تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     31-03-2022

قصہ ایک خط کا…

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور حکمران جماعت کے منحرفین نے ملکی سیاست کو بہت دلچسپ بنا رکھا تھا‘ لیکن یہ جھگڑا طول پکڑ کر اب بوریت سے بھر چکا تھا، اسی لیے ایک خط کے قصے نے رنگینی و سنگینی بڑھا دی ہے۔ خط کہاں سے آیا؟ اس کا مضمون کیا ہے؟ اس پر کئی لوگوں نے دعوے کئے، بہت سوں نے خط کے مندرجات سے واقف ہونے اور ایک دو نے خط کی کاپی پاس ہونے کا بھی انکشاف کیا۔ اس ساری بحث میں مجھے سعادت حسن منٹو کے چچا سام کے نام خط بہت شدت سے یاد آئے۔ منٹو کے لکھے خطوط کے کئی جملے آج بھی ہماری سیاسی اور قومی زندگی سے بہت زیادہ میل کھاتے ہیں یعنی برسوں بعد بھی کچھ نہیں بدلا۔ منٹو نے امریکا کے بارے میں اس خطے میں پائی جانے والی سوچ اور اس کے تناظر میں تعلقات کا ایک نقشہ کھینچا تھا۔
منٹو نے ایک خط میں لکھا تھا ''جب تک پاکستان کو گندم کی ضرورت ہے، میں آپ سے کوئی گستاخی نہیں کرسکتا... ویسے پاکستانی ہونے کے ناتے (حالانکہ میری حکومت مجھے اطاعت گزار نہیں سمجھتی) میری دعا ہے کہ کبھی آپ کو باجرے اور نک سک کے ساگ کی ضرورت پڑے اور اگر میں زندہ ہوں تو آپ کو بھیج سکوں‘‘۔
اس سے اگلے خط میں منٹو نے چچا سام کو لکھا، ''بہت مدت کے بعد آپ کو مخاطب کر رہا ہوں۔ میں در اصل بیمار تھا۔ علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز تھا ساقی۔ مگر معلوم ہوا کہ یہ محض شاعری ہی شاعری ہے۔ معلوم نہیں ساقی کس جانور کا نام ہے۔ آپ لوگ تو اسے عمر خیام کی رباعیوں والی حسین و جمیل فتنہ ادا اور عشوہ طراز معشوقہ کہتے ہیں جو بلور کی نازک گردن صراحیوں سے اس خوش قسمت شاعر کو جام بھر بھر کے دیتی تھی... مگر یہاں تو کوئی مونچھوں والا بدشکل لونڈا بھی اس کام کیلئے نہیں ملتا۔ یہاں سے حسن بالکل رفوچکر ہو گیا ہے۔ عورتیں پردے سے باہر تو آئی ہیں مگر انہیں دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ وہ پردے کے پیچھے ہی رہتیں تو اچھا تھا۔ آپ کے میکس فیکٹر نے ان کا حلیہ اور بھی مسخ کرکے رکھ دیا ہے... آپ مفت گندم بھیجتے ہیں۔ مفت لٹریچر بھیجتے ہیں، مفت ہتھیار بھیجتے ہیں۔ کیوں نہیں آپ سو دو سو ٹھیٹ امریکی لڑکیاں یہاں روانہ کر دیتے جو ساقی گری کے فرائض بطریق احسن انجام دیں‘‘۔
مزید لکھا، ''ہمارے ساتھ فوجی امداد کا معاہدہ بڑی معرکے کی چیز ہے۔ اس پر قائم رہیے گا۔ ادھر ہندوستان کے ساتھ بھی ایسا ہی رشتہ استوار کر لیجئے۔ دونوں کو پرانے ہتھیار بھیجئے، کیونکہ اب تو آپ نے وہ تمام ہتھیار کنڈم کر دیے ہوں گے جو آپ نے پچھلی جنگ میں استعمال کئے تھے۔ آپ کا یہ فالتو اسلحہ ٹھکانے لگ جائے گا اور آپ کے کارخانے بیکار نہیں رہیں گے۔ پنڈت جواہر لال نہرو کشمیری ہیں۔ ان کو تحفے کے طور پر ایک ایسی بندوق ضرور بھیجئے گا جو دھوپ میں رکھنے سے ٹھس کرے۔ کشمیری میں بھی ہوں، مگر مسلمان۔ میں نے اپنے لئے آپ سے ننھا منا ایٹم بم مانگ لیا ہے۔ ایک بات اور... یہاں دستور بننے ہی میں نہیں آتا۔ خدا کیلئے آپ وہاں سے کوئی ماہر جلد از جلد روانہ کیجئے۔ قوم بغیر ترانے کے تو چل سکتی ہے لیکن دستور کے بغیر نہیں چل سکتی... لیکن آپ چاہیں تو بابا چل بھی سکتی ہے۔ جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے‘‘۔
پاکستان اور بھارت کے ساتھ امریکا کے تعلقات پر منٹو نے جو برسوں پہلے لکھا یوں لگتا ہے اب تک تازہ ہے، منٹو نے لکھا ''آپ کے جنوبی ایشیائی اور افریقی معاملات کے اعلیٰ افسر، کیا نام ہے ان کا...؟ ہاں... مسٹر جان جونیگنز نے اپنے ایک بیان میں بھارت کیلئے اپنے ملک کے خیر سگالی جذبات کی ترجمانی کی ہے، اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ واشنگٹن، دلی کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے تڑپ رہا ہے۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں پاکستان اور بھارت کو خوش رکھنے سے آپ کا واحد مقصد یہی ہے کہ جہاں کہیں بھی آزادی اور جمہوریت کا ٹمٹماتا دیا جل رہا ہے، اسے پھونک سے نہ بجھایا جائے بلکہ اس کو تیل دیا جائے... بلکہ تیل میں ڈبو دیا جائے تاکہ وہ پھر کبھی اپنی تشنہ لبی کا شکوہ نہ کرے... ہے نا چچا جان؟‘‘۔
پاکستان کے انتہائی قریبی دوست سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پر منٹو نے چچا سام کو لکھا ''شاہ سعود بڑی پُر از سحر شخصیت کے مالک ہیں، طیارے سے باہر نکلتے ہی آپ ہمارے لاہور کے موچی دروازے کے گورنر جنرل جناب غلام محمد صاحب سے بغل گیر ہوئے اور اسلامی بھائیوں کی رجسٹرڈ اخوت و محبت کا مظاہرہ کیا جو بڑا کفر شکن تھا۔ آپ کے اعزاز میں کراچی کے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر نعرے لگائے، جلسے کئے، جلوس نکالے، دعوتیں کیں اور اسلام کی سیزدہ صد سالہ روایات کو قائم رکھا۔ سنا ہے شاہ سعود اپنے ساتھ ایک ایسا سونے سے بھرا ہوا بکس لائے تھے جو کراچی کے مزدوروں سے بصد مشکل اٹھایا گیا۔ آپ نے یہ سونا کراچی میں بیچ دیا اور پاکستان کو دس لاکھ روپے مرحمت فرمائے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ اس روپے سے غریب مہاجرین کیلئے ایک کالونی تعمیر کی جائے گی جس کا نام سعود آباد ہوگا... رہے نام اللہ کا‘‘۔
منٹو نے امریکا اور ملکی میڈیا کے حوالے سے کافی دلچسپ تبصرے چچا سام کو لکھے، چچا سام کے نام ایک خط میڈیا مینجمنٹ پر بھی تھا، ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیے، منٹو نے لکھا ''یہاں کے اخباروں میں صرف ''زمیندار‘‘ ہی ایسا اخبار ہے جس کو آپ کے ڈالر جب چاہیں خرید سکتے ہیں، اگر اختر علی خان رہا ہوگئے تو میں کوشش کروں گا کہ ظہورالحسن ڈار ہی اس کا ایڈیٹر رہے۔ بڑا برخوردار لڑکا ہے۔ لیکن آپ اپنے اثرورسوخ سے کام لے کر میر نور احمد صاحب کو پھر محکمہ تعلقات عامہ کا ڈائریکٹر بنوا دیجئے۔ سرفراز صاحب کسی کام کے آدمی نہیں۔ وہ لاکھوں روپیہ اخباروں میں تقسیم کرنے کے بالکل اہل نہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ روپیہ میری معرفت روانہ کریں۔ میرا ان پر اس طرح کچھ رعب بھی رہے گا اور آپ کے پروپیگنڈے کا کام بھی میری نگرانی میں بطریق احسن ہوتا رہے گا‘‘۔
جہاں تک موجودہ سیاسی سرپھٹول میں تازہ خط کی بات ہے تو مجھ ناچیز کو دور تک رسائی کے دعووں کا کوئی شوق نہیں۔ اس خط کی کوئی کاپی میرے پاس ہے نہ اس کے مندرجات کا مجھے علم، سنی سنائی باتیں ہیں جن پر تبصرے جاری ہیں۔ طویل عرصہ رپورٹنگ کی ہے اس حوالے سے صرف اتنا بتا سکتا ہوں کہ ذرائع ایسے کسی خط کے وجود سے لاعلم ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی فورم کو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت گرانے کی کسی عالمی سازش کا سراغ نہیں ملا۔ متعلقہ حکام کو ایسی کسی سازش کا ''کوئی علم‘‘ تھا نہ ہی کوئی ثبوت ملا، یہ بھی واضح نہیں کہ خط کسی ملک نے لکھا یا پاکستان کے کسی غیر ملکی سفارتی مشن نے اپنا جائزہ بھجوایا۔ ذرائع نے مزید صراحت سے لکھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو بین الاقوامی سازش سے جوڑنا غلط ہو گا، اگر خطرہ سنگین تھا تو قومی سلامتی کمیٹی کا فوری اجلاس کیوں نہ بلایا گیا۔
خط تھا یا مراسلہ، جتنے منہ اتنی باتیں، اور باتیں بھی منٹو کے فکاہیہ خطوط جیسی جن پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے۔ مجھے احسن اقبال کی بات سب سے اچھی لگی، جنہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی خط ہے تو وزیراعظم ایوان کواعتماد میں لیں، اپوزیشن ریاست کو دی گئی دھمکی کا حکومت کے ساتھ مل کر مقابلہ کرے گی۔ خورشید شاہ سے پوچھا گیا کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو نئی بننے والی حکومت پہلا کام کیا کرے گی؟ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ریاست کو ملنے والے مبینہ دھمکی آمیز خط طلب کیا جائے گا اور اس کی تحقیقات کی جائے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved