استنبول ایئر پورٹ سے اوہیرے ایئر پورٹ شکاگو کی کم و بیش 12 گھنٹے کی پرواز ہے لیکن پرواز سے تین گھنٹے پہلے پہنچنا ہوتا ہے۔ قیام گاہ سے نکل کر ایئر پورٹ پہنچنے اور ٹریفک کا ایک گھنٹہ مزید شمار کیجیے۔ پھر شکاگو میں امیگریشن اور دیگر مراحل میں ایک ڈیڑھ گھنٹہ لگ ہی جاتا ہے‘ اور پھر اپنی قیام گاہ تک پہنچنے کا کم و بیش مزید ایک گھنٹہ‘ تو گویا آپ 20 گھنٹے حالت سفر میں ہوتے ہیں۔ ہم نفسیاتی طور پر اس مغالطے کا شکار ہو جاتے ہیں کہ پرواز کا دورانیہ ہی اصل وقت سفر ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں؛ چنانچہ ایک تو یہ 20 گھنٹے کا سفر۔ پھر آپ جب وقت کے مختلف خطوں (ٹائم زونز)کے بیچ سفر کرتے ہیں تو بیرونی گھڑی اور جسم کی اندرونی گھڑی کا آپس میں جو تضاد ہوجاتا ہے، وہ انسان کو بری طرح تھکا دیتا ہے۔ جسم کے اندر قدرت نے جو فطری بائیولوجیکل کلاک لگا رکھا ہے، اسے اس سے غرض نہیں کہ اب آپ اچانک رات سے دن میں داخل ہو گئے یا شام سے واپس صبح میں پہنچ گئے۔ اس کی ٹک ٹک اپنی مرضی کی ہے اور آپ اپنا فیصلہ اس پر مسلط نہیں کرسکتے۔
بدھ 9 مارچ کو سہ پہر 3.25 پر ترکش ایئر لائن کے جہاز نے اڑان بھری تو میں خوش تھاکہ موسمی پیشگوئی کے مطابق ایک دن بعد استنبول جس برفانی طوفان کی زد میں آنا تھا، میں اس سے بچ کر نکل گیا۔ کم و بیش بارہ گھنٹے کی پرواز کے بعد طیارے نے جب اوہیرے ایئر پورٹ، شکاگو پر اپنے قدم اتارے تو 9 مارچ کی شام کے 6.10 بجے تھے یعنی دن کے صرف تین گھنٹے مزید گزرے تھے۔ طیارہ اور رات ایک ساتھ شکاگو پر اترے تھے۔ ہمارے شاعروں نے رات کی طوالت پر تو بہت شعر کہے لیکن دن کی درازی کو خاص اہمیت نہ دی۔ امیر مینائی نے کہا تھا نا: ؎
شبِ وصال بہت کم ہے آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جدائی کا
جہاز میں جہاں مٹرگشت کا امکان نہیں ہوتا، وائی فائی بھی نہ ملے تو سفر مزید لمبا ہو جاتا ہے۔ یہاں انٹرنیٹ کی سہولت اصولی طور پر موجود، لیکن عملی طور پر غائب تھی۔ یعنی غالب کے مصرعے جیسی ع
ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
چنانچہ مسلسل سونے کی کوشش کرتے لیکن مسلسل جاگتے، پھیکے کھانے کھاتے اور دیکھی ہوئی فلمیں دیکھتے سفر کٹ ہی گیا۔ اوہیرے ایئر پورٹ، شکاگو میرے لیے نیا تھا اس لیے کہ امریکہ کے پچھلے سفر میں مڈوے انٹرنیشنل ایئر پورٹ، شکاگو سے پرواز کی تھی۔ اوہیرے ایئر پورٹ امریکہ میں جنگ عظیم دوم کے فوراً بعد بننے والے ایئر پورٹوں میں سے ایک تھا۔ اس کا نام ایڈورڈ بُچ اوہیرے کے نام پر رکھا گیا جو امریکن نیوی کا دوسری جنگ عظیم میں ہیرو تھا۔ لگ بھگ ساڑھے پانچ کروڑ مسافروں کی آمدورفت کا یہ ہوائی اڈا امریکہ کی مصروف ترین طیران گاہوں میں ہے اور دو بڑی امریکی ایئر لائنز یونائیٹڈ اور امریکن ایئر لائنز کا مرکز یعنی حب بھی۔
تمام بڑے ایئر پورٹس کی طرح اوہیرے ایئر پورٹ بھی چکرا دینے والا ہے۔ میرے پاس امریکی موبائل سم بھی نہیں تھی لیکن شکر ہے کہ ہوائی اڈے پر فری انٹرنیٹ موجود تھا جس پر اپنے عزیز دوست اور شکاگو میں میزبان محبوب علی خان سے رابطہ کیا جا سکتا تھا۔ کچھ دیر آنکھ مچولی کے بعد بالآخر محبوب سے ملاقات ہوگئی اور ہم باہر نکلے تو شدید سرد ہوا کے ایک جھونکے نے استقبال کیا۔ شکاگو ویسے بھی ہواؤں کا شہر (windy city) کہلاتا ہے اور مارچ کا مہینہ جو پاکستان میں موسم بہار کا آغاز ہے، شکاگو میں سرد مہینہ ہی تصور کیا جاتا ہے جس میں برف باری، بارش، دھوپ سبھی آپس میں آنکھ مچولی کھیلتے رہتے ہیں۔ میں شکاگو کی بارونق سڑکوں سے گزرتے ہوئے وہ دن یاد کررہا تھا جب 2018 میں ہم کلیولینڈ سے پہلی بار شکاگو، میگا بس کے ذریعے پہنچے تھے اور ایک دہشتگرد کے چنگل سے بہ مشکل نکلے تھے۔ آج بھی اس سفر کو یاد کروں تو دل کے اندر سے قہقہے ابلنے لگتے ہیں‘ لیکن اس سفر کی روداد کیلئے آپ کو یا تو میرا سفرنامہ ''مسافر‘‘ پڑھنا ہوگا یا اخبار کی ویب سائٹ پر ''چھ گھنٹے دہشتگرد کے چنگل میں‘‘ کے عنوان سے میرے دو مسلسل کالم پڑھنا ہوں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری حالتِ زار پر آپ کو یا بے ساختہ رونا آئے گا یا بے قابو ہنسی۔ خاموش آپ نہیں رہ سکیں گے۔
بڑے شہروں کی طرح شکاگو کے مضافات بھی مرکز شہر یعنی ڈاؤن ٹاون کے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور ان میں سے ہر ایک بذات خود مکمل شہر ہے۔ لمبارڈ، شامبرگ، لونگ گروو، یپرول، سپوکی وغیرہ وغیرہ ان مضافات کے محض چند نام ہیں۔ اس وقت ہم محبوب علی خان کے گھر جارہے تھے جو لمبارڈ میں ہے۔ محبوب مشہور اردو شاعر جناب نیاز گلبرگوی کے صاحبزادے ہیں اور خود باذوق اور عمدہ شاعر اور کامیاب کاروباری شخصیت بھی۔ ان خصوصیات میں اگر دوستی اور ہم مزاجی کا عنصر بھی شامل ہوجائے تو دوآتشہ تعلق تو بننا ہی ہوتا ہے۔ اس پورے سفر میں انہوں نے اور ان کے گھرانے نے قدم قدم پر مہمان نوازی اور رفاقت کا حق ادا کیا جس کا شکریہ ادا کرنا رسمی سا محسوس ہونے لگا ہے۔
شکاگو مشی گن جھیل کے کنارے ہے۔ مشی گن جھیل سمندر زیادہ اور جھیل کم لگتی ہے۔ شمالی امریکہ کی پانچ بڑی جھیلیں بحرِ اوقیانوس سے جڑی ہونے کے باعث اپنے شہروں کو بڑا تجارتی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ مشی گن جھیل ان میں سے ایک بڑی جھیل ہے۔ یہاں امارت کی ایک نشانی ذاتی بجرہ اور ذاتی لانچ ہے جو جتنا زیادہ مالدار اتنی ہی پُرسہولت کشتی یا لانچ اس کی ملکیت ہے۔ ڈاؤن ٹاؤن شکاگو میں گولڈ کوسٹ روڈ، پلانیٹیریم، نیول انکوریج وغیرہ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، خاص طور پر شکاگو کی سکائی لائن کا منظر نہایت خوبصورت ہے۔ سچ یہ ہے کہ ڈاؤن ٹاؤن شکاگو جو دریائے شکاگو اور مشی گن جھیل کے سنگم پر واقع ہے، اس قدر خوبصورت ہے کہ کسی اور شہر کا ایسا حسین مرکزی حصہ میری نظر سے نہیں گزرا۔ پُرہجوم ہونے کے باوجود نہایت منظم اور صاف ستھری سڑکیں۔ گنجان ہونے کے باوجود درختوں، پھولوں اور سبزے کی فراوانی اور قدرتی خوبصورتی کے تہذیبی حسن کے ساتھ ملاپ نے شکاگو کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
2018 میں خزاں کے موسم میں شکاگو آنا ہوا تھا‘ جب ہر درخت زرد، شہابی، عنبری، نارنجی، سرخ اور آتشی لباس پہنے ہوئے تھا۔ اب اس وقت مارچ میں تمام درخت سردی کا سخت ترین موسم سہہ کر آمد بہار کی امید میں اور اس کی راہ میں کھڑے تھے جو ابھی کم و بیش تیس دن کے فاصلے پر تھی۔ درختوں کی ٹنڈ منڈ برہنہ شاخیں دیکھ کر یقین ہی نہیں آتا تھا کہ محض ایک ماہ بعد یہ حسین سبز لباس پہنیں گے تو پورا شکاگو کھل اٹھے گا۔ جلی ہوئی بے رنگ لیکن سخت جان گھاس جس پر جابجا برف کے پھول پڑے ہوئے تھے، ایک آس پر زندہ تھی۔ یہی آس تو ہے جو سر پر گزرتی قیامت گزار دیتی ہے۔ یہی امید توہے جو انسان کو مشکل موسموں میں زندہ رہنے اور ہمت سے برداشت کرنے کا سبق دیتی ہے۔ کیا دکھ اورکیا امید ہے عرفان صدیقی کے اس شعر میں: ؎
زرد پتوں کے ٹھنڈے بدن اپنے ہاتھوں میں لے کر ہوا نے شجر سے کہا
اگلے موسم میں تجھ پر نئے برگ و بار آئیں گے تب تلک صبر کر یا اخی!
لیکن ابھی تو ان درختوں کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا تھا: ؎
ذرا یہ سوختہ اشجار دیکھو
کوئی غم ہے جو ان کو کھا گیا ہے