پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال تغیر پذیر ہے‘ ان حالات میں ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کون ہارے گا اور جیت کس کے دامن میں گرے گی لیکن جو کچھ گزشتہ چند روز سے سیاسی منظر نامے پر مشاہدے میں آ رہا ہے‘ اس سے ایک بات کا یقین ہونے لگا ہے کہ ملک کی صرف معاشی حالت ہی نازک نہیں سیاست کے حالات بھی قابلِ رحم ہیں۔ عوام سے نظریے کا ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچے والے سیاستدان کھلم کھلا خود کو خریدوفروخت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ کسی کو پیسہ چاہیے‘ کسی کو گورنر شپ چاہیے، کسی کو وزارتِ اعلیٰ کا منصب چاہیے اور کسی کو مزید وزارتیں چاہئیں۔ البتہ وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انہیں عوام کے لیے کیا چاہیے اور وہ عوام کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید ہمارے سیاستدان عوام سے زیادہ غریب اور ضرورت مند ہیں۔ ایک سفید پوش باعزت پاکستانی اپنی عزت بچانے اور اسے قائم رکھنے کے لیے بڑے سے بڑا معاشی نقصان برداشت کرنے کو تیار ہو جاتا ہے لیکن اربوں روپوں کی جائیدادوں کے مالک یہ سیاستدان وزراتوں اور پیسوں کے لیے اپنی ساکھ نیلام کر رہے ہیں۔ یہ امر بھی قابلِ فکر ہے کہ عوام انہیں ہیرو سمجھتے ہیں۔ جنہیں وزارتیں مل رہی ہیں‘ انہیں کامیاب قرار دیا جا رہا ہے اور جو مؤثر طریقے سے بلیک میل نہیں کر پا رہے‘ عوام کی نظر میں وہ شکست خوردہ ہیں۔ آج کے دور میں ہار اور جیت کے معیارات بھی بدل چکے ہیں۔ البتہ سارا قصور سیاستدانوں کا نہیں ہے‘ یہ عوام میں سے ہی ہیں۔ اگر ہمارے سیاستدان ایسے ہیں تو مجھے یہ لکھنے میں زیادہ ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ عوام کی اکثریت بھی انہی جیسی ہے۔ پانچ کروڑ کی گاڑی میں بیٹھا ہوا ایک چور‘ ڈاکو‘ کرپٹ اور مافیاز کا سرغنہ عوام کی اکثریت کے لیے قابلِ عزت بن جاتا ہے۔لوگ اس کی گاڑی سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ اس سے متاثر ہوتے ہیں اور اس جیسا بننے کی خواہش کرتے ہیںجبکہ ایک شریف النفس، سفید پوش، مڈل کلاس کالج کا پروفیسر عوام کے لیے معمولی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آج کے نوجوانوں کا ہیرو نہیں رہا۔یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ شاید اسی لیے عوام کو بیوقوف بنانا زیادہ آسان ہو گیا ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے ایک خط لہرا کر کہا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی ہیں، لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ای میل، وٹس ایپ اور ہیکنگ کے اس جدید دور میں بھی وزیراعظم پاکستان کو دھمکی کیلئے خط موصول ہو رہے ہیں۔ اس خط کی تحقیقات کے لیے اپوزیشن، حکومت، عدلیہ اور ایجنسیوں پر مشتمل کمیٹی کیوں نہیں بنائی جا رہی جو معاملے کی تہہ تک پہنچے اور حقائق عوام کے سامنے آ سکیں؟ موجودہ سیاسی حالات میں نمبر بنانے والوں کی بھی لائن لگی ہوئی ہے۔ فیصل واوڈا کہتے ہیں کہ قاف لیگ اور تحریک انصاف کی ''شاندار ڈیل‘‘ میں نے فائنل کروائی ہے۔ کوئی یہ سوال نہیں کر رہا کہ چودھری پرویز الٰہی صاحب کا مطالبہ وزارتِ اعلیٰ کا تھا جو انہیں مل گئی ہے۔ ڈیل تو پہلے ہی اوپن تھی۔ کوئی بھی بیٹھ کر اس طرح کی ڈیل کروا سکتا ہے۔ اچھی ڈیل یہ ہوتی کہ انہیں وزارتِ اعلیٰ نہ دی جاتی اور وہ اس کے باوجود حکومت کو سپورٹ کرتے۔
عوام کی توجہ 172 اراکین کی تعداد کی جانب مبذول کروا کر ملکی معاشی صورتحال سے توجہ ہٹا دی گئی ہے حالانکہ ملک کے تین اہم اداروں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سب سے پہلے وزارتِ خزانہ کے اکنامک ایڈوائزر وِنگ نے رپورٹ جاری کی ہے کہ پاکستان آنے والے دنوں میں شدید معاشی بحران کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ ایک ماہ میں توانائی کی قیمتوں میں تقریباً 8 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ زرعی اجناس کی قیمتوں میں تقریباً ساڑھے چار فیصد اضافہ ہوا ہے۔معدنیات کی قیمتوں میں تقریباً پونے پانچ فیصد اور خصوصی دھاتوں کی قیمت میں سوا دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روس اور یوکرین کی جنگ سے تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ عالمی پابندیوں کے باعث تجارت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ہوائی اور بحری راستوں کے کرایوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے ملک میں مہنگائی بڑھنے کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے وائس چانسلر اور آئی ایم ایف سے منسلک رہنے والے ڈاکٹر ندیم الحق کے مطابق‘ حکومت بغیر کسی منصوبہ بندی کے قرض لے رہی ہے‘ خصوصاً توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے جو قرض لیے جا رہے ہیں ان کے مثبت نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ پچھلے دس سالوں میں توانائی کے شعبے میں تقریباً آٹھ کھرب روپے کے نقصانات ہو چکے ہیں اور ان میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت روزانہ دس کروڑ روپے کے گردشی قرضے بڑھ رہے ہیں یعنی کہ ایک ماہ میں تین ارب اور ایک سال میں تین کھرب ساٹھ ارب روپے کے گردشی قرضے بڑھ سکتے ہیں۔ اگر گردشی قرضے بڑھنے کے ساتھ بجلی چوری اور دیگر نقصانات پر قابو پایا جا رہا ہو تو زیادہ پریشانی کا معاملہ نہیں ہوتا‘ اس دوران امید رہتی ہے کہ درست راستے کا تعین کر لیا ہے، پٹڑی پر چڑھ گئے ہیں اور ایک دن منزل تک پہنچ ہی جائیں گے لیکن یہاں تو کوئی امید بر نہیں آ رہی اور کوئی صورت بھی نظر نہیں آ رہی۔ حکومت کی کاوشوں کا مرکز مزید قرضوں کا حصول ہے۔ زیادہ پریشان کن معاملہ یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے پاکستان کو مسلسل قرض فراہم کر رہے ہیں۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے چند روز قبل پاکستان کو توانائی کے شعبے کے لیے مزید 350 ملین ڈالرز قرض دیا ہے حالانکہ یہ بات ان کے پیشِ نظر ہے کہ پچھلے قرضوں کا درست سمت میں استعمال نہیں ہو سکا تھا۔ اس وقت تک تحریک انصاف کی حکومت لگ بھگ 53 ارب ڈالرز کے بیرونی قرض لے چکی ہے۔ غیر ملکی قرضے 130 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ان حالات میں جس ریسرچ کی بنیاد پر منصوبوں کے لیے قرض دیے جا رہے ہیں‘ اس پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔حکومت نے یو این ڈی پی اور ریسرچ کے نام پر دو ارب روپے جاری کیے ہیں جبکہ پاکستانی یونیورسٹیوں کو آج تک ریسرچ کے لیے اتنا فنڈ نہیں دیا گیا۔ بیرونِ ملک کے ریسرچرز اس صورتحال کو اُس طرح نہیں سمجھ سکتے جس طرح پاکستان میں رہنے والے پاکستانی سمجھ سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ گھروں کی کمی ہے‘ یہ اعدادوشمار کیسے حاصل کیے گئے‘ اس بارے میں حکومتی اور بین الاقوامی ادارے کوئی ٹھوس بنیاد فراہم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ایک کروڑ گھروں کی کمی کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً چھ کروڑ افراد گھروں سے باہر رہتے ہیں جبکہ خدا نخواستہ پاکستان میں حالات ایسے نہیں ہیں۔ حکومت نے انہی اعدادوشمار کو درست مانتے ہوئے سستے گھروں کے قرض جاری کر رکھے ہیں جس کیلئے پیسہ عوام کی جیب سے جاتا ہے حالانکہ زمینی حقائق پر مبنی ریسرچ سے یہی پیسہ بہتر جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی آمدن جمع کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سربراہ ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب نے فرمایا ہے کہ ایف بی آر سسٹم کو بہتر بنانے کیلئے ورلڈ بینک سے 400 ملین ڈالرز قرض لینے کی ضرورت نہیں تھی۔ حکومت نے بلاوجہ یہ قرض لیا ہے۔ ایک طرف ملکی آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا اور دوسری طرف قرضوں کے مینار کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ایف بی آر نے بطور ِادارہ اس قرض کی مخالفت کی تھی لیکن حکومت قرض لینے کیلئے بضد رہی۔ چیئرمین ایف بی آر کا یہ بیان ملکی معاشی سمت کا تعین کرنے کیلئے کافی ہے۔
ان حالات کے پیشِ نظر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان کو زمینی حقائق کی بنیاد پر ہونے والی ریسرچ کے مطابق قرض لینا چاہئیں۔ بین الاقوامی اداروں کو قرضوں کے عوض سود مل رہا ہے لہٰذا انہیں قرض دینے میں فائدہ نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ملک کے اثاثے بھی گروی رکھتے ہیں۔ اگر حکومت پاکستان نے قرضوں پر انحصار کم نہ کیا تو آنے والے دن زیادہ اچھے ثابت نہیں ہوں گے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے سیاستدان کرسی کی جنگ میں مصروف رہیں اور بین الاقوامی طاقتیں سب کے نیچے سے کرسی کھینچ لیں۔