کرتار پور گوردوارہ کے وسیع دودھیا صحن میں ہمارے قدم تیزی سے اس عمارت کی طرف اٹھ رہے تھے جہاں سے گروگرنتھ کا جاپ کی آوازیں آ رہی تھیں۔ اب ہم عمارت کے قریب پہنچ چکے تھے جس کی پیشانی پر دیوان استھان لکھا تھا۔ عمارت کی دیوار پر بابا گرو نانک کی تعلیمات کے اصول تحریر ہیں۔ ان میں پہلا اصول ہے ونڈ کھائو یعنی دوسروں کے ساتھ share کریں۔ دوسرا اصول کرت کرو ہے یعنی ایمانداری سے زندگی گزارنے کے لیے معاش کے ایسے ذریعے تلاش کئے جائیں جن میں دھوکے اور فریب کی آلائش نہ ہو۔ گرو نانک کی تعلیمات کا تیسرا اصول نام جپو ہے جس کا مطلب ایک خدا کے نام کا ذکر کرنا ہے۔ یہ ذکر مصائب سے محفوظ رکھتا ہے۔ چوتھا اصول سیوا کا ہے جس کا مطلب خدمت ہے۔ اس کے مطابق بے لوث خدمت دلی اطمینان کا ذریعہ بنتی ہے۔ گرو نانک کے پانچویں اصول ''سربت دا بھلا‘‘ کا مطلب پوری انسانیت کی بھلائی ہے۔ میں ابھی دیوار پر لکھی تحریر پڑھ رہا تھا کہ ہمارے گائیڈ نے بتایا: یہ جو عمارت کے سامنے قبر دیکھ رہے ہیں یہ بابا گرو نانک کی ہے۔ میں نے کہا: مگر بابا گرو نانک تو...‘ میرا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ہمارا گائیڈ مسکراتے ہوئے بولا: آپ یہی کہنا چاہتے ہیں کہ بابا گرو نانک تو سکھ تھے پھر ان کی قبر کیسے ہو سکتی ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے‘ بابا گرو نانک توحید کے قائل تھے۔ وہ ساری انسانیت کی بھلائی پر یقین رکھتے تھے۔ ان کے چاہنے والوں میں ہندو، مسلمان اور بدھ مت پر یقین رکھنے والے لوگ بھی شامل تھے۔ جب بابا گرو نانک کی وفات ہوئی تو مسلمانوں کا کہنا تھا چونکہ وہ ایک خدا کے ماننے والے تھے اس لیے ہم مسلمانوں کے طریقے پر ان کی تدفین کریں گے۔ اس کے برعکس ان کے سکھ اور ہندو پیروکار یہ چاہتے تھے کہ انہیں ہندو رواج کے مطابق جلایا جائے۔ اس سے پہلے کہ جھگڑا تشدد کا رنگ اختیار کر جاتا، کسی نے لاش پر پڑی سفید چادر ہٹا دی۔ ایک روایت کے مطابق چادر ہٹانے پر لوگوں نے دیکھا کہ وہاں لاش کے بجائے گلاب کے سرخ تروتازہ پھول پڑے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے۔ ایسے میں کسی دانا نے یہ تجویز پیش کی کہ چادر کے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں اور دونوں فریقوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا جائے۔ اسی طرح گلاب کے پھول بھی فریقین میں تقسیم کر دیئے جائیں۔ دونوں فریق اس تجویز پر رضامند ہو گئے۔ مسلمانوں نے چادر کے ٹکڑے اور پھولوں کو ایک قبر میں دفنا دیا اور سکھوں اور ہندئوں نے اپنے حصے کے پھول اور چادر کے ٹکڑے کو اپنے رواج کے مطابق جلا دیا اور ایک سمادھی تعمیر کی۔ کیسی عجیب بات ہے کہ گرو نانک کی قبر دیوان استھان کی عمارت کے باہر موجود ہے‘ جہاں لوگ دعا کرتے ہیں اور دیوان استھان میں داخل ہوں تو گرو نانک کی سمادھی بھی موجود ہے۔
بابا گرو نانک کی قبر اور سمادھی کے قریب سے گزرتے ہوئے ہم قدیم سیڑھیاں چڑھ کر اس وسیع کمرے کے پاس آ جاتے ہیں جس کے اندر مردوں اور عورتوں کا ہجوم تھا۔ یہ لوگ عقیدت اور یکسوئی سے گرو گرنتھ کا جاپ سن رہے ہیں۔ ایک چھوٹے سے چبوترے پر سکھوں کی مقدس کتاب گرو گرنتھ رکھی ہے جس کے پیچھے ایک سیوادار کھڑا پنکھا جھل رہا ہے۔ سکھوں کے عقیدے کے مطابق گرو گرنتھ زندہ مخلوق ہے۔ میں اور میرا بیٹا صہیب کمرے میں داخل ہوکر دروازے کے قریب تھوڑی سی جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں۔ لوگ پوری توجہ سے گروگرنتھ کا جاپ سن رہے ہیں۔ ان کی نگاہیں اس چھوٹے سے چبوترے کی طرف ہیں جہاں مقدس کتاب گرو گرنتھ رکھی ہے۔ میں اس سحر زدہ ماحول میں کھو جاتا ہوں۔ عشق بھی کیا کیا رنگ دکھاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں‘ ایک عورت چبوترے کے پاس کھڑی ہے اس کی آنکھیں بند ہیں، دعا کے لئے ہاتھ بلند ہیں اور ہونٹ پھڑپھڑا رہے ہیں۔ پتا نہیں وہ کہاں سے آئی ہے اور کس خواہش کی طلب گار ہے۔ پھر میں دیکھتا ہوں ایک نوجوان لڑکی دروازے سے داخل ہوتی ہے اور فرش پر بچھے کارپٹ پر بیٹھنے کے بجائے سیدھی چبوترے کے سامنے جاکر سجدے میں گر جاتی ہے۔ کافی دیر بعد کھڑی ہوتی ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں۔ وہ ٹشو پیپر سے آنکھیں صاف کرتی، الٹے پائوں چلتی ہوئی ہمارے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کمرے میں دور دراز سے لوگ کیسے کیسے خواب لے کر آئے ہیں۔ ان میں کچھ بھارت کے مختلف علاقوں اور کچھ برطانیہ، امریکہ اور کینیڈا سے بابا گرو نانک کی چاہت میں یہاں آئے ہیں۔ محبت اور عشق کے ان جذبوں کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ ہمیں گوردوارہ کے دوسرے حصوں کو بھی دیکھنا ہے۔ ہم کمرے سے باہر نکل آتے ہیں جہاں ایک جگہ پرشاد بٹ رہا ہے۔ لوگ تبرک کے طور پر پرشاد لے رہے ہیں۔
اب ہم ایک بار پھر گوردوارہ کے سفید دودھیا صحن میں آ گئے ہیں۔ ننگے پائوں لوگ اپنی اپنی دھن میں چلے جا رہے ہیں۔ چلتے چلتے مجھے کینیڈا سے تعلق رکھنے والا ایک سکھ یاتری بشن سنگھ مل جاتا ہے۔ میرے پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ وہ کینیڈا کے شہر کیلگری سے یہاں آیا ہے اور یہاں آ کر وہ پاکستانیوں کی گرمجوشی سے بہت متاثر ہوا ہے۔ اس کے ہمراہ اس کی بہن ہے جس کا نام رویندر کور ہے۔ رویندر کور کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں انتھروپالوجی کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ ہم چلتے چلتے سیڑھیوں پر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں جب انہیں بتاتا ہوں کہ میں نے کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو سے پی ایچ ڈی کی ہے اور میرا بیٹا صہیب ٹورنٹو میں رہتا ہے تو بشن اور رویندر کی آنکھوں میں روشنی لو دینے لگتی ہے۔ بشن بتاتا ہے کہ اس کا آبائی گھر امرتسر میں تھا، لیکن وہ کینیڈا گیا تو وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ ان کی بابا گرو نانک کے گردوارے میں آنے کی خواہش ایک عرصے سے تھی۔ آج ان کا بڑا خواب پورا ہوا ہے۔ ہم سیڑھیوں پر بیٹھے دیر تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنے گائیڈ سے کہا تھا کہ ہم اسے درشن ڈیوڑھی کے سامنے ملیں گے۔ ہم نے بشن اور رویندر سے اجازت لی اور درشن ڈیوڑھی کی طرف چل پڑے۔ درشن ڈیوڑھی میں ہمارا گائیڈ کھڑا تھا۔ واپسی پرایک بار پھر ہمارے شناختی کارڈ دیکھے گئے۔
میں گوردوارے کے احاطے سے باہر نکل کر اس سڑک کو دیکھتا ہوں جو بارڈر کی طرف جا رہی ہے۔ اس سڑک پر جائیں تو وہ پل آتا ہے جسے ریکارڈ وقت میں تعمیر کیا گیا۔ اسی سڑک پر آگے وہ جگہ آتی ہے جہاں ایک طرف پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اور دوسری طرف بھارت کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ درمیان میں وہ زیرو لائن ہے جو دونوں ممالک کے درمیان سرحد کا کردار ادا کرتی ہے۔ اس سرحد پر بابا گرو نانک کی محبت کا سدا بہار پُل ہے۔ میں اپنے سر کے اوپر کُھلے نیلے آسمان کو دیکھتا ہوں۔ آسمان پر سفید بادلوں کے ٹکڑے تیر رہے ہیں اور دور پرندوں کی ایک ڈار کُھلے آسمان میں پرواز کر رہی ہے۔ پھر میری نگاہ بابا گرو نانک کے گوردوارے کی دودھیا عمارت کی طرف چلی جاتی ہے جہاں شام کے رنگوں کی قوس قزح اتر رہی ہے۔ ہم ان رنگوں کے سحر میں گم ہو جاتے ہیں۔ ساکت اور چپ چاپ۔