اسلا می تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خا رجہ کو نسل کا 48ویں اجلا س عالمی چیلنجز‘ بگڑتی معاشی صورتحال، موسمیاتی تبدیلی افغانستان کے انسانی بحران، کشمیر و فلسطین جیسے سنگین مسائل سمیت اتحاد، انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری کی تعمیر کے موضوع پر نئی امیدوں اور توقعات کے ساتھ اختتام پذیر ہو گیا۔اس کے یقینا دور رس نتائج برآمد ہوں گے۔اسلامی تعاون تنظیم‘ اقوام متحدہ کے بعد دوسری بڑی عالمی تنظیم ہے‘ اس پلیٹ فارم پر اسلامی ملکوں کا اجتماع ایک بڑی کامیابی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے مسلم ممالک روسی تسلط یا مغرب کی اجارہ داری کا سامنا کر رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مسلم ورلڈ کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔
او آئی سی وزرائے خا رجہ کو نسل کے 48ویں اجلا س میں شرکت کیلئے 40 وزرائے خارجہ، 11 نائب وزیر خارجہ، 850 مندوبین اورسفیران آئے تھے۔ اس لیے بھی یہ اجلاس خا ص رہا کہ یہ پاکستان کے قیام کے 75ویں سال منعقد ہو ا اور یقینا اس سے دشمن پر اپنی ہیبت طاری رکھنے میں مدد ملے گی۔ بلاشبہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے 47 ویں اجلاس کی میزبانی اور 48 ویں اجلاس کی صدارت پاکستان کا بہت بڑا اعزاز ہے۔اگرچہ افغانستان پر منعقدہ کانفرنس کو‘ جس میں امریکی و یورپی مندو بین نے بھی شرکت کی تھی‘ بھارت و ملک دشمن عناصر نے سبو تاژ کرنے کی بہت کوشش کی تھی مگر انہیں منہ کی کھانا پڑی۔ افغانستان کی تبدیل شدہ صورت حال کے تناظر میں پاکستان علاقائی امن و استحکام کے لیے مؤثر کردار ادا کر رہا ہے اور اسلاموفوبیا کے خلاف اقوام متحدہ میں قراداد کی منظوری اسلامی ممالک کی تنظیم کا قابلِ تحسین کار نامہ ہے۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے اسلام آباد میں انعقاد سے اس خطے اور عالمی برادری میں پاکستان کی اہمیت دوچند ہو گئی ہے۔ چین کے وزیر خارجہ کی اس اجلاس میں اعزازی شمولیت ہماری تاریخ ساز کامیابی ہے۔ چین اقوام متحدہ میں مسلم دنیا کی حمایت کو نہیں بھول سکتا۔ فلسطینی و کشمیری مسلمانوں کے لیے بھی چین کی حمایت ہمیشہ غیرمتزلزل رہی ہے۔ چین دو ریاستی حل کے لیے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس وقت بیجنگ مسلم دنیا میں 600 منصوبوں پر 400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ دنیا Look West پالیسی سےLook East پالیسی کی جانب آرہی ہے۔ چین کی سستی ترین مصنوعات نے پورے یورپ کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے وہ دفاعی و حربی سامان کی پیداوار میں بھی خود کفیل ہے۔ بے شک اس نے ٹیکنالوجی سے دنیا کو تسخیر کیا ہے اور امریکا کی طرح تسلط و جبر سے علاقوں کو فتح نہیں کیا۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل نے اپنے اسلام آباد میں منعقدہ حالیہ اجلاس میں قابلِ قدر پیش رفت کرتے ہوئے کشمیر و فلسطین سمیت مسلم دنیا کو درپیش تمام مسائل کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائی ہے۔ اگر مسلم دنیا میں اتحاد و یکجہتی کا جذبہ اسی طرح فروغ پاتا رہے تو امتِ واحدہ کی حیثیت سے مسلمانوں کا دنیا پر غالب ہونا نوشتۂ دیوار ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں کہ موجودہ گمبھیر عالمی منظر نامے میں وطن عزیز ا ستعماری قوتوں کے نشانے پر ہے۔اسی پس منظر میں ہنود و یہود اور نصاریٰ پر مبنی شیطانی اتحادِ ثلاثہ کی جانب سے ہر دہشت گردی کا ملبہ مسلمانوں بالخصوص پاکستان پر ڈالا جاتا ہے جس کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ امریکی نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر نیٹو افواج کے ذریعے افغانستان پر چڑھائی کرتے ہوئے امریکی صدر بش نے اسے مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ سے تعبیر کیا تھا۔ کروسیڈ میںعالم سلام نشانہ بنا‘ یہ نیو ورلڈ آرڈر نہیںبلکہ ڈِس آرڈر تھا۔بے شک مسلم دنیا کی قیادتوں کی کمزوریوں کے باعث طاغوتی طاقتوں کو مسلم دنیا کے وسائل پر بھی اپنا تسلط جمانے اور اسے اپنا دستِ نگر بنانے کا موقع ملا حالانکہ قدرت نے جس طرح مسلم دنیا کو تیل، گیس‘ معدنیات اور دھاتوں کی صورت میں وسائل سے مالا مال کیا ہے‘ اگر یہ وسائل مسلم دنیا کے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے بروئے کار لائے جائیں تو ہمارے وسائل کے بل بوتے پر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے والی مغربی اور یورپی دنیا ہماری دستِ نگر ہو جائے لہٰذامغرب کو یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ مسلم ممالک متحد ہو گئے تو وہ اپنے وسائل کے بل بوتے پر پوری دنیا پر غالب آ جائیں گے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ او آئی سی کے اجلاس تواتر سے منعقد ہوتے رہے ہیں‘ قراردادیں بھی منظور کی جاتی رہیں لیکن ان پر عمل ندارد ہے۔ افسوس مسلم ممالک کی اتحادی تنظیمیں تو موجود ہیں مگر ان میں باہمی تجارت کے فروغ،سائنس وٹیکنالوجی،زرعی اور صنعتی میدان میں ترقی اور تحقیق کے مشترکہ پلیٹ فارم موجود نہیں ہیں۔
امریکا کی افغانستا ن سے رخصتی کے بعد اس خطے میں معاشی طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔اس وقت امریکا 23.9 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ یورپ کا دارومدار روسی گیس پر ہے۔ روس کے مطابق اب روس سے تجارت ڈالر یا یورو کے بجائے روبل کرنسی میں ہو گی، یعنی ڈالر کی حاکمیت دم توڑ رہی ہے۔ اب مسلم ممالک کو بھی ایک الگ مشترکہ کرنسی پر توجہ مر کوز کرنا ہو گی۔ روس‘ یوکرین جنگ میں امریکا یوکرین کے دفاع میں ناکام رہا جبکہ مغرب بھی مخمصے کا شکار ہے۔ اس وقت ایک جانب پاکستان، روس،چین، ایران، افغانستان اور سینٹرل ایشیا کا نیا بلاک ابھر رہا ہے تو دوسری جانب واشنگٹن اس خطے کو خالی نہیں چھوڑنا چاہتا‘ وہ کسی نہ کسی طرح اس سے منسلک رہنا چاہتا ہے۔ ہمیںاپنی طاقت کو پہچاننا ہو گا‘ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے‘ اس کے باوجود نظریں اغیار کی طرف دیکھتی رہتی ہیں۔ امریکا کی نام نہاد دہشت گردی کی جنگ میں اسی ہزار سے زیادہ قیمتی جانوں کے ضیاع اور ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے نقصان کے باوجود امریکی ڈو مور کے تقاضے بڑھتے چلے گئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خود کو امریکا اور مغرب کی دسترس سے باہر نکالیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے Absolutely not کا جو نعرہ لگا یا ہے‘ ہمارے حکمران اس پر قائم رہیں۔ہمارے پاس بہترین محل وقوع ہے۔ ایک طرف پاکستان افغانستان اور وسطی ایشیا، گیس و تیل کے ذخائر اور گلف کے سنگم پر واقع ہے تو دوسری طرف اس کی سرحدیں چین سے ملتی ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ افغانستان میں امن کے بغیر وسطی ایشیا کی تجارتی منڈیوں تک رسائی محض ایک خواب ہے۔ مشرقی یورپ اور روس تک پہنچنا بھی مشکل ہے۔ پاکستان اکیلا یہ چو مکھی لڑائی نہیں لڑسکتا۔اس وقت گوادر پورٹ کی ترقی سے بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔اب دشمن ہماری معاشی ترقی نہیں روک سکے گا۔
میری نظر میں اس وقت اقوام متحدہ غیر فعال ہو چکی ہے۔ روس‘ یوکرین جنگ اس کی بڑی مثال ہے۔ اب نئی قوت او ائی سی ہے۔ مسلم ملکوں کی لیڈرشپ ‘ دانشوروں اور مفکرین کو اس حوالے سے کام کرنا چاہیے کہ کس طرح مسلم ملکوں کو اس طرح متحد کیا جائے کہ وہ جی ایٹ، جی ٹونٹی یا نیٹو طرز کا کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اگر اسلامو فوبیا کی بات کی جائے تو یہ واضح ہے کہ مغرب کی نظر میں صرف مسلمان دہشت گرد ہیں۔اگر کوئی سفید فام‘ کوئی گورا مسلمانوں کا خون بہائے تو اس کا ''دماغی توازن خراب‘‘ ہے۔کینیڈا‘ نیوزی لینڈ میں کیا ہوا ؟کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ سفید فام یا کرسچن دہشت گردی ہے۔ افسوس یورپی ملکوںمیں بے لباس ہونا آزادی ہے اور پردہ کرنا جرم۔ ایک مسلمان کو نماز‘ ڈاڑھی اور برقع وغیرہ کی اجازت نہیں یعنی دو قومی نظریہ پوری دنیا پر چھا چکا ہے۔ دنیائے اسلام ایک الگ طرف کھڑی ہے اور یورپ سے لے کر بھارت تک‘ سب کے نشانے پر مسلمان ہی ہیں۔ انسانیت کیلئے سب سے بہتر اور اعلیٰ نظام قرآنِ مجید میں پنہاں ہے جہاں ہر مذہب کے لوگ بلا تفریق رنگ و نسل‘ انصاف حاصل کر سکیں۔ پاکستان کے آئین میں بھی یہ بات درج ہے کہ یہ بنی نوع انسان کے لیے ہے۔اگر او ئی سی کو مزید فعال کر کے اسے مسلم دنیا کے ایک بلاک کے قالب میں ڈھال دیا جائے تو یہ فورم اپنے وسائل اور افرادی قوت کے بل بوتے پر دنیا کی ناقابلِ تسخیر قوت بن سکتا ہے۔