تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     27-03-2022

خزانے کی تلاش

قومی اسمبلی کا اجلاس بلا بھی لیا گیا اور مرحوم رکن اسمبلی کے لیے فاتحہ خوانی کے بعد پیر 28 مارچ تک ملتوی بھی کر دیا گیا۔ حکومت کی حکمت عملی اسمبلی میں کیا ہو گی، یہ ابھی بالکل واضح تو نہیں ہے لیکن مجموعی طور پر یہ سہ طرفہ پلان نظر آتا ہے۔ ایک طرف اپنی مرضی اور ضرورت کا فیصلہ لینا۔ دوسری طرف 27 مارچ کو ایک بہت بڑا عوامی جلسہ منعقد کر کے ملک، اپوزیشن، دنیا اور مقتدر طاقتوں کو یہ پیغام پہنچانا کہ مجھے نکالنا آسان نہیں بلکہ اس سے بہت سے مسائل کا آغاز ہو جائے گا۔ یہ سرگرمیاں بھی رمضان کی ابتدا تک ہیں۔ اس کے بعد عوامی جلسے بھی ممکن نہ ہوں گے اور لانگ مارچ وغیرہ بھی۔ اس بات کا ادراک حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو ہے۔ اسی لیے اپوزیشن اس معاملے کو رمضان سے پہلے نمٹانے کی خواہاں ہے لیکن اتنی جلدی اس کی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ اتحادی بھی ابھی کھل کر اعلان نہیں کر رہے اور باغی ارکان کا مستقبل بھی داؤ پر لگا ہوا ہے اس لیے صورت حال واضح ہونے میں دیر لگے گی۔
لیکن ان ساری کشا کش کی خبروں میں‘ جو ملک اور قوم کے لیے کوئی اچھی خبریں نہیں ہیں، کچھ اچھی خبریں دب کر رہ گئی ہیں‘ اور بد قسمتی سے ہمارا مزاج اب بری خبروں کو اجاگر کرنے اور اچھی خبر کو، اس طرح چھپانے کا ہو گیا ہے جیسے یہ کوڑا ہو جسے ایک شاندار کمرے میں بیڈ یا قالین تلے چھپانا ضروری ہو‘ لیکن کالی بھیڑوں کے ریوڑ میں ایک دو سفید بھیڑیں زیادہ سفید اور چمک دار نظر آنے لگتی ہیں۔ یہ معاملہ ان اچھی خبروں کا ہے۔ ان میں ایک خبر تو 15 مارچ کا اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن مقرر ہونا ہے۔ یہ دن منانا پاکستان اور ترکی کی مشترکہ کوششوں سے اقوام متحدہ میں منظور ہوا ہے‘ اور عمران خان اور طیب اردوان دونوں کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔
دوسری اہم خبر ریکو ڈک بلوچستان کے قضیے پر پاکستان پر عائد 12 ارب ڈالر کا جرمانہ معاف ہونا ہے۔ اس خبر کے بھی کئی خوش آئند پہلو ہیں‘ لیکن پہلے ان قارئین کے لیے ریکوڈک کا تعارف اور اہمیت جو سونے کی اس کان سے واقف نہیں ہیں۔
ضلع چاغی، شمال مشرقی بلوچستان میں افغانستان اور ایران کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ کوئی اور کیا، خود پاکستانی اس نام سے اس وقت آشنا ہوئے جب 1998 میں پاکستان نے یہاں ایٹمی دھماکے کیے اور دنیا نے پہاڑ کا رنگ بدلتے دیکھا‘ لیکن جاننے والے اس سے بھی پہلے جانتے تھے کہ چاغی قدرتی خزانوں سے مالا مال ہے۔ اس کے مقام ریکوڈک پر سونے اور تانبے کے بہت بڑے ذخائر زیر زمین چھپے ہوئے ہیں۔ ریکو ڈک ایک اور معدنیاتی ذخائر کے مقام سینڈک کے قریب ہے۔ 1993میں حکومت پاکستان کی طرف سے ریکوڈک کے مقام پر معدنیات کی تلاش اور کھدائی کے کام کا ابتدائی خاکہ تیار کیا گیا تو اس کی خوش آئند ہی نہیں، ہوش ربا تفصیلات سامنے آئیں۔ ایک تخمینے کے مطابق ریکو ڈک میں سونے کے 42 ملین اونس اور خام تانبے کے 20 بلین ٹن ذخائر پوشیدہ ہیں۔ اس کی مالیت کا اندازہ کم از کم 260 ارب امریکی ڈالرز ہے‘ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مالیت ایک ٹریلین امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہو۔ اگر یہ ذخائر نکال لیے جاتے ہیں تو اس میں کھدائی کی کمپنی کا نصف حصہ دے کر بھی پاکستان کی تقدیر بدل دینے کے لیے یہ سونے کی کان بہت کافی ہے۔
1993 سے جو وقت اب تک ضائع ہوا اس میں بد قسمتی سے زیادہ حکمرانوں کے عاقبت نا اندیشانہ فیصلوں کا بہت دخل ہے۔ ابتدا میں جس کمپنی سے معاہدہ کیا گیا‘ اس میں پاکستان کا حصہ صرف 25 فیصد تھا‘ اور کہا جاتا ہے کہ اس میں بلوچستان کے مفادات کا لحاظ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آوازیں اٹھنے پر اور سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر ہونے پر 2013 میں عدالت نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا تھا۔ نتیجہ یہ ہے ٹھیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) جو کئی ہاتھوں کی تبدیلی کے بعد کھدائی کرنے کی ذمے دار تھی، کھدائی کا لائسنس حاصل نہ کر سکتی۔ جس کے بعد اس نے بین الاقوامی ثالثی عدالت ایکسڈ میں پاکستان کے خلاف ہرجانے کا مقدمہ دائر کر دیا۔ پاکستان نے مقدمے کی پیروی کی اور اس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان پر بارہ ارب ڈالر کا جرمانہ عائد کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ منصوبے پر کام ہی ٹھپ ہو گیا اور اب تک ٹھپ پڑا ہے۔ پی ٹی آئی کی حکومت کو تین ایسے سنگین معاملات پچھلی حکومتوں سے ورثے میں ملے جن میں سے ہر ایک پاکستانی معیشت توڑ دینے والا تھا۔ ترک کمپنی کارکے بھی بین الاقوامی ثالثی میں گئی تھی اور پاکستان کو ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر کا جرمانہ ہوا تھا۔ یہ جرمانہ عمران خان حکومت نے صدر طیب اردوان کی مدد سے معاف کروایا۔ پھر فیٹف کی گرے لسٹ ہے۔ یہ مسئلہ بھی عمران خان کو ورثے میں ملا لیکن کہا جا رہا ہے کہ 34 میں سے 32 ہدایات پر عمل درآمد ہو چکا ہے اور امید ہے کہ فیٹف گرے لسٹ سے پاکستان باہر آ جائے گا۔
ٹھیتیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) کے عائد کردہ جرمانے پر بھی عمران خان نے ایک کمیٹی بنا کر اس پر پیش رفت کی۔ ٹی سی سی کے دو، شراکت دار تھے۔ کینیڈا کی بیرک گولڈ کارپوریشن اور چلی کی انٹا فگوسٹا کمپنی۔ اب انٹا فگوسٹا نے طے کیا ہے کہ وہ ریکوڈک پر مزید کام کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتی۔ بیرک گولڈ نے ریکوڈک پر مزید کام کرنے میں دل چسپی ظاہر کی ہے؛ چنانچہ اس کے معاہدے کے مطابق پاکستان پر عائد جرمانہ اب پاکستان کو ادا نہیں کرنا پڑے گا‘ اور اسی کے ساتھ بیرک گولڈ دس ارب ڈالر کی اس منصوبے پر سرمایہ کاری کرے گی اور بلوچستان کے لیے آٹھ ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بیرک گولڈ کے ساتھ اس منصوبے میں عدالت عظمیٰ کو بھی شریک رکھا گیا ہے تاکہ کسی بھی طرف سے کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر سب معاملات ٹھیک چلتے رہے تو چار سے پانچ سال کے اندر پیداوار شروع ہو جائے گی۔
بچپن میں سونے اور خزانے کی تلاش کی کہانیاں پڑھا کرتے تھے اور پتہ چلتا تھا کہ اس تلاش میں کس کس دیس کی خاک چھاننی پڑتی ہے اور کتنے ڈاکوؤں سے لڑنا پڑتا ہے۔ یہاں اپنے ہی دیس میں سونا پڑا ہے اور تیس سال سے ہمیں علم بھی ہے لیکن اس سونے سے ایک ٹکے کا فائدہ اب تک اٹھایا نہیں جا سکا۔ یہاں سوال دو ہیں اور دونوں اہم ہیں۔
اول‘ کیا اب اس تقدیر بدل کر رکھ دینے والی سونے کی کان سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا اور دوم کیا اس میں غلط فیصلوں اور تاخیر کے ذمے داروں کو کٹہرے میں لایا جا سکے گا۔ ان دونوں سوالوں کا جواب کب ملے گا؟ آپ کے ساتھ میں بھی جوابوں کا منتظر ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved