تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-03-2022

خوراک کا بحران بھی تو ہے

چند برسوں کے دوران عالمی معیشت کو جن چیلنجز کا سامنا رہا ہے اُن کے نتیجے میں افراطِ زر کی شرح کا بلند ہونا بنیادی مسئلے کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس کے ایک منطقی نتیجے کے طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں فوڈ سکیورٹی بڑے مسئلے کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے پسماندہ ممالک کے لیے فوڈ سکیورٹی انتہائی خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ اشیائے خور و نوش کی رسد میں رکاوٹ واقع ہونے سے کروڑوں نہیں‘ اربوں انسانوں کے لیے غذا اور غذائیت‘ دونوں کی کمی پیدا ہوتی ہے۔ یہ معاملہ حکومتوں کی بنیادیں ہلانے کا سبب بھی بن رہا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران دو سال میں دنیا بھر کی معیشتیں خرابی سے دوچار ہوئیں۔ توانائی اور خوراک‘ دو ایسے شعبے ہیں جو اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پسماندہ ممالک کے لیے غذا اور غذائیت کا بحران پہلے ہی موجود تھا‘ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی۔ اب یوکرین پر روس کی لشکر کشی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال نے ''مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ والا کام کیا ہے۔ جن ممالک کے لیے فوڈ سکیورٹی کا اہتمام پہلے ہی دردِ سر ہے اُن کے درد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یوکرین کے بحران نے دنیا بھر میں اشیائے خور و نوش کا نیا بحران کھڑا کردیا ہے۔
ورلڈ پالیٹکس ریویو ڈاٹ کام کے لیے ایک تجزیے میں ولیم موزلے نے لکھا ہے کہ یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے انٹرنیشنل فوڈ سسٹم کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ کئی ممالک اشیائے خور و نوش کی شدید قلت سے دوچار ہوچکے ہیں۔ فوڈ سپلائی چین کے متاثر ہونے سے رسد پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ گندم اور مکئی پیدا کرنے والے ممالک اس بحران کے باعث آمنے سامنے آگئے ہیں۔ روس گندم برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔ اُس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں جن کے باعث وہ گندم برآمد نہیں کرسکتا۔ چند علاقائی ممالک کو تھوڑی بہت گندم فراہم کی جاسکتی ہے مگر خطے سے باہر کسی کو گندم کی فروخت روس کے لیے فی الحال ممکن نہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام ممالک شدید دباؤ محسوس کر رہے ہیں جو روس سے گندم اور دیگر غذائی اجناس درآمد کرتے آئے ہیں۔ کورونا کی وبا کے دوران فوڈ سپلائی چین بُری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اب یوکرین کے بحران نے معاملہ مزید بگاڑا ہے۔ عالمی منڈی میں غذائی اجناس کے نرخ پریشان کن حد تک بڑھ گئے ہیں۔ فروری میں عالمی منڈی میں اناج کے نرخ بلند ترین سطح پر پائے گئے۔ اس نے خوراک کے عالمی نظام کو ہلاکر رکھ دیا۔ امریکا اور یورپ کے لیے فی الحال اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنا ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکا کے لیے یہ معاملہ بہت حد تک انا کا ہے۔ وہ روس پر عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں فوری طور پر ہٹانے کے موڈ میں نہیں۔ امریکا کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس نے بہت سے ممالک کو واضح انتباہ کیا ہے کہ روس کی مدد کرنے سے باز رہیں اور اُس سے تجارت سے بھی اجتناب برتیں۔ ایسے میں روس کو گندم اور دیگر غذائی اجناس برآمد کرنے کی اجازت کیونکر دی جاسکتی ہے؟ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ کورونا کی وبا نے خوراک کا جو بحران پیدا کیا تھا اُسے یوکرین کا بحران اس طور پروان چڑھائے گا کہ اصلاحِ احوال کی گنجائش باقی نہ رہے گی۔ اس وقت وہ تمام ممالک پیداوار کے حوالے سے شدید دباؤ محسوس کر رہے ہیں جو ''خوراک کی ٹوکری‘‘ قرار دیے جاسکتے ہیں۔ امریکا بھی گندم اور دیگر غذائی اجناس کا بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہ صورتِ حال اُس کے لیے خاصی سُود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اُس کی خوراک کی برآمدات راتوں رات بڑھ سکتی ہیں۔ بھارت بھی گندم برآمد کرنے والے ممالک میں سے ہے۔ عالمی منڈی میں غذائی اجناس کے بلند ہوتے ہوئے نرخ بھارت کے لیے بھی لاٹری ثابت ہوسکتے ہیں۔
عالمگیر کساد بازاری، سرمایہ کاروں میں اعتماد کا شدید فقدان، افلاس کی بلند ہوتی ہوئی سطح، بیروزگاری کا بلند ہوتا ہوا گراف اور دیگر بہت سے عوامل دنیا بھر میں پسماندہ ممالک کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں نے پس ماندہ ممالک کو ڈھنگ سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔ سیاسی عدم استحکام نقطۂ عروج پر ہے۔ ایسے میں قومی دولت کو لٹنے سے روکنا بھی ممکن نہیں۔ مغربی اقوام نے پسماندہ اقوام کے قدرتی وسائل جی بھر کے لوٹے ہیں۔ بہت حد تک یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ امریکا اور یورپ کو باقی دنیا کے ساتھ مل کر خوراک کا بحران ختم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ پس ماندہ ممالک میں خوراک کا بحران خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ غذائیت کی کمی سے کروڑوں افراد کی جان خطرے میں ہے اور اِن میں بچے نمایاں ہیں۔ عالمی نظام کے کمزور پڑنے سے معاملات مزید الجھ گئے ہیں۔ یوکرین کے بحران نے چین اور روس کو ایک طرف کھڑا کردیا ہے جس کے نتیجے میں مغرب کا متعارف کردہ لبرل ڈیموکریسی اور آزادی منڈی کی معیشت کا پیرا ڈائم انتہائی کمزوری سے دوچار ہوچکا ہے۔ آج کی دنیا میں فوڈ سکیورٹی ناگزیر ضرورت ہے۔ اگر یہ مسئلہ مؤثر طریقے سے حل کرنے پر فوری توجہ نہ دی گئی تو بیسیوں ممالک میں خانہ جنگی چھڑسکتی ہے اور کہیں کہیں بین الریاستی تصادم کا معاملہ بھی پیش آ سکتا ہے۔
ترقی یافتہ دنیا نے عشروں تک اپنی برتری کا فائدہ اٹھایا ہے۔ فطری علوم و فنون میں برتری کا ایک لازمی منطقی نتیجہ فوڈ سکیورٹی کا معاملہ بہتر بنائے جانے کی صورت میں برآمد ہونا چاہیے تھا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ ترقی یافتہ ممالک دوسرے بہت سے معاملات میں ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کی کمزوریوں اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھا رہے تھے تو کم از کم خوراک کا معاملہ تو درست رکھنے پر توجہ دی جانی چاہیے تھی۔ ایک زمانے سے افریقہ اور ایشیا کی انتہائی بدحال اقوام خوراک کے بحران میں مبتلا ہیں۔ بھارت جیسے خوراک کے بڑے پیداواری ملک میں بھی 30 کروڑ سے زائد افراد غذا اور غذائیت کی قلت سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں بھی اس وقت خوراک کا بحران زور پکڑ رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش کے نرخ بلند ہوتے جارہے ہیں۔ بڑے شہروں میں تو لوگ جیسے تیسے اچھا کھا پی لیتے ہیں، دور افتادہ دیہی علاقوں میں لوگ ڈھنگ سے پیٹ بھرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بعض کیسز میں گھریلو بجٹ کا نصف کھانے پینے پر صرف ہو جاتا ہے۔ لباس اور دیگر ضروریات کی تکمیل کے لیے کچھ رقم مختص کیجیے تو خوراک کا معاملہ ادھورا رہ جاتا ہے یعنی غذا اور غذائیت‘ دونوں ہی کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ پاکستان اُن چند ممالک میں سے ہے جہاں خوراک کا معاملہ انتہائی ڈانواں ڈول ہے۔ حد یہ ہے کہ جن اشیائے خور و نوش کے معاملے میں ہم خود کفیل ہیں اُن کے نرخ بھی نیچے نہیں آرہے۔ عام آدمی کو تین وقت کے کھانے پر اپنی آمدن کا معتدبہ حصہ صرف کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں اچھی تعلیم اور صحت کو تو بہت دور کا معاملہ سمجھیے۔ ایشیا کے بہت سے ممالک میں یہی کیفیت ہے۔ اور اِس سے بھی بُرا حال افریقہ کا ہے۔ متعدد افریقی ممالک میں کسی نہ کسی طور مسلح مناقشے جاری ہی رہتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام انتہا کو چھو رہا ہے اور مستحکم نمائندہ حکومتوں کا قیام محض خواب ہوکر رہ گیا ہے۔ خوراک جیسے انتہائی اہم معاملے میں بحرانی کیفیت معاشروں کے مجموعی نظم کو مزید خراب کر رہی ہے۔ وسطی افریقہ کی بہت سی چھوٹی اور انتہائی کمزور ریاستوں میں خوراک کا بحران برقرار ہے۔ یہی حال جنوبی امریکا کی متعدد کمزور ریاستوں کا ہے۔ امریکا مخصوص پالیسی کے تحت اس پورے خطے کو عدم استحکام کے بندھن میں جکڑ کر رکھتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک ایٹمی جنگ سے ڈرا رہے ہیں جبکہ خوراک کا بحران وہ بلا ہے کہ بے قابو ہو تو لوگ ایٹمی جنگ کو بھی بھول جائیں! ایسے میں لازم ہے کہ چھوٹے اور کمزور ممالک اپنے مسائل کا مؤثر حل تلاش کرنے کے لیے مل بیٹھنے کی روایت ڈالیں، آپس کے مناقشے ختم کریں۔ خوراک کے بحران سے نمٹنے کیلئے بھی پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک مل کر کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔ سوال ایک دوسرے کی ضرورت کو سمجھنے اور دل بڑا کرنے کا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہو سکتا؛ تاہم ناممکن بھی ہرگز نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved