اے خالق و مالک ! تو نے عطا کرنے میں کوئی کمی نہ کی۔ کیسی کیسی انمول نعمتوں سے نوازا ہے ۔مملکتِ خداداد جیسے آزاد خطے سے لے کر پندرہ سو کلو میٹر سے زیادہ سمندر سے لے کربلند وبالا پہاڑی سلسلے‘وسیع و عریض ریگستان سے لے کر ناختم ہونے والے میدانی علاقوں تک۔ایک سال میں چار موسموں کے مزے۔ معدنی وسائل۔ چھوٹی بڑی صنعتوں سے لے کر کاروباری مراکزاور ثقافت اور علم و ادب کے کیسے کیسے گہوارے ملک کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔تیری رحمتوں اور کرم نوازیوں کی نا قدری کرتے کرتے پون صدی بیت چکی لیکن مسلسل ناشکری کرنے والے حکمرانوں سے لے کر عوام الناس تک سبھی کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حق تو یوںہے کہ حق ادا نہ ہوا ۔
شوقِ حکمرانی ہو یا مسلسل من مانی ۔اس ملک میں جس کو بھی تونے گورننس جیسی نعمت عطا کی وہ تیری اس عطا کو اپنی ہی کسی ادا کا چمتکار سمجھ بیٹھا۔تیری اس عنایتِ خاص پرشکر بجا لانے کے بجائے بغلیں بجاتا ہی دکھائی دیا۔آئین اور حلف سے انحراف کے علاوہ خلق ِخدا سے کیے گئے وعدوں سے یکسر مکر جانے والے نیتاربِ جلیل کی عنایات کواپنی ہنرمندی اور قابلیت سے منسوب کرنے کے کیسے کیسے جواز اور حیلے گھڑتے نظرآتے ہیں۔ ذمہ داریوں اور فرائض سے مسلسل فرار اختیار کیے ہوئے ان حکمرانوں کی ترجیحات ہی عوام کی مات کا باعث ہیں۔یکے بعد دیگرے شوقِ حکمرانی پورا کرنے والے سبھی مل کرمملکت خداداد کو اس مقام پر لے آئے ہیں کہ فیصلہ کرنا مشکل ہوچلا ہے کہ ان میں سے کون کتنا بڑا ریاکار اور اداکار ہے۔ایک سے بڑھ کر ایک اور نہلے پر دہلا ثابت ہونے والے سبھی سماج سیوک نیتا عوام کو نجانے کتنی بار باور کرواچکے ہیں کہ نیتا کچھ نہیں دیتالیکن عوام ہیں کہ ڈھٹائی کا پہاڑ بنے بار بار انہی کو آزما کر اپنی تباہی اور بربادی میں مسلسل اضافہ کیے چلے جارہے ہیں۔کوئی ملک بچانے نکلا ہے تو کوئی مہنگائی مکانے۔ کوئی اس سیاسی اکھاڑے کو حق و باطل کا معرکہ ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے تو کوئی اقتدار کے ہجر میں تڑپے چلا جارہا ہے۔کوئی طولِ اقتدار کے لیے ہر حربہ آزمانے پر تلا ہوا ہے اور حصولِ اقتدار کے لیے کسی بھی حد تک جانے کوتیار اور بے قرار ہے۔حالانکہ ان سبھی کے پلے کچھ نہیں ۔متحدہ اپوزیشن ہو یا حکمران سبھی آزمائے جانے کے باوجود خدا جانے کس بوتے پر پورے ملک کو اکھاڑا بنا کر ریلیوں اور جلوسوں کی صورت شہرِ اقتدار کی طرف رواں دواں ہیں۔سبھی کی نیتوں اور ارادوں سے لے کر نجانے کیسی کیسی وارداتوں اور کالے کرتوتوں کی انگنت داستانیں انہیں کب سے بے نقاب کیے چلے جارہی ہیں۔ سیاسی بساط پر لگی منڈی نے افواہوں اور خبروں کا بازار گرم کررکھا ہے جو عوام کے اعصاب اور نفسیات پر کسی ڈرون حملے سے کم نہیں۔حالات تو ویسے ہی تار تار ہیں‘یہ سیاسی دنگل آنے والے دنوں کو مزید ہولناک بناتا دکھائی دے رہا ہے۔ملنے والا کوئی شخص ہو یا آنے والی کوئی فون کال‘ پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ خبر کیا ہے؟ ان سبھی کو ایک ہی جواب دیتاہوں کہ خبر کوئی بھی ہو ‘برتری یا پسپائی کسی کی بھی ہو‘غالب اور مغلوب کوئی بھی ہو۔آنے والی خبر عوام کے حق میں بری ہی ہوگی۔اقتدار بدلنے سے کہاں عوام کے نصیب بدلتے ہیں۔ ماضی کے سبھی ادوار سے لے کر دورِحاضر تک۔صاحبِ اقتدار بھی بدلتے رہے ہیں‘ کردار اور چہرے بھی برابر بدلتے رہے ہیں لیکن نہ کبھی عوام کے دن بدلے اور نہ ہی سیاہ بختی میں کوئی کمی واقع ہوئی۔نسل در نسل مملکتِ خداداد پر حکمرانی کرنے والے خاندان اس ملک میں بسنے والوں کی کتنی ہی نسلیں برباد کرتے چلے آئے ہیں۔اللوں تللوں سے لے کر سرکاری وسائل کو بھنبھوڑنے تک‘قومی خزانے پر بندہ پروری اور کنبہ پروری کو حق سمجھنے والے رہنما آج بھی خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے پر بضد ہیں۔ نامعلوم اہلیت اور صفر کارکردگی کے حامل درباری ٹائپ مصاحبین کو کلیدی عہدوں سے نواز کر ان کی قابلیت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے حکمران کس منہ سے جلسے ‘ ریلیاں اور لانگ مارچ کررہے ہیں۔
ملک بھر میں کیسا میدان لگا ہوا ہے؟یہ کیسا اکھاڑا ہے جس میں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کیلئے ہر کوئی ہر حربہ آزمانے کو تیار ہے؟ حواس باختہ لوگ اخلاق باختہ گفتگو سے بھی گریز نہیں کررہے۔ یوں لگتا ہے کوئی سیاسی معرکہ نہیں‘ یہ گلی محلے کی لڑائی چل رہی ہے۔ ایک دوسرے کی کردار کشی‘ لوٹ مار اور کالے کرتوتوں کی تشہیر پر ہی زور ہے۔ اس دھینگا مشتی میں نہ کسی کو عوام کا احساس ہے اور ہی اپنی حیثیت اور منصب کا لحاظ۔ ایک دوسرے کو زچ اور زیر کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار سیاسی قائدین اختلافات کو ذاتی دشمنی بنا کر عوام کو اس طرح بیوقوف بنا رہے ہیں کہ سیاسی مخالفین سے یہ جنگ عوام کے درد میں لڑی جارہی ہے جبکہ عوام ان کی ترجیحات سے کوسوں دور اور کسی ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہیں۔
وہی خاندان‘ وہی چیمپئنز‘ وہی ایجنڈے‘ وہی ٹارگٹ‘ وہی شکار‘ وہی شکاری‘ وہی کھیل‘ وہی کھلواڑ۔ گورننس کی درگت بنانے سے لے کر میرٹ تار تار کرنے تک سبھی ایک سے بڑھ کر ایک پائے گئے۔ ان پر اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے کہ اب تو الفاظ بھی سراپا احتجاج نظر آتے ہیں کہ ان حکمرانوں پہ کوئی اثر ہونے والا نہیں اور نہ ہی حالات سدھرنے کی توقع رکھنی چاہئے۔ خلقِ خدا کی ضروریات اور حاجات سے وابستہ ہونا یقینا باعثِ اعزاز ہے۔ ربِ کائنات یہ اعزاز اپنے منتخب بندوں کو ہی عطا کرتا ہے۔ گورننس جہاں قدرت کا بہت بڑا انعام ہے اس سے کہیں بڑھ کر امتحان بھی ہے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے‘ گورننس کے مواقع قدرت نے سبھی کو عطا کیے ہیں۔ اس عطا میں خطا کی گنجائش ہرگز نہیں۔ خطا کے باوجود عطا جاری رہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ قدرت مزید مہلت دے رہی ہے۔ اس مہلت کو نعمت اور غنیمت جان کر طرزِ حکمرانی اور دیگر معاملات پر نظرثانی ضرور کرلینی چاہئے۔ کہیں کوئی بھول چوک اور خطا تو سرزد نہیں ہوگئی۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد میں روزِ اول سے لمحہ موجود تک جسے بھی گورننس کی نعمت عطا ہوئی وہ اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کرکے اسے اپنی ہی ادا کا کرشمہ سمجھ بیٹھا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ اس کی کسی ادا کا چمتکار ہے۔
خطا در خطا کے باوجود ہمارے حکمرانوں کو قدرت مہلت بھی خوب دیتی رہی۔خطائوں کے باوجود مہلت کا میسر رہنا کسی کرشمے سے کم نہیں۔ ماضی کے بیشتر حکمران طویل عرصہ تک اس کرشمے کے بینی فشری رہے ہیں۔ جوں جوں انہیں یہ کرشمے میسر آتے رہے توں توں یہ سبھی بوئے سلطانی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے۔ حکمران ماضی کے ہوں یا دورِ حاضر کے ان سبھی سے کیا یہ پوچھا جانا عین منطقی نہیں کہ جن اہداف کی تکمیل کے لیے یہ حکمرانی انہیں عطا کی جب وہی پورے نہ ہو سکے تو یہ ساری مراعات اور عزت افزائی‘ شکم سامانیاں کس کھاتے میں؟ یہ تام جھام اور موج مستیاں کس طرح جائز قرار دیں گے؟ اسی طرح سرکار سے یہ پوچھ لینے میں کیا حرج ہے کہ جس انتظامی قابلیت کا ڈھول بجاتے رہے وہ کہاں رہ گئی؟ وہ علمی اور تکنیکی مہارت کیا ہوئی جس کے دعوے کرتے نہیں تھکتے تھے۔ کہاں گئے وہ ماہرین جو برسر اقتدار آنے سے پہلے تیاری کررہے تھے؟ اس کے نتائج برآمد کیوں نہ ہوسکے؟ عوام کو گمراہ کیوں کیا گیا؟ آخر میں ایک بار پھر کہ آنے والی خبر کوئی بھی ہو عوام کے حق میں بری ہی ہوگی۔