اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ریلوے کے محکمے سے بھتہ مانگا گیا ہے اور یہ خبر خود ریلوے کے وزیر نے دی ہے۔ یہ کالم نگار کئی ہفتوں سے اس نقار خانے میں مسلسل چیخ رہا ہے کہ بھتہ اور اغوا برائے تاوان کا سرطان بڑے شہروں سے چھوٹے شہروں میں بھی پہنچ چکا ہے۔ حکمرانی کی اصل امن وامان ہے۔ باقی سب فروع ہیں۔ مریض کی سانس ہی بحال نہیں ہورہی تو زرق برق لباس پہنانے سے فائدہ ؟ بلٹ ٹرین کے بغیر گزارا ہوسکتا ہے لیکن پہلے اتنا تو ہوکہ لوگ خوف کے بغیر گھروں سے نکل سکیں اور معاشرے پر موت کی دہشت نہ طاری ہو۔ آج ریلوے کے محکمے سے بھتہ مانگا گیا ہے، کل پی آئی اے کی باری آئے گی۔ پھر ٹیلی فون کا محکمہ اور پھر وزارتیں براہ راست۔ خدا نہ کرے ایسا ہولیکن کیا کوئی سوچ سکتا تھاکہ ایک وفاقی محکمے سے جو ملک بھر میں پھیلا ہواہے بھتہ مانگا جائے گا اور اس کی خبر وفاقی وزیر خود دے ع چمن تک آگئی دیوار زنداں! ہم نہ کہتے تھے؟ ریلوے کے وفاقی وزیر نے یہ بھی بتایا ہے کہ بھتہ مانگنے کی ٹیلی فون کال کا خفیہ ایجنسی نے سراغ لگایا تو وہ افغانستان کی نکلی گویا بقول مومن ؔ ؎ کوئی تیر اس کا شاید رہ گیا تھا اپنی آنکھوں میں ابھی رونے سے اک پیکان کا ٹکڑا نکل آیا اب اس اطلاع کے ساتھ جناب سرتاج عزیز کا تازہ بیان دیکھیے۔ سرتاج عزیز محض مشیر خارجہ نہیں، دانشور ہیں، مصنف ہیں۔ اقوام متحدہ میں کئی اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہا۔ ’’پاکستان کو افغان بارڈر کا کچھ کرنا پڑے گا تاکہ نہ یہاں سے کوئی جاسکے اور نہ افغانستان سے کوئی آسکے۔ ‘‘ حضرت سعدؓبن ابی وقاص نے ایرانیوں کے پایۂ تخت مدائن پر قبضہ کرلیا۔ دوسری طرف پہاڑوں کا ایک سلسلہ تھا جو ایران کے اندر تک پھیلا ہوا تھا۔ سعدؓ بن ابی وقاص نے خلیفہ وقت عمرؓ فاروق اعظم سے اجازت مانگی کہ وہ پہاڑوں کے اس پار ایرانیوں کا تعاقب کریں لیکن امیرالمومنین ایسا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے جواب میں لکھا: ’’کاش ! سواد (دجلہ اور فرات کا درمیانی علاقہ) اور پہاڑوں کے درمیان ایک دیوار کھڑی ہوجائے تاکہ نہ وہ ہماری طرف آسکیں اور نہ ہم ان کی طرف جاسکیں۔ ہمارے لیے سواد کی شاداب زمینیں کافی ہیں۔ میں مسلمانوں کی سلامتی کو مال غنیمت پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ حضرت عمرؓ کی یہ سیاست کامیاب نہ ہوسکی اور بالآخر انہیں ایران کو اسلامی حکومت میں شامل کرنا پڑا۔ لیکن یہ ایک اور قصہ ہے اور اس قصہ خوانی کا وقت یہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرتاج عزیز کی اس تجویز کے علاوہ پاکستان کے لیے کوئی اور راستہ بھی ہے؟ یا ایک ہی راستہ ہے ؟ افغان بارڈر پر ایسا انتظام کیا جائے کہ افغانستان سے کوئی پاکستان میں آسکے نہ پاکستان سے وہاں جاسکے ؟ افسوس! پڑھے لکھے پاکستانیوں میں سے بھی کم۔ بہت ہی کم‘ ایسے ہیں جنہیں افغانستان کی تاریخ‘ نفسیات اور ممکنہ مستقبل سے آگاہی ہو۔ ٹیلی ویژن چینل کھمبوں کی طرح اُگ آئے ہیں اور پٹرول پمپوں پر تیل فروخت کرنے والے تجزیہ کار بن گئے ہیں۔ یہ نیم حکیم جب افغانستان کا مسئلہ حل کرنے کے نسخے ٹیلی ویژن کی سکرین پر فروخت کرتے نظر آتے ہیں تو بخدا وہ عطائی زیادہ قابل احترام لگتے ہیں جو بسوں میں آنکھوں کو اندھا کرنے والا سرمہ بیچتے پھرتے ہیں۔ کیا پورے مغل دور میں افغانستان نے ایک لمحہ بھی دہلی اور لاہور کے حکمرانوں کو سکون سے بیٹھنے دیا ؟ نہیں، کبھی نہیں! یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری لگے، افغانستان کا بارڈر پولیو کی وہ بیماری ہے جو پاکستان کو پیدائش ہی سے لاحق ہوگئی تھی۔ تقسیم ہند کے وقت بھارت کے لیے تاریخ کی سب سے بڑی لاٹری ہی یہ نکلی کہ اسے افغانستان بارڈر اور قبائلی علاقوں سے نجات مل گئی۔ جو قوتیں افغانستان میں پاکستانی اثرورسوخ چاہتی ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی سلامتی کو دائو پر رکھ دیتی ہیں انہیں حضرت عمرؓ کے اس قول سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ ’’میں مسلمانوں کی سلامتی کو مال غنیمت پر ترجیح دیتا ہوں۔‘‘ ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں اور کبوتری انڈوں کے بجائے براہِ راست بچے جنم دے سکتی ہے لیکن یہ ناممکن ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی نہ ہو۔ طالبان کے بہت بڑے حامی قاضی حسین احمد مرحوم نے لکھا تھا کہ ملا عمر کا مزاج ہی ایسا نہیں کہ وہ اقتدار میں شراکت تسلیم کرلیں (مفہوم) ۔ افغانستان کی دوسو چھیاسٹھ سالہ تاریخ کا ایک ایک صفحہ بتارہا ہے کہ یہ پختون اور غیرپختون کے درمیان اقتدار کی کشمکش ہے۔ 1979ء میں روسیوں کے آنے کے بعد افغانستان وہ افغانستان نہیں رہا جسے احمد شاہ ابدالی نے 1747ء میں پختون قبائل کو مجتمع کرکے بنایا تھا اور جس میں غیر پختون قومیتیں رعایا تو تھیں، حکمران نہیں تھیں۔ روسیوں کا مقابلہ کرنے والے تاجک اور ازبک اب محض رعیت بننے کے لیے تیار نہیں۔ اب وہ اقتدار میں حصہ چاہتے ہیں اور پختونوں کی روایت میں اشتراک کا وجود ہی نہیں ! کیا شمال کے تاجک اور ازبک اور وسطی افغانستان کے ہزارہ۔ جنوب کے پختونوں کے ساتھ مل کر حکومت کرسکیں گے ؟ کیا ہی اچھا ہو اگر ایسا ہوجائے۔ لیکن تاریخ قانون کی طرح اندھی ہے اور اپنا راستہ خودبناتی ہے۔ بامیان صوبے کی گورنر گزشتہ آٹھ برس سے ایک خاتون ڈاکٹر حبیبہ سروبی ہے۔ طالبان کے عہدِ اقتدار میں وہ بھاگ کر پشاور آگئی تھی۔ افغان مہاجرین کو پڑھاتی رہی۔ گورنر کے طورپروہ سیاحت کو فروغ دینے کے لیے مسلسل کوشش کررہی ہے۔ عذراجعفری افغانستان کی پہلی خاتون میئر ہے جو وسطی افغانستان کے شہر نیلی کی گزشتہ پانچ سال سے انچارج ہے۔ وہ افغانستان کے ثقافتی اور سماجی مجلہ’’فرہنگ‘‘ کی چیف ایڈیٹر رہی اور کئی کتابوں کی مصنفہ ہے۔ کیا یہ سب کچھ جنوب کے پختون کلچر میں گوارا ہے ؟ ایک عشرہ جو گزرا ہے، پختونوں نے جنگ میں گزارا ہے۔ ان کے علاقے جو کبھی بھی ترقی یافتہ نہیں تھے، مزید پارہ پارہ ہوچکے ہیں اور اجڑ چکے ہیں۔ اس کے مقابلے میں شمال کے غیرپختون یہ سارا عرصہ اپنی صنعت اور زراعت کو چمکاتے رہے، اپنے بچوں اور عورتوں کو پڑھاتے رہے اور ایک لمبی چھلانگ نہ سہی، چھوٹے چھوٹے قدم بڑھاکر نارمل زندگی گزارنے کی سعی کرتے رہے۔ کئی سال پہلے ایک ٹھٹھری صبح کو میں نے ازبکستان کے شہر ترمذ میں کھڑے ہوکر گدلے پانی کی اس لکیر کو دیکھا جسے آمو کہتے ہیں اور فارسی ادب میں جس کا ذکر جیحوں کے طورپر کیا جاتا ہے۔ اس کے ایک طرف وسط ایشیا کا وہ حصہ تھا جسے عرب ماورا النہر کہتے تھے۔ شاداب، پرامن، صنعتوں کا جال زراعت کی خوشحالی، رزق کی فراوانی۔ دوسری طرف قتل وغارت سے اٹا ہوا افغانستان جو غربت میں گلے گلے تک ڈوبا ہوا تھا۔ آج وہ لکیر آمو سے ہوتی ہوئی جنوب تک آگئی ہے۔ کابل کے شمال میں غیر پختون ہیں اور جنوب میں پختون کوئی قدرمشترک نہیں سوائے اس جبر کے جس کا ارتکاب تاریخ نے کیا اور انہیں ایک ملک کے اندر لا بٹھایا۔ بھتہ جو افغانستان سے پاکستان ریلوے سے طلب کیا گیا ہے، محض ٹریلر ہے۔ اصل فلم آگے آئے گی۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر حملہ کرنے والوں کا ’’مقابلہ‘‘ کرکے تاریخ ہم پہلے ہی رقم کرچکے ہیں۔ کاش ہمارے حکمران قرآن پاک کے معانی سے بھی واقف ہوتے اور سورہ کہف سے لوہے کی دیوار بنانا سیکھ سکتے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved