اگر ہم تہذیب کے سلبی پہلو پہ نظر ڈالیں تو اس وقت جدید تہذیب کا وسعت پذیر ارتقا اس کرۂ ارض کی کئی گداز ثقافتوں کو نگل چکا ہے‘ بالخصوص یورپ میں مادی خوشحالی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے باعث آسائشوں کی فراوانی نے شخصی اخلاقیات، روحانی زندگی اور خاندانی نظام کی بساط لپیٹ کے مغرب کے متمدن معاشروں کو زندگی کے فطری دھارے سے جدا کر دیا ہے۔ جن معاشروں میں خاندانی نظام مٹ جائے‘ وہاں حسب و نسب سے وابستہ نجابت بے معنی اور انسانی رشتے انس و محبت کے بجائے محض باہمی احتیاج پہ استوار ہو جاتے ہیں، اس لیے ان میں خونی رشتوں اور خاندانی وابستگیوں پہ فخر و انبساط کا سوال باقی نہیں رہتا۔ روشن چہرے والی مغربی تہذیب کا یہی وہ کربناک بوجھ ہے جس کے مضمرات کی تاویل سے مغربی مفکرین ہچکچاتے ہیں؛ تاہم وہ دوبارہ اُس قدیم ثقافتی ورثے اور نظرانداز کردہ خاندانی نظام کی بحالی کے علاوہ روحانی آسودگی کے متلاشی دکھائی دیتے ہیں، جنہیں انیسویں‘ بیسویں صدی کے صنعتی انقلاب کے دوران نہایت عجلت میں ترک کر دیا گیا تھا، چنانچہ اکیسویں صدی کے آغاز پہ امریکی کانگریس کے سپیکر نیوٹ گنگرچ (Newt Gingrich) نے جب ایک تقریب میں انتہائی دلگیر لہجے میں کہا کہ ہم اپنی نوخیز نسلوں کی عصمتوں کی تقدیس اور مربوط خاندانی نظام کی بحالی کی طرف پلٹنا چاہتے ہیں‘ تو یہ آرزو دراصل مغربی تہذیب کے اُس قریب آتے دردناک انجام کی چیخ تھی جسے حساس دل و دماغ کا حامل ایک نفیس انسان دیکھ رہا تھا لیکن وہ بے قابو شخصی آزادی اور آسائشوں کے نشے میں سرشار سماج کو اپنی پکار کی طرف متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔ پُرشکوہ تہذیب کے اسی منفی رجحان نے وہاں کی سفیدفام نسلوں کو بقا کے مسائل سے بھی دوچار کیا اور صفحۂ ہستی سے مٹ جانے کے اسی خوف نے سیموئل پی ہنٹنگٹن کو تہذیبوں کی جنگ کی راہ دکھائی‘ جو بجائے خود تہذیبی شعور سے نسبتِ معکوس رکھتی تھی۔
اگر ہم صرف پانچ دہائیاں پیچھے پلٹ کے دیکھیں تو نہایت تیزی کے ساتھ ہماری خاندانی اور سماجی زندگی پہ مغربی تہذیب کی لبریزِ الم یاسیت پنجہ زن ہوتی دکھائی دے گی۔ ہمارے تسلیم و رِضا کے حامل معاشرے سرعت کے ساتھ صبر وقناعت جیسی ملکوتی صفات سے دستبردار ہو کر مغربی طرز کی پُرتعش اور خودغرضانہ زندگی کے حصول کی طرف لپکے‘ نتیجتاً یہاں بھی پُرہجوم تنہائی کو فروغ ملنے کے علاوہ خودکشی کا رجحان بڑھنے لگا، خاندانی رشتے اور سماجی تعلقات کمزرو ہونے لگے جن کا عکس ہمیں ٹی وی ڈراموں اور فلموں کی سیمیں سکرینوں پہ بھی نظر آیا۔ اس سے بھی بڑھ کر جنگِ دہشت گردی کے تقاضوں نے جب ثقافتی عوامل اور سماجی اجتماعات پہ حملوں کے ذریعے صدیوں کی گود میں پلنے والے ہمارے میلوں‘ ٹھیلوں، شادی بیاہ کی تقریبات، مذہبی اجتماعات اور عروس جیسے ثقافتی مظاہرکو ہدف بنایا تو سوسائٹی سسک کر رہ گئی۔ مستزاد یہ کہ ریاستی انتظامیہ نے معاشرے کو ریگولیٹ کرنے کے بجائے بلاسوچے سمجھے سخت ترین حفاظتی اقدامات کی آڑ میں ان گداز رسموں کا گلا گھونٹ کے ایسا معاشرتی خلا پیدا کیا جسے ہماری نوجوان نسل نے نفرتوں اور تشدد کی جدلیات سے پُرکرنے کی کوشش کی۔ قدم قدم پہ بنی چیک پوسٹوں نے شہریوں کی نفسیات پہ تباہ کن اثرات مرتب کیے۔ بالخصوص قبائلی اضلاع اور بلوچستان میں ابھرنے والی تحریکوں کو خام مواد روا رکھے جانے والے اسی سلوک نے فراہم کیا۔ جا بجا قائم ناکوں نے ذہنی تفریق کا دائرہ وسیع کیا جس سے ریجنل نیشنل ازم تقویت پاتا رہا؛ تاہم اس کے باوجود مشرقی معاشروں کے ذہنی جمود کی بدولت اب بھی یہاںخاندانی نظام مضبوط اور حسب و نسب سے جڑی عصبیتیں اس قدر گہری ہیں کہ انہیں ذاتوں اور برادریوں کے بندھن میں منظم رکھنا آسان ہو گا۔ شاید اسی سماجی ربط کی بدولت ابھی علم و فن، صحافت و سیاست اور کاروبار میں موروثیت فطری حیثیت کی حامل ہے‘ جسے سماجی نظام سے جدا کرنا ممکن نہیں اور یہی ثقافتی قدریں آج بھی ہمارے مسائل کی پیچیدگیوں پہ حاوی ہیں۔ افسوس کہ سیاست میں مغرب کی اندھی تقلید کے قائل بعض عاقبت نا اندیش صحت مند موروثیت پہ مبنی اِن فطری سیاسی، تجارتی اور ثقافتی وابستگیوںکو طعنہ زنی کا کوڑا بنا کر برساتے ہیں جس نے ہمارے خاندانی نظام کے تسلسل اور حسب و نسب سے جڑی روایات کومربوط رکھا ہوا ہے۔ مغربی سماج میں حسب و نسب کا افتخار اور کاروبار و سیاست میں عدم موروثیت تہذیب کا کوئی صحت مند حصول نہیں بلکہ یہی کارپوریٹ کلچرخاندانی نظام کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کی ادھوری مساعی تھی جو بے نتیجہ رہی۔ ثقافتی عوامل سے عاری تہذیب کے اسی بوجھ نے سفید فام نسلوں کے مٹ جانے کے اسباب مہیا کیے۔
مغربی سیاسی مفکرین تہذیب کے ماخذ اور معانی کا جو خاکہ پیش کرتے ہیں، اس میں انسانی جبلتوں کو عقلی ہدایت کے تابع لانے کی کوئی سکیم شامل نہیں ہوتی کیونکہ اس کام کے لیے انہیں لامحالہ مذہب سے وابستگی کی تجدید کرنا پڑے گی لیکن مغربی اشرافیہ نے طے کر لیا ہے کہ تہذیب و تمدن کا ارتقاء مذہبی ثقافت کے اثرات سے آزاد ہونا چاہئے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ لازمی طور پر تہذیب و ترقی کی اساس اور مذہبی نظریات کے مابین قدرتی تعلق کو دانستہ نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مغربی فلاسفہ کے انہی تصورات کی جزئیات کو اگر کھولیں تو جو افسردہ کن پہلو سامنے آئیں گے ان میں تہذیب کے نام پر کیے جانے والے جرائم بہت نمایاں ہیں جن میں تہذیب کی ترویج کی آڑ میں کمزور اقوام کو فتح کرکے نوآبادیاتی نظام کو قائم کرناوغیرہ شامل ہے۔ اسی رجحان نے شاید تہذیب اور جنگ کو لازم ملزوم بنا کر فطرت کے ساتھ انسانی بقا کے رشتے کوکمزور کیا۔ اس تصورکی ابتدا ہمیں پہلی بار سکندر مقدونی کی مہمات میں نظر آئی، جس نے عالم انسانیت کو یونانی فن و تہذیب سے منور کرنے کی خواہش کی تکمیل کی خاطر دنیا کی تسخیر کا فیصلہ کرلیا لیکن جب وہ ہندوستان پہنچا تو یہاں کی پُرشکوہ تہذیب، دیومالائی فن و ادب اورخاموش دانش نے اسے مسحور کر دیا۔ پورس کے دانشوروں کے وفد نے سکندر سے ملاقات کرکے اس سے پوچھا کہ آپ جنگ کیوںچاہتے ہیں؟ہم آپ کو بغیر جنگ کے ملک سمیت دولت اور فن بھی بخش سکتے ہیں‘ اس پر سکندر کی فلسفہ زدہ قوم کے جرنیلوں نے لڑنے سے انکار کر دیا، انہوں نے سکندر سے کہا: آپ نے ہمیں بتایا کہ غیر مہذب اور وحشی دنیا کو ہم یونانی علم و فن اور تہذیب کے نور سے منورکریں گے لیکن یہاں تو علم و فن اور تہذیب و ثقافت ہماری حدودِ علم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے، ہسٹری آف سولائزیشن کے مصنف وِل ڈیورنٹ نے لکھا ہے کہ سکندر نے اپنے جرنیلوں کا انحراف دیکھ کر فوج کو جذباتی خطاب کرتے ہوئے کہا ''جائو! مقدونیہ کے لوگوں کو کہہ دو کہ ہم اپنے بادشاہ کو دشمنوں میں تنہا چھوڑ آئے ہیں‘‘ اور اسی مایوسی کے عالم میں سکندر نے دس دن تک خود کو خیمے میں بند رکھا۔ اگرچہ یونانی فوج نے سکندر کی اطاعت ترک نہ کی لیکن وہ حوصلہ ہار بیٹھی تھی۔
نئی تہذیب کے تصور کا موجودہ استدلال بھی اسی طرح مغرب میں شعوری طور پر مذہب تبدیل کرنے والی ایک صلیبی جنگ کے نام پر‘ جو اہل علم نے لڑی تھی‘ کھڑا ہوا اور جس کا ظاہری مقصد ''جنگلی ثقافتوں‘‘ کے آثار کو ختم کرنا تھا۔ یہ بھی دراصل سکندر کے ناکام تصورات کی جگالی تھی۔ اس استدلال کو جانچنا زیادہ مشکل نہیں‘ اسے اگر ایک قدر کے طور پر لیا جائے تو تہذیب سیاسی اور اخلاقی معمول کی تشکیل کرتی ہے۔ یہ وہ معیار ہے جس کے ذریعے بربریت یا غیر تہذیب کو پرکھا جائے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے اور یہی دلیل مغربی اہلِ دانش دیتے ہیں کہ تہذیب ریاستی، سماجی، سیاسی، ثقافتی، جمالیاتی اور یہاں تک کہ اخلاقی اور جسمانی وجود بھی رکھتی ہے، جسے تمام بنی نوع انسان کے لیے بہترین کیفیت ذہنی قرار دینے کے باوجود اسی تصور پر یہ مہلک دعویٰ بھی قائم کیا گیا کہ تہذیب کو صرف مہذب ہی جان سکتے ہیں کہ مہذب ہونا کیا ہے۔ اس بے بنیاد دعوے اور اس کے نام پر کیے گئے فیصلوں سے تہذیب کے بوجھ کا وہ تصور پیدا ہوا، جس نے مغرب والوں کو رجعت قہقری پہ آمادہ کیا بلکہ یہی اصول مغربی تہذیب کے نامطلوبہ پہلوؤں اور منفی نتائج پر بھی دلالت کرتا ہے۔