تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     09-08-2013

سرخیاں اُن کی، متن ہمارے

ایوان صدر کے اخراجات کم کروں گا…ممنون حسین نومنتخب صدر ممنون حسین نے کہا ہے کہ ’’میں ایوان صدر کے اخراجات کم کروں گا‘‘ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ کیسے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘‘ جبکہ آہنی ہاتھوں کی تیاری کے لیے سٹیل مل کو آرڈر دیا جارہا ہے کہ وہ گھاٹے میں تو جاہی رہی ہے، ہمارے لیے آہنی ہاتھ ہی تیار کردے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں گی‘‘ اگرچہ یہ سارا کچھ انتظامیہ اور عدلیہ نے ہی کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہم آہنگی سے کام کرنا ہوگا‘‘ تاکہ ملکی حالات کو بہتر بنایا جا سکے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔ دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے تعاون کیا جائے …نواز شریف وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے تعاون کیا جائے‘‘ کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے دوسرے کاموں میں مصروف ہیں جبکہ نئے آرمی چیف کے لیے بھی انٹرویو کیے جارہے ہیں اور سینیارٹی وغیرہ کے تردد میں نہیں پڑا جارہا ، اگرچہ اس سلسلے میں خاکسار کا پہلا بیان یہی تھا بلکہ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو اس عہدے پر سب سے زیادہ حق جنرل ضیاء الدین بٹ کا ہے جنہیں پہلے بھی آرمی چیف بنایا گیا تھا لیکن انہیں لگانے کے لیے پھول وغیرہ وقت پر مہیا نہ ہوسکے اور اس طرح سارے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’اس سلسلے میں ایک جامع رپورٹ پیش کی جائے ‘‘ جسے حسب معمول خفیہ رکھا جائے گا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں وزارت داخلہ کو ہدایات دے رہے تھے۔ ضمنی الیکشن فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں …منظور وٹو پاکستان پیپلزپارٹی پنجاب کے صوبائی صدر میاں منظوراحمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ’’ضمنی انتخابات فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں‘‘ اگرچہ الیکشن کمیشن پہلے ہی یہ اعلان کرچکا ہے لیکن میں نے بھی آخر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے چنانچہ اسے تاکید مزید ہی سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’الیکشن کمیشن شیڈول کے اعلان کے بعد کیے جانے والے تبادلے اور تعیناتیاں منسوخ کرے ‘‘ اگرچہ اس سلسلے میں بھی الیکشن کمیشن متعلقہ حضرات سے وضاحت اور تفصیل طلب کرچکا ہے اور میرا یہ بیان بھی دوسرے بیانات کی طرح ہی سمجھا جائے گا حالانکہ یہ بیان میں نے ابھی دینا ہے کہ صدارتی انتخاب میں بھی 11مئی کے انتخابات کی طرح دھاندلی کی گئی ہے اور جس پر میں سخت احتجاج کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’مولانا فضل الرحمن اور عمران خان میں صلح کرائوں گا‘‘ جبکہ پیپلزپارٹی کے ناراض دھڑوں میں میں پہلے ہی صلح کرواچکا ہوں اور شیراور بکری ایک ہی گھاٹ پر اٹھکیلیاں کررہے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کررہے تھے۔ تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے…فضل الرحمن جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے‘‘ اور اگر نہیں ہوئی تو اسے ہو جانا چاہیے اور میرے کہے کی ہی کچھ لاج رکھ لینی چاہیے جو کافی عرصے سے یہ اعلان کرتا چلا آرہا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ ’’جے یو آئی سے مشاورت کے بغیر بلوچستان کامسئلہ حل نہیں ہوگا‘‘ کیونکہ ایم کیوایم کی طرح ہم بھی کم وبیش ہر حکومت کے ساتھ رہے ہیں، اس لیے ہمیں حکومت سازی کا وافر تجربہ حاصل ہے جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تاکہ حکومت بھی بن جائے اور ہمارا لچ بھی تلا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل پر حملہ اس حکومت کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے‘‘ اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں البتہ حملہ آور دہشت گردوں کی مذمت سے ہمیں معذور سمجھا جائے کیونکہ ہم کسی کے ساتھ اپنے تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتے جبکہ اس حملے کا ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ صوبائی حکومت کی ناکامی ثابت ہوگئی ہے ۔ آپ اگلے روز اپنے آبائی گائوں میں اپنے اعزاز میں دیئے جانے والے افطار ڈنر سے خطاب کررہے تھے۔ کرپٹ حکمران ونظام عذاب الٰہی کی شکلیں ہیں…طاہرالقادری عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ ’’کرپٹ حکمران و نظام عذاب الٰہی کی شکلیں ہیں ‘‘ اور، اوپر سے اس ملک اور قوم پر میں نازل ہوچکا ہوں۔ ویسے بھی، مصیبت تنہا نہیں آتی اور ملک بھر کے لیے یہ دعا کا مقام ہے، البتہ خاکسار کو اس سے معذور سمجھا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ’’مہنگائی، غربت، دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ اسی کا تسلسل ہے ‘‘ جبکہ خاکسار کے فیوض وبرکات ان کے علاوہ ہیں جن کا اندازہ انسانی عقل تو لگاہی نہیں سکتی، اس لیے یہ کام بھی اس ہیچ مداں کے لیے چھوڑ دینا چاہیے تاکہ پورا تخمینہ لگاکر قوم کے سامنے پیش کرسکوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’خونی رشتوں کا کوئی احترام باقی نہیں رہا ‘‘ حتیٰ کہ میری رشتے داریوں کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جارہا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کررہے تھے۔ آج کا مطلع آسماں سے اتارتا ہوں تجھے اور، خود سے گزارتا ہوں تجھے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved