تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     30-03-2022

عمران خان اور عالمی سازش

اسلام آباد کے جلسے میں عمران خان نے اپنی طویل تقریر کے آخر میں جب ایک خط لہرا کر بتایا کہ یہ ان کی حکومت کے خلاف غیرملکی سازش کا ثبوت ہے تو مجھے ایک عجیب سی پیشہ ورانہ خوشی کا احساس ہوا۔ اس خوشی کی وجہ یہ تھی کہ میں ان چند لوگوں میں سے ایک تھا جو اپنی معلومات کی بنیاد پر تحریک عدم اعتماد کو خالص جمہوری‘ سیاسی اور دیسی نہیں سمجھ رہے تھے۔ جب میں نے پہلی بار یہ بات دنیا ٹی وی پر عرض کی تو مجھے بہت سی تلخ باتیں سننا پڑیں۔ بہت سے لوگوں نے اس خبر کو بے پرکی قرار دیا اور کچھ نے مجھے حکومت کے ہاتھوں استعمال ہونے کے طعنے بھی دیے۔ میں یہ سب خاموشی سے سنتا رہا۔ جب وزیر اعظم نے یہ خط لہرا کر دکھایا تو مجھے ایک صحافی کے طور پر اطمینان ہوا کہ میری خبر آخرکار دستاویزی شکل اختیار کرکے لاکھوں لوگوں کے سامنے وزیراعظم کے ہاتھ میں لہرا رہی ہے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ تادم تحریر میں نے یہ خط نہیں دیکھا لیکن معتبر ذرائع سے مجھے اتنا ضرور پتا چل گیا تھا کہ اس خط پر سات مارچ کی تاریخ ہے اور اس میں پاکستان کو جو کچھ کرنے کے لیے کہا گیا وہ نہ کرنے کی صورت میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ایک نتیجے کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ جہاں تک اس خط یا مراسلے کا تعلق ہے تو اب یہ صرف وزیر اعظم کا سیاسی حربہ نہیں بلکہ پاکستان کی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ اس لیے اب یہ معاملہ افراد تک محدود نہیں رہا بلکہ اداروں کا ہو چکا ہے۔ پاکستان میں یہ روایت بھی ہے کہ حساس موضوعات پر اہم ترین سیاسی رہنماؤں کو بند کمرہ اجلاسوں میں قومی سلامتی سے متعلق تفصیلی معلومات فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ کوئی بھی موقف اختیار کرتے ہوئے انہیں دھیان میں رکھیں۔ جلسے میں خط لہرانا ایک بات ہے تو ریاستی سطح پر سازش کا سراغ لگا کر اسے غیر مؤثر کرنا دوسری بات۔ اس حساس معاملے میں اداروں کو متحرک کرنا بھی انہی کی ذمہ داری ہے۔
یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اپوزیشن کے علاوہ کسی دوسری طاقت کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں اس عالمی نظام کو سمجھنا ہوگا جس کے ساتھ پاکستان ہمیشہ سے منسلک رہا ہے۔ مغرب کی سرکردگی میں ترتیب پانے والے اس نظام کی بنیادی خاصیت یہ ہے کہ چھوٹے ملکوں کی معاشی ترقی درحقیقت اپنی آزادی کے کچھ حصے پر سمجھوتے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس میں شامل چند ملکوں کے سوا عملی طور پر یہ حق کسی کو بھی حاصل نہیں کہ وہ اپنی فوجی قوت کو ایک خاص حد سے آگے بڑھا سکے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی تقریباً طے شدہ امر ہے کہ اس نظام سے باہر نکلنے کے خواہشمند ملکوں کے اندر مصنوعی طور پرحکومتوں کی تبدیلی یا انتہائی صورت میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرکے بڑے ملک خود ہی اس ملک کو اپنی حفاظت میں لے لیں‘ جیسا عراق‘ لیبیا اور افغانستان میں ہوچکا ہے۔
پاکستان اس نظام سے منسلک ہونے کے باوجود اپنی خودمختارانہ حیثیت پر اصرار کرتا چلا آیا ہے۔ اس کی یہی خصوصیت دراصل عالمی نظام میں اس کی مکمل شمولیت یا انجذاب کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جب ہم مکمل طور پر اس نظام کا حصہ تھے اور غیرملکی فوجی اڈے ہماری سرزمین پر قائم تھے‘ اس وقت بھی پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات بڑھانے پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا زخم کھا کر بھی ہم نے ایٹم بم بنانے پر کام شروع کردیا تھا۔ 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں اسی نظام کی سربلندی کیلئے لڑنے کے باوجود ہم نے اسے غچہ دے کر ایٹم بم مکمل کرلیا تھا۔ 2001ء سے 2021ء تک اسی نظام کے تابع رہ کر ہم نے افغانستان میں جنگ کیلئے اڈے بھی مہیا کیے لیکن افغان طالبان کے ساتھ تعلقات بھی ختم نہیں کیے۔ اس نظام کی مجبوری ہے کہ ہمارے مخصوص جغرافیے اور مسلم دنیا میں مخصوص سیاسی حیثیت کی وجہ سے ہم پر ایک خاص حد سے زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جاسکتا اس لیے ہمارے ساتھ تعلقات دوسروں کی ضرورت کے تابع رہتے ہیں۔ ہماری ضرورت اگر افغانستان کے لیے پڑ گئی تو ہمارے قرضوں کی قسطیں آسان کردی جاتی ہیں اور جب ضرورت نہ ہو تو بین الاقوامی مالیاتی ادارے ہماری بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
دنیا کو چلانے والے اس عالمی نظام کو اس وقت چین سے خطرہ لاحق ہے۔ چین کی تیزی سے بڑھتی ہوئی دولت اور اثرورسوخ دنیا کے کمزور ترین ملک میں بھی اس نظام کے مطالبات کو نہ ماننے کا حوصلہ دے رہا ہے۔ یہ نظام افغانستان سے اس لیے بھاگ نکلا تھا کہ چین پر اپنی توجہ مرکوز کرلے۔ اس کے بھاگنے کے مناظر نے دنیا بھر پر اس کی کمزوری عیاں کردی۔ ان مناظر کے صرف چھ مہینے بعد روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ اس حملے کی تہہ میں بھی دراصل عالمی نظام کی یہی کمزوری تھی جو افغانستان میں دکھائی دی تھی۔ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اس نظام نے دراصل چھ مہینے کے اندر اندر دو شکستیں تسلیم کرلی ہیں۔ یکے بعد دیگرے شکستوں کے بعد دنیا کے سبھی ملک اس نظام کے ساتھ اپنے تعلقات کی ازسرنو تشکیل کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ چین کے مسلسل عروج اور اس نظام کی شکست کی وجہ سے ہمیں بھی اتنا حوصلہ ہوا ہے کہ افغانستان میں اپنے مفادات کے خلاف کوئی بات ماننے سے انکار کردیں۔ ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک تو ہماری حالت یہ تھی کہ ہمیں ''ڈومور‘‘ کہا جاتا تھا اور ہم خاموش رہتے تھے۔ پھر ہم نے ''نو مور‘‘کہنا شروع کیا اور اب ''ایبسلوٹلی ناٹ ‘‘ تک پہنچ چکے ہیں۔
اس عالمی نظام کو پاکستان میں پہلا باقاعدہ چیلنج ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ ان سے غلطی یہ ہوئی کہ اس نظام کے خلاف ملک کے اندر ضروری اتفاق رائے پیدا نہیں کرسکے‘ لہٰذا ایک پراسرار سلسلۂ واقعات میں وہ خود رہے نہ ان کی حکومت۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی نے اپنے اندر دو بنیادی تبدیلیاں کیں‘ ایک یہ کہ اندرونِ ملک اپنے سیاسی مخالفین کو بھٹو دور کی طرح جیلوں میں ٹھونسنے کے بجائے ان سے کوئی نہ کوئی تعلق قائم رکھا جائے اور دوسرا یہ کہ ہر صورت میں اس عالمی نظام کے اندر اپنی جگہ بنائی جائے۔ آل انڈیا مسلم لیگ سے لے کر مسلم لیگ (ن) کی آج کی قیادت تک کسی نے کبھی اس نظام کو چیلنج کرنے کی کوئی مستقل اور باقاعدہ کوشش کی ہی نہیں اس وجہ سے اس کی خارجہ پالیسی میں کبھی اتار چڑھاؤ نہیں آیا۔ عمران خان کو حکومت ایسے دور میں ملی جب اس عالمی نظام کی کمزوریاں واضح ہوچکی ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر گہرا ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کو اس نظام سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے سیاسی رہنماؤں کیلئے اس نظام کی طے شدہ حکمت عملی ہوتی ہے کہ انہیں اقتدار سے نکالا جائے اور طریقہ ایسا اختیار کیا جائے جو بالکل فطری لگے۔ عالمی نظام کے اسی جبر کا نشانہ بھٹو بنے تھے جس کا سامنا اس وقت عمران خان کو ہے۔ دونوں کے حالات میں البتہ فرق یہ ہے کہ 1970ء کی دہائی کے مقابلے میں آج یہ عالمی نظام کمزور پڑ چکا ہے۔ بھٹو کی طرح عمران خان کا بھی مسئلہ ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین پرزمین تنگ کیے رکھی ہے۔ ان کے اس رویے نے دوسری سیاسی جماعتوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ اختلاف کو دشمنی میں بدل ڈالیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کو یہ نکتہ کچھ سمجھ میں آیا ہے اور اس کا ثبوت چودھری پرویز الٰہی کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب نامزدگی ہے۔ بھٹو نے اس نظام کی مضبوطی کا غلط اندازہ لگایا تھا‘ عمران خان کے بارے میں وقت ہی بتائے گا کہ انہوں نے اس نظام کی کمزوری کا غلط اندازہ لگایا ہے یا درست۔ یہ بہرحال طے ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا انجام جو بھی ہو‘ اس کے اثرات پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بڑی دیر تک نظر آئیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved