تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     30-03-2022

ٹھیک ہی ہو رہا ہے

جیسے پانی رک جاتے ہیں پاکستانی سیاست میں بھی ایک جمود سا پیدا ہو گیا تھا۔ حالیہ واقعات نے جو ہلچل پیدا کی ہے وہ اچھی بات ہے کہ کچھ ڈرامائی چیزیں ہو رہی ہیں اور کچھ سیاست میں ارتقا پیدا ہو رہا ہے۔ ارتقا اِس لحاظ سے کہ فی الوقت ہی سہی پاکستانی سیاست کو نام نہاد ایک پیج سے چھٹکارا حاصل ہو گیا ہے۔ جہاں پاکستانی سیاست کے لیے یہ اچھی خبر ہے عمران خان کے لیے بھی فائدے کی بات ہے۔ اب جو اُنہیں خود کام کرنے پڑ رہے ہیں وہ ون پیج کے زمانے میں اُن کے لیے کوئی اور کرتے تھے۔ اِس سے ایک سہارے والی کیفیت پیدا ہو رہی تھی کہ کوئی مشکل آئی کوئی کام پڑا تو فوراً ایک پیج یا سہاروں کی طرف دیکھا اور اُنہوں نے ہی وہ کام نمٹایا۔ اب جب سے سہاروں سے کچھ تناؤ پیدا ہوا ہے تو پی ٹی آئی کو مجبوراً اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا پڑ رہا ہے اور ہر حال میں اپنے پیروں پہ کھڑا ہونا ہی بہتر چیز ہوتی ہے۔
پھر جو پریڈ گراؤنڈ کے جلسے میں عمران خان نے بڑی بات کہہ ڈالی کہ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سازش ہوئی تھی اور اُنہیں ہٹایا گیا تھا میرے خلاف بھی ایسی ہی سازش ہو رہی ہے۔ قطع نظر اِس کے کہ اُن کی اِس بات میں کتنی حقیقت ہے‘ اُن کا اشارہ پاکستانی سیاست کے تناظر میں ایک مثبت چیز ہی کہلائے گا۔ عمران خان جس کے چہیتے تھے اگر آج وہ واضح الفاظ سے یا اشارتاً اسی کے خلاف بات کر رہے ہیں تو پسِ پردہ رہنے والی قوتوں کے لیے عندیہ ہے کہ بس بہت ہو چکی، سب کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے اور سیاست کو اپنے حال پہ چھوڑنا چاہئے‘ جس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ کوئی سہم جائے گا اور سیاست میں باہر سے مداخلت ختم ہو جائے گی لیکن کوئی نئی بات تو ہوئی۔
یہ نکتہ ذہن میں رہے کہ اِس حوالے سے نواز شریف کی بات میں وہ وزن پیدا نہیں ہو سکتا جو عمران خان کی بات میں ہے۔ سکیورٹی حلقوں میں نواز شریف کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عمران خان اب بھی ایک پاپولر شخص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ کرپشن کے بارے میں جو عمران خان بات کرتے ہیں وہی منترا عسکری حلقوں میں پایا جاتا ہے کہ کرپشن اور لوٹ مار نے اِس ملک کو برباد کیا‘ اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کرپشن کی سب سے بڑی نشانیاں ہیں۔ عوام اِس کہانی کو مانیں یا نہ مانیں ان حلقوں میں بہرحال یہ کہانی پائی جاتی ہے اور اِس کے ساتھ ہی اب بھی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود باقی سیاسی لیڈروں کے مقابلے میں عمران خان ایک بہتر متبادل ہیں۔ اب جب ایسا شخص مقتدرہ کے بارے میں کچھ بات کرے گا تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس کی بات میں وزن ہے۔
آگے کیا ہوتا ہے ہمیں نہیں معلوم۔ اگر عمران خان بچ جاتے ہیں اور اُن کی وزارت عظمیٰ قائم رہی تو پھر جن کو ہمارے ہاں نازک معاملات سمجھا جاتا ہے‘ اُن میں فیصلے عمران خان اپنی صوابدید کے مطابق کریں گے۔ اُنہوں نے پھر زیادہ کسی کی نہیں سننی۔ اِس سال کے آخری مہینوں میں کچھ فیصلے ہونے ہیں۔ سب چیزیں سامنے رکھ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ فیصلے عمران خان کے اپنے ہوں گے، کسی اور کی منشا یا ڈکٹیشن کے مطابق نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ون پیج کے حوالے سے تناؤ تب پیدا ہوا جب ایک تقرری کے بارے میں پرائم منسٹر کے دفتر نے فوری نوٹیفکیشن جاری نہ کیا۔ اعلان ہو چکا تھا اور سمجھا یہی جا رہا تھا کہ نوٹیفکیشن آٹومیٹک ہوگا‘ لیکن ایسا نہ ہوا اور نوٹیفکیشن جاری کرنے میں تاخیر ہوئی جو متعلقہ حلقوں کو اچھا نہ لگا۔ مؤقف عمران خان کا درست تھا کہ اِس خاص تقرری کا صوابدید اُن کا ہے اور اُن سے پوچھے بغیر کیسے فیصلہ ہو سکتا ہے۔ پھر بھی اُنہوں نے فیصلے کو رد نہ کیا، اِتنے بیوقوف تو وہ نہیں ہیں، لیکن اُنہوں نے یہ مؤقف ضرور اختیار کیا کہ معاملہ میرے سامنے آنا چاہئے کیونکہ فیصلہ میں نے کرنا ہے۔ پھر کچھ تاخیر کے بعد حکم نامہ جاری ہو گیا لیکن اِس تاخیر سے مخصوص حلقوں میں ناخوشی ضرور پیدا ہوئی۔ اب اگر ایک پیج والا قصہ بھی ختم ہوا، سہارے بھی چھوٹ گئے اور موجودہ صورت حال کا مقابلہ بغیر سہاروں کے عمران خان خود کر رہے ہیں تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ اچھی ڈویلپمنٹ نہیں؟ سویلین حاکموں میں اِتنی سمجھ اور ہمت ہونی چاہئے کہ کچھ معاملات میں اپنے فیصلے کریں اور ہر بات میں اپنے کندھوں سے پیچھے نہ دیکھتے رہیں۔
جو اَب صورت حال ہے دو سال پہلے ہوتی تو امکان غالب یہی ہے کہ توسیع نہ ہوتی۔ دو سال پہلے مروت دونوں طرف چل رہی تھی، عمران خان مروت کے شکار تھے اور دوسری طرف سے بھی ایک پیج والی مروت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اداروں میں تعلقات ہونے چاہئیں لیکن یہ جو بلا وجہ کی مروت پیدا ہو جاتی ہے یہ نہ ہو تو پاکستانی سیاست کی صحت زیادہ اچھی ہو۔ اب اِس سارے عدمِ اعتماد کے ڈرامے میں ایک پیج والی مروت ختم ہو چکی ہے۔ اِس کی بنیاد پہ یہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ آگے کسی توسیع نے نہیں ہونا۔
ویسے بھی پاکستانی تاریخ کے تناظر میں توسیع والے معاملات پاکستان کو بھاری پڑے ہیں۔ ایوب خان کی مدت ملازمت بطور سربراہ عساکر چار سال تھی۔ چار سال ہی رہنی چاہیے تھی لیکن چار سال کی توسیع اُنہیں مل گئی اور سکندر مرزا کے ساتھ مل کر اُنہوں نے جو مارشل لاء لگایا‘ توسیع کے زمانے میں ہی یہ قدم اٹھا گیا۔ یحییٰ خان اپنے ہی بادشاہ تھے، اقتدار اُن کے حوالے ہوا تو سی این سی کے ساتھ ساتھ سربراہِ مملکت بھی بن گئے۔ مے نوشی کے ماہر تھے اور اِتنے ماہر کہ ہم جیسے کمزور انسان اُن کو رشک کی نگاہوں سے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ ساتھ ہی حسین و جمیل چہروں کے ساتھ اُن کی دوستیاں بہت تھیں۔ یہ کیفیت بھی قابل رشک ہی سمجھی جائے گی‘ لیکن یحییٰ خان پر مے کشی اور حسین دوستیوں سے زیادہ بڑا الزام یہ ہے کہ سیاسی اعتبار سے اُن کے فیصلے ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوئے۔ شامیں رنگین رکھتے دوستیاں بھی نبھاتے لیکن 1970ء کے انتخابات کے نتائج کو تو مانتے۔ 3مارچ 1971ء کی قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہ کرتے، اہلِ مشرقی پاکستان کو دیوار سے نہ لگاتے۔ جو ہٹ دھرمی دکھائی گئی اُس کی وجہ سے خوئے بغاوت مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کسی کو توسیع نہ دی لیکن وہ بھی بادشاہ تھے۔ ضیاء الحق نے برخورداری کے ایسے ناٹک رچائے کہ بھٹو جیسا ذہین شخص اُن ناٹکوں کی جال میں پھنس گیا اور ضیاء الحق جن کا سنیارٹی میں نمبر کہیں نیچے آتا تھا اُن کوسربراہِ فوج بنا دیا‘ اور پھر جو بھٹو کا حشر ضیاء الحق نے کیا وہ ہماری تاریخ کا ایک درد ناک حصہ ہے۔
پاکستان میں کچھ معمول بننے چاہئیں جن پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کو چھوڑیئے، ہندوستان میں یہ توسیع والا معاملہ نہیں پایا جاتا۔ آپ کو ایک عہدہ ملا اُس کی معیاد ختم ہوئی تو آپ گھر گئے اور آپ کے جانشین نے فرائض سنبھال لئے۔ یہ دستورِ زمانہ ہمارے ہاں بھی دستور ہونا چاہئے۔ اور دیکھیں بالآخر پنجاب والی بات بھی ہوگئی لیکن بہت دیر کردی، اِس اقدام کو بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔ بہرحال حالات نہایت ہی دلچسپ ہیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved