہو رہے گا۔ ایسے میں ہر سنجیدہ انسان کو یہ سوچنا ہی چاہیے کہ معاملات کسی بھی صورت ایٹمی جنگ تک نہ پہنچنے پائیں۔
اب آئیے اس سوال کی طرف کہ ایٹمی جنگ چھڑ جانے کی صورت میں اس دنیا کا کیا بنے گا‘ ہم کس حال میں ہوں گے اور ہوں گے بھی یا نہیں۔ دل خراش حقیقت یہ ہے کہ ایٹمی جنگ چھڑنے کا ایک واضح مطلب ہے روئے ارض پر زندگی کے خاتمے کا انتہائی قوی امکان۔ آج کے ایٹمی ہتھیار جس نوعیت کی تباہی یقینی بناسکتے ہیں اُس کے بارے میں صرف سوچنے ہی سے کپکپی چُھوٹتی ہے۔ آج کا ایک عام ایٹمی ہتھیار بھی اتنا طاقتور ہے کہ اچھے خاصے بڑے شہر کو مٹی کا ڈھیر بنادے۔ آج کے ایٹم بم اتنے طاقتور ہیں کہ بنیادی ڈھانچے کو مکمل طور پر تباہ کرسکتے ہیں۔ ان سے خارج ہونے والی تابکاری بھی اتنی زیادہ ہوگی کہ جانداروں کے لیے سانس لینا محال ہو جائے گا۔ اگر ایٹمی ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال ہونے تک معاملہ پہنچا تو سمجھ لیجیے روئے ارض کو خدا حافظ کہنے کا وقت آگیا۔
ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں کتنی تباہی واقع ہوسکتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لیے مغرب میں طبیعات‘ کیمیا‘ حیاتیات‘ ایٹمی ٹیکنالوجی‘ معاشیات اور دیگر اہم شعبوں سے تعلق رکھنے والے 40 ماہرین کی ایک ٹیم کو کام پر لگایا گیا۔ اس منصوبے پر کم و بیش 30 لاکھ ڈالر صرف ہوئے۔ ان ماہرین نے ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں پہنچنے والے نقصان کے ہر پہلو کا بھرپور جائزہ لیا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ کسی بھی ایٹمی ہتھیار میں موجود مواد کس قدر تباہی برپا کرسکتا ہے‘ ماہرین نے ایک ایٹمی ہتھیار سے صرف مٹر کے دانے کے برابر ایٹمی مواد لے کر اُس کا دھماکا کروایا تو اُس کے نتیجے میں رونما ہونے والی تباہی دیکھ کر لرز گئے۔ پھر ممکنہ تباہی کا بھرپور جائزہ لیا گیا تو اندازہ ہوا کہ ایٹمی جنگ چھڑنے کی صورت میں تو کچھ بھی نہ بچے گا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں اتنا دھواں پیدا ہوگا کہ سورج کی روشنی کا زمین تک پہنچنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔ یہ کیفیت مہینوں‘ بلکہ برسوں برقرار رہ سکتی ہے۔ ایسے میں کم و بیش بیس سال تک کچھ بھی اگانا انتہائی دشوار ہوگا۔ سورج کی روشنی کے نہ ہونے سے روئے ارض پر برفانی عہد شروع ہوسکتا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے تابکاری بھی اتنی زیادہ پھیلے گی کہ پانی کے ذخائر آلودہ ہو جائیں گے۔ یوں پینے کے پانی کی تلاش انسان کو حواس سے بیگانہ کردے گی۔ سمندروں کا پانی بھی تابکاری سے اتنا آلودہ ہوچکا ہوگا کہ اُس میں پائے جانے والے جانداروں کی بہت بڑی تعداد ہلاک ہوچکی ہوگی
اور جو رہ جائیں گے اُنہیں کھایا نہ جاسکے گا۔ گویا ایٹمی جنگ خوراک‘ توانائی اور پینے کے پانی کا انتہائی خطرناک‘ بلکہ جان لیوا بحران پیدا کرے گی۔ بنیادی ڈھانچا تباہ ہو جانے سے فوڈ سپلائی چین بھی متاثر ہوگی جس کے نتیجے میں کم و بیش ہر خطے میں خوراک کا بحران بھیانک شکل اختیار کرلے گا۔
ایٹمی جنگ کے نتیجے میں پورے پورے ملک تباہ ہوجائیں گے۔ ایسے میں معیشتوں کا بھٹہ بیٹھ جانا فطری امر ہے۔ جو بڑی طاقتیں دعوے کرتی ہیں کہ اپنے شہریوں کو ایٹمی جنگ کے اثرات سے محفوظ رکھنے میں کامیاب ہوں گی وہ بھی ایسی حالت میں ڈھنگ سے جینے کا سامان نہ کر پائیں گی۔ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال دنیا کو اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ نارمل زندگی شروع کی جاسکے۔ اگر ایسی کوئی جنگ‘ خدا ناخواستہ‘ چھڑتی ہے تو اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان واقع ہوگا کہ جو بچ رہیں گے وہ سو دو سو برس تک روتے ہی رہیں گے۔ یاد رہنا چاہیے کہ جاپان میں گرائے جانے والے ایٹم بموں کی زد میں آنے والوں میں سے جو لوگ زندہ رہ گئے اُن کی چار نسلیں مختلف بیماریوں کے ساتھ پیدا ہوئی ہیں۔ یہ محض دو ایٹم بموں کا معاملہ تھا۔ اگر حقیقی ایٹمی جنگ چھڑ گئی تو کسی نہ کسی طور بچ رہنے کی صورت میں بھی کروڑوں انسان کینسر سمیت کئی جان لیوا بیماریوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہوں گے اور ان کی نسلیں بھی ان بیماریوں کے ساتھ ہی پیدا ہوں گی۔
ایٹمی جنگ کی تباہ کاری کے بارے میں وسیع البنیاد اندازے قائم کرنے والے ماہرین نے دنیا بھر کی حکومتوں کو مشورہ دیا ہے کہ تمام اختلافات ایک خاص حد تک رکھنے کی کوشش کریں اور معاملات کو اتنا کبھی نہ بگڑنے دیں کہ کوئی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات کرے اور ایسا کر بھی گزرے۔ اس حوالے سے بڑی طاقتوں کو اپنے روابط بہتر بناتے ہوئے برقرار رکھنے چاہئیں۔ ایٹمی جنگ روئے ارض کی مکمل تباہی کا منظر نامہ لے کر آئے گی۔اس لیے ہم آہنگی کی بات کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے اُتنی کبھی پہلے نہیں تھی۔ بڑی طاقتوں کو عسکری قوت کے ذریعے دنیا کو فتح کرنے کی ذہنیت ترک کرکے محبت‘ ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کے ذریعے دنیا کو رہنے کے لیے بہتر جگہ بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ اُن تمام طاقتوں پر فرض ہے جنہوں نے دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچایا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved