روزہ پانچ ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم 2ھ میں نازل فرمایا۔ احادیث مبارکہ میں اسلام کے پانچ ارکان کا بار بار تذکرہ ملتا ہے۔ یہ پانچ ارکان وہ ستون ہیں جن پر اسلام کی عظیم الشان عمارت تعمیر ہوئی۔ یہ ہیں کلمۂ شہادت، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج۔ (حدیثِ جبریل براویت حضرت عمرؓ، بحوالہ صحیح مسلم) اسلام کے تمام ارکان واحکام کی تشریح وتفہیم حدیث پاک اور سنت مطہرہ میں ملتی ہے۔ نبی ٔرحمتﷺ نے تمام احکام امت کے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح کردیے ہیں۔ ان احکام کی روشنی میں روزوں کی آمد سے قبل ان کے بارے میں چند نکات اہلِ ایمان کی خدمت میں عرض کیے جارہے ہیں۔
منفرد اعزاز: تمام عبادات خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کی جاتی ہیں۔ جس عبادت میں اخلاصِ نیت اور اتباعِ سنت نہ ہو‘ وہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہوتی۔ یوں ہر عبادت کا اجر اللہ رب العالمین کی طرف سے بندوں کو عطا کیا جائے گا، مگر روزے کاتذکرہ خاص طور پر ایک حدیث قدسی میں کیا گیا ہے۔ آنحضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَلصَّوْمُ لِیْ وَاَناَ اجْزِی بِہٖ وَلَخَلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ اَطْیَبُ عِنْدَاللّٰہِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ۔ روزہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ یقینا روزہ دار کے منہ سے آنے والی بساند اللہ کے نزدیک کستوری سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ (صحیح بخاری، عن ابوہریرہ، ح: 7538) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بندے کو اس کے اخلاص کی وجہ سے روزے کا انعام اپنے دست مبارک سے عطا فرمائے گا۔ یہ بھی واضح رہے کہ منہ اور دانتوں کو اچھی طرح صاف کرنا ضروری ہے۔ اس کے باوجود پیٹ خالی ہونے کی وجہ سے بساند منہ سے آتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔
ترک اور انکارِ صوم: ماہِ رمضان کا ایک روزہ بھی کسی شخص نے بلا عذر ترک کردیا تو اس کے عمر بھر کے روزے بھی اس کی تلافی نہیں کر سکتے۔(ترمذی ،ابوداؤد)روزے کاترک کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔روزہ رکھ کر بغیر عذر توڑ دینا،اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور روزے کی فرضیت کا انکار تو کفر ہے۔
بغیر عذر روزہ توڑ دینے سے کیا مراد ہے؟روزے کی حالت میں اگرکسی شخص کو کوئی ایسی بیماری،تکلیف یا حادثہ پیش آجائے،جس سے اس کی جان کو خطرہ ہو تو روزہ توڑا جا سکتا ہے۔یہ ایک معقول اور شرعی عذر ہے۔ محض بھوک پیاس کی شدت اور نقاہت کا احساس اس بات کے لیے کوئی جواز نہیں کہ روزہ دار روزہ توڑ دے۔امام غزالیؒ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ روزے کی حالت میں بھوک پیاس کی شدت ہی انسان کو ثواب کا مستحق بناتی ہے۔ان کے نزدیک تو افطار کے بعد بھی کھانے میں احتیاط برتنی چاہیے تاکہ قیام اللیل ،تہجد اور دیگر اعمال و وظائف میں سہولت رہے۔بلاشبہ امام غزالی کے اس قول میں بڑی حکمت ہے۔
فدیۂ صیام: اگرکوئی شخص روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے ۔ یہ کھانا اسی معیار کا ہونا چاہیے جس معیار کا وہ اپنے گھر میں خود کھاتا ہے۔ ایک روزے کے عوض بطورِ فدیہ ‘صدقہ فطر کی مقدار بھی دی جا سکتی ہے۔یہ رعایت صرف جسمانی لحاظ سے کمزور ،بیمار اور ضعیف مسلمانوں کیلئے ہے۔اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص محض آرام طلبی کی وجہ سے روزہ ترک کردیتا ہے اور ایک نہیں‘ ایک ہزار مسکینوں کو اس کے فدیے میں کھانا کھلاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتو مالدار روزہ ہی نہ رکھیں اور انہیں یہ احساس ہی نہ ہو کہ بھوک پیاس اور احتیاج کیا چیز ہے۔
نواقضِ روزہ: اس سے مراد وہ اعمال ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ان کو مفسداتِ صوم بھی کہا جاتا ہے۔ان کی دو قسمیں ہیں،ایک وہ جن میں صرف قضا واجب ہے اور ایک وہ جن میں قضا اور کفارہ‘ دونوں واجب ہیں۔
مندرجہ ذیل اعمال پر صرف روزہ واجب ہو گا۔
1-اس غلط فہمی میں کچھ کھا پی لیا کہ سحری کا وقت باقی ہے جبکہ سحری کا وقت ختم ہو چکا تھایا غروبِ آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیاہے‘ کچھ کھاپی لیا۔
2-دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا،مگر روزے کی نیت نہیں کی یا نصف النہار کے بعد نیت کی۔ نصف النہار سے قبل نیت کر لی تو روزہ درست ہوگا۔ نیت کے لیے الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں، محض دل کی نیت کافی ہے۔
3-روزے میں کسی نے ارادتاً منہ بھرکر قے کی۔اگر قے منہ بھر کر نہ کی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔
4-بھولے سے کچھ کھا پی لیا اور پھر یہ سمجھا کہ روزہ تو ٹوٹ ہی گیا اب کھانے میں کیا حرج ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھا لیا۔ (بھولے سے کچھ کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا)۔
5-روزے میں کان کے اندر کوئی دوا یاتیل ڈال لیا۔
درج ذیل اعمال میں قضا اور کفارہ‘ دونوں واجب ہیں
1-کھانے پینے کی کوئی چیز قصداً کھالی،یا بطور دوا کوئی چیز کھا لی۔
2-جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل کیا جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس عمل کے بعد ارادے سے روزہ توڑ دیا،مثلاً سرمہ لگایا،سر میں تیل ڈالا اور پھر یہ سمجھ کر روزہ توڑ دیا کہ سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
3-روزے کی حالت میں جنسی خواہش پوری کر لی۔
وہ امور جن سے روزہ مکروہ نہیں ہوتا
1-روزے میں بھولے سے کچھ کھاپی لیا،خواہ پیٹ بھر کر کھایا ہو اور خوب سیر ہو کر پیا ہو۔
2-روزے کی حالت میں سوتے ہوئے غسل کی حاجت ہو گئی۔
3-سرمہ لگانا،سر میں تیل ڈالنا،خوشبو سونگھنا،بدن کی مالش کرنا وغیرہ۔
4-تھوک اور بلغم نگل لینا۔
5-بے اختیار مکھی حلق میں چلی گئی،حلق میں گردوغبار پہنچ گیا یادھواں چلا گیا،خواہ وہ دھواں تمباکو وغیرہ کا ہو۔
6-کان میں خود بخود پانی چلا گیا،یا دوا چلی گئی۔
7-بے اختیار قے ہوگئی،چاہے منہ بھر کر ہی ہو۔
8-مسواک کرنا،خواہ مسواک بالکل تازہ ہی ہواور اس کی کڑواہٹ بھی منہ میں محسوس ہو۔بغیر پیسٹ کے برش کر لیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
9-گرمی کی شدت میں کلی کرنا،منہ دھونا،نہانا،یا تر کپڑا سر یا بدن پر رکھنا۔
روزے کا کفارہ: روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے۔یہ نہ کرسکے تو ساٹھ مسلسل روزے رکھے،یہ بھی نہ کر سکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
صدقۃ الفطر: جیسا کہ بیان ہوا ہے فطر کا معنی روزہ کھولنا ہے۔ روزے کے دوران انسان سے کچھ بھول چوک اور غلطی بھی ہوجاتی ہے۔کہیں کوتاہی ہو جاتی ہے،جس سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں مگرکوئی ایسی حرکت ہوسکتی ہے جو روزے کے مقامِ رفیع سے فروتر ہو۔اس کمی کوتاہی کی تلافی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدقۂ فطر کا حکم دیا ہے۔اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ اس کے نتیجے میں رمضان کے دوران غرباومساکین کی ضروریات پوری ہوتی ہیں؛نیز عید کے دن وہ بھی کھاتے پیتے لوگوں کی طرح عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔گویا یہ اسلام کے اس فلسفۂ اجتماعیت کا عملی مظہر ہے جو اہلِ ایمان کو ایک لڑی میں پروتا ،ایک صف میں کھڑا کردیتا اور اخوت کی شیرینی پورے معاشرے میں گھول دیتا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:صدقۂ فطر واجب ہے،جو روزے دار کو لغو حرکات اور اخلاق سے گری ہوئی باتوں سے پاک کر دیتا ہے نیز یہ مساکین کے طعام کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ پس جو شخص نمازِ عید سے پہلے یہ صدقہ ادا کردے،اس کا صدقہ مقبول ہے۔نمازِ عید کے بعد صدقۂ فطر ادا نہیں ہوتا،البتہ وہ عام صدقہ شمار ہوجاتا ہے۔ ایک دوسری حدیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص صدقۂ فطر ادا نہیں کرتا وہ نمازعید ادا کرنے کے لیے ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے۔
صدقۂ فطر کھاتے پیتے لوگوں پر واجب ہے۔رمضان کے دوران ادا کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے تا کہ ضرورت مند ماہ مقدس میں اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔صدقۂ فطر صرف روزہ داروں پر ہی نہیں،گھر کے مالک کی طرف سے چھوٹے بچوں ، غلاموں (آج کے دور میں گھر کے خدام وغیرہ)،عید کے روز گھر میں وارد یا پہلے سے مقیم مہمان یا اسی روز پیدا ہونے والے بچے کی طرف سے بھی واجب ہے۔
صدقۂ فطر کی مقدار: صدقۂ فطر کی مقدار دو کلو اور تقریباً ایک سو بیس گرام گیہوں ہے۔ دیگر اجناس مثلاً جو اور کھجور وغیرہ اس سے دگنی مقدار میں دینا ضروری ہے۔غلہ یا جنس دینا ہی ضروری نہیں‘اس کی قیمت بھی ادا کی جا سکتی ہے۔علما کرام ہر سال صدقۂ فطر کی رقم کا تعین کر کے عوام الناس کو مطلع کردیتے ہیں،اس لیے یہ کوئی مشکل مسئلہ نہیں ہے۔