مارچ میں مارچ تو ہوتا ہی ہے اور یہ مارچ یومِ پاکستان کی پریڈ میں ہوتا ہے۔ اس بار پریڈ مارچ کے بعد بھی سڑکوں پر مارچ ہورہے ہیں۔ یہ کون کر رہا ہے؟ یہ مارچ سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور کارکنان کررہے ہیں۔ پہلے مارچ میں شہرِ اقتدار میں بہار آتی تھی‘ ہر سو پھول کھل جاتے تھے‘ اس کے ساتھ ساتھ پولن بھی ہم سب کی ناک میں دم کردیتے تھے مگر اب تو ماجرا ہی کچھ اور ہے۔ پولن کے ساتھ مارچ‘ دھرنے اور ریلیاں بھی ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔ ویسے بھی مجھے صرف ایک ہی مارچ پسند ہے اور وہ 23 مارچ کو مسلح افواج کا مارچ ہے۔ اب مارچ میں سیاسی اجتماعات کی روایات بھی جڑ پکڑتی جا رہی ہے اور مارچ کو جلسوں‘ دھرنوں اور ریلیوں کا مہینہ بنا لیا گیا ہے۔ سب کو اسلام آباد آنا ہے‘ تو ہم اسلام آباد واسی کہاں جائیں؟ ہر جماعت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ لاکھوں لوگ اسلام آباد آرہے ہیں‘ تو جو چند لاکھ لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں‘ وہ کہاں جائیں؟ ہر چند مہینوں بعد اسلام آباد میں دھرنے‘ ریلیاں اور جلسے‘ جلوس ہوتے ہیں جو لوگوں کے معمولاتِ زندگی کو متاثر کرتے ہیں‘ پھر بھی اسلام آباد والے شکوہ کناں نہیں ہوتے۔ سڑکوں پر مظاہرین کی وجہ سے شہری اپنے کام پر نہیں جاپاتے‘ نوجوان تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچ پاتے‘ مریضوں کو ہسپتال جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ جڑواں شہروں کا رابطہ ایک دوسرے کے ساتھ کٹ جاتا ہے اور لوگوں سڑکوں پر خوار ہوجاتے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ بند ہو جاتی ہے اور میٹرو بس سروس بھی روک دی جاتی ہے۔ شاہراہوں پر نہ تو کھانے پینے کی دکانیں ہیں نہ ہی واش رومز۔ ان حالات میں سب سے زیادہ تکالیف کا سامنا خواتین اور بچے کرتے ہیں۔ اب گرمیاں آگئی ہیں‘ اگر تھوڑی دیر کے لیے ٹریفک رک جائے تو گرمی اور پیاس کی شدت سے برا حال ہوجاتا ہے‘دھرنوں اور ریلیوں میں کیا ہوتا ہو گا‘ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ابھی وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں پاور شو کیا۔ لاکھوں لوگ ملک کے مختلف حصوں سے اسلام آباد میں داخل ہوئے۔ اسلام آباد کے شہری ٹریفک جام کا عذاب سہتے رہے کیونکہ سب لوگ چھٹی کرنا افورڈ نہیں کرسکتے؛ تاہم بہت سے شہری خود بھی اس جلسے میں شرکت کے لیے جارہے تھے کیونکہ انہوں نے وزیراعظم‘ حکومت اور جمہوریت کو بچانے کے لیے باہر نکلنا ضروری سمجھا۔ ہونا بھی یہی چاہیے۔ ہر حکومت‘ ہر وزیراعظم کو پانچ سال کی مدت پوری کرنی چاہیے‘ اسی طرح ہر اسمبلی کو بھی اپنی پانچ سال میعاد مکمل کرنی چاہیے۔ اگر سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہی غیر جمہوری کاموں میں لگ جائیں تو عوام کا باہر نکلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ 27 مارچ کو عوام کی بڑی تعداد گھروں سے نکلی اور جمہوریت کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ حکومت کے اس جلسے میں بچوں‘ بڑوں‘ خواتین‘ نوجوانوں اور خصوصی افراد کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ جلسے میں دھواں دھار تقاریر ہوئیں جس دوران عوام کا جوش دیدنی تھا۔ وزیر اعظم صاحب نے ہار ماننے سے انکار کر دیا اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا۔ یہ ایک بڑا جلسہ تھا‘ صد شکر کہ یہ امن و امان کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچا؛ تاہم اسلام آباد اس دوران عملی طور پر بند تھا اور عوام کے معمولاتِ زندگی خاصے متاثر ہوئے۔ اسی طرح 28 مارچ کو مریم نواز کی ریلی اسلام آباد میں داخل ہوئی تو اسلام آباد کی سڑکوں پر بدترین ٹریفک جام ہو گیا۔ پولیس یا انتظامیہ جتنی بھی کوشش کر لے‘ دوسرے شہروں سے عوام جب کثیر تعداد میں کسی شہر میں داخل ہوں تو معاملات الجھ جاتے ہیں۔ انتظامیہ اتنے لوگوں کو سنبھال نہیں پاتی اور سارے شہر کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ اُس روز بھی جی 15 اور جی 11 میں بدترین ٹریفک جام تھا‘ اس کے علاوہ ایف الیون میں بھی ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی اور چھوٹے بچوں‘ خواتین اور مریضوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
مسلم لیگ کی ریلی کے اسلام آباد پہنچنے کے بعد پی ڈی ایم نے اپنے جلسے کا انعقاد کیا، یہ ایک اچھا جلسہ تھا جس میں تمام اپوزیشن کی پارٹیوں نے شرکت کی؛ تاہم میری نظر میں یہ جلسہ اُتنا بڑا نہیں تھا جتنا بڑا جلسہ پی ٹی آئی کا تھا۔ پی ڈی ایم کے جلسے میں مریم نواز کی تقریر سن کر مجھے بہت افسوس ہوا‘ وہ وزیراعظم سے منسلک لوگوں پر لفظی وار کرتی رہیں۔ جب دلیل ختم ہوجائے تب انسان ذاتیات پر اتر آتا ہے۔ افسوس کہ ہماری تمام تر سیاست اس وقت طعن و تشنیع اور الزامات کے گرد گھوم رہی ہے۔ یہ کیسی سیاست ہو رہی ہے جس میں اتنی نفرت آگئی ہے؟ ہم سب پاکستانی ہیں‘ سب محب وطن ہیں۔ اختلاف کریں لیکن تہذیب کے ساتھ‘ یہ تو کوئی طریقہ نہیں کہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالا جائے اور طعنے دیے جائیں۔ سیاست کریں‘ جھگڑے نہیں۔
اپوزیشن کی ریلی اور جلسے میں دھواں دھار تقاریر ہوئیں۔ شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن ، مریم نواز ، حمزہ شہباز اور دیگر نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مریم نواز تو جوشِ خطابت میں شہباز شریف کو 'وزیر اعظم‘ تک کہہ گئیں۔ جے یو آئی ایف‘ جو ماضی میں خواتین کی حکمرانی قبول نہیں کرتی تھی‘ کے سٹیج پر خواتین کی نمایاں تعداد دیکھ کر اچھا لگا۔ سیاست نظریات بھی تبدیل کرادیتی ہے۔ تاہم یہ تبدیلی دیکھ کر خوشی ہوئی۔
مارچ‘ ریلیاں‘ دھرنے‘ جلسے ایک طرف‘ سوال یہ ہے کہ کیا اپوزیشن کے پاس نمبرز پورے ہیں؟ کیا ان کے پاس کوئی ترپ کا پتا ہے جو انہوں نے اب تک نہیں کھیلا؟ وزیر اعظم عمران خان نے تو جلسے کے دوران اور اس کے بعد سب کوسرپرائزڈ کردیا۔ مسلم لیگ قاف کو پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ دے کر انہوں نے سب کو حیران کردیا۔ ایم کیو ایم سے بھی ان کے معاملات طے پاگئے ہیں۔ یہ دیکھ کر سب ایک دم سے حیران ہو گئے؛ تاہم 'باپ‘ اور منحرف ارکان اب بھی حکومت کے لیے بڑی پریشانی کا باعث ہیں۔ اس وقت ہر طرف یہی شور برپا ہے کہ وہ جیت رہے ہیں‘ ان کے نمبرز پورے ہیں‘ مگر یہ دیکھنا ہوگا کہ مقدر کا سکندر کون ہے۔ شیروانی نئی سلے گی‘ امیدوار نیا ہوگا یا کھیل اب بھی حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ میں جمہوری اقدار کو مانتی ہوں‘ اس لیے سڑکوں‘ دھرنوں اور مارچوں پر حکومت ختم کرنے کی قائل نہیں۔ حکمرانی صرف ووٹ کی ہونی چاہیے‘ ووٹ ہی منتخب کرے اور ووٹ ہی مسترد کرے۔ پارلیمان میں ہونے والی ووٹنگ سے پہلے ہونے والی ہارس ٹریڈنگ اور خریدوفروخت پارلیمانی و جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔ اپوزیشن عدم اعتماد کی تحریک لائے‘ یہ اس کا جمہوری حق ہے لیکن وفاداریاں خریدنا کہیں سے جمہوری اقدار نہیں۔ پیسے چلانا‘ ہارس ٹریڈنگ کرنا عوام کے ووٹ بینک پر صریح ڈاکا ہے۔ یہ کھیل ختم ہونا چاہیے۔ جمہوری حکومت اور وزیراعظم کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں۔ افسوس کہ سیاست دان اور ہماری سیاسی جماعتیں خود ہی یہ نہیں چاہتیں۔ وہ خود جمہوریت کو ڈی ریل کررہی ہیں جو اس بات کی عکاس ہے کہ سارا کھیل کرسی کا ہے۔ اگر عوام کی خدمت مقصود ہوتی تو وہ اپوزیشن میں رہ کر بھی ہوسکتی ہے۔اس سارے تماشے کا اصل مقصد اقتدار کا حصول ہے اور کچھ نہیں! موجودہ حکومت کی آئینی میعاد میں صرف ڈیرھ سال باقی رہ گیا ہے‘ تھوڑا سا صبر کرلیں‘ لیکن نہیں! بے صبری کی انتہا دیکھیں کہ سب اکٹھے ہو کر نکل پڑے ہیںگھر سے حکومت گرانے! ان کے مارچوں‘ جلسوں‘ ریلیوں اور دھرنوں میں عوام خوار ہو رہے ہیں۔ شہریوں کے معمولاتِ زندگی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیڈران کو تو ٹرکوں‘ کنٹینروں پر چڑھ کر‘ مسکرامسکرا کر ہاتھ ہلانے کا شوق ہوتا ہے مگر ان کی وجہ سے دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہوتا ہے‘ اس کو کام نہیں ملتا‘ اس کے گھر میں فاقے ہوتے ہیں۔ مارچ‘ مارچ میں ہوں یا اپریل میں‘ عوام صرف جمہوریت کے ساتھ ہیں۔ وہ کسی ایسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے جو منتخب حکومتوں کے خلاف رچی جائے۔
عوام میں 'ووٹ کو عزت دو‘ کا شعور جاگ گیا ہے‘ جس کا عملی مظاہرہ ہم نے 27 مارچ کے جلسے میں دیکھ لیا ۔اس کے مقابلے میں پی ڈی ایم کی درجن بھر جماعتیں مل کر بھی اتنے لوگ اکٹھے نہیں کر سکیں۔ اتنی جماعتوں کے جلسے میں تو جم غفیر ہونا چاہیے تھا مگر اُتنی تعداد میں لوگ نہیں آئے جتنی توقع کی جا رہی تھی۔ پس عوام نے جمہوریت کے خلاف سازش کو مسترد کردیا ہے اور عوام لوٹوں کو معاف کرنے کے موڈ میں بھی نظر نہیں آ رہے۔