تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-08-2013

عید کی شاپنگ

ویسے تو خیر مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہیں لیکن اگر آپ کو بھرپور جوش و خروش کا حقیقی انداز دیکھنا ہو اور اپنے اندر نیا ولولہ پیدا کرنا ہو تو دو مقامات خاص طور پر مفید ہیں۔ ایک مقام تو ہے شادی بیاہ میں کھانا کُھلنے کا۔ اور دوسرا ہے مزار یا خیراتی دستر خوان پر لنگر کی تقسیم کا! تیسرا ہم بتائے دیتے ہیں۔ یہ بھی کوئی نیا مقام نہیں۔ ع ہزار بار زمانہ اِدھر سے گزرا ہے! اور رمضان میں تو خیر اِس طرح کا جوش و خروش محنت سے کمانے والوں کے ہوش اُڑا دیتا ہے۔ جی ہاں، ہم شاپنگ کی بات کر رہے ہیں۔ عید کے لیے شاپنگ وہ ایونٹ ہے جس میں سارے زمانے کا جوش و خروش کانٹ چھانٹ کر بھردیا گیا ہے۔ شاپنگ سینٹرز پر جو کچھ دکھائی دیتا ہے وہ مُردہ ضمیر کو بھی جگا دینے کے لیے کافی ہے۔ ایسا بھرپور جوش و خروش اگر کِسی فورس میں ہو تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے دُنیا فتح کرلے! رمضان المبارک کی آمد فیوض و برکات کی ابتداء سمجھی جاتی ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں ہوسکتا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ آزمائش بھی تو شروع ہوتی ہے۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ اٹل حقیقت ہے مگر اہلِ وطن نے رمضان کی مبارک ساعتوں سے خدا جانے کیا کیا کشید کرنا شروع کردیا ہے کہ اب رحمت، برکت اور مغفرت تو کہیں پیچھے رہ گئی ہے اور رونق میلہ ہر شے پر چھاگیا ہے! بھلا ہو کُھلے بازار کی معیشت چلانے والوں کا جنہوں نے رمضان کو بھی ایونٹ میں تبدیل کردیا ہے۔ ہم ایک زمانے سے دیکھتے آئے ہیں کہ رمضان کی پُرکیف اور بابرکت ساعتوں میں لوگ اپنے لیے نجات کی راہ ڈھونڈا کرتے تھے مگر زمانہ ایسا پَلٹا ہے، یا پَلٹا گیا ہے، کہ اب رمضان کے آغاز ہی سے کِسی کو کپڑے بنوانے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور کوئی اِس پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے کہ گھر بھر کے کپڑے بنوانے کے عمل میں اپنے بدن کے کپڑوں کو نیلام ہونے سے کیسے بچایا جائے! ہمارے بعض دوست معترض ہیں کہ ہم اپنے کالموں میں بس ذرا سا موقع مِلتے ہی خواتین کی ’’واٹ‘‘ لگاتے ہیں۔ ہم اُن کی سادگی پر ’’زیرِ لب کے نیچے‘‘ مُسکراتے رہتے ہیں۔ کیوں نہ مُسکرائیں؟ وہ خود بھی اپنی اپنی خواتین کے ہاتھوں بہت کچھ جھیل رہے ہوتے ہیں مگر الزام دوسروں کے سَر دَھرنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں! اور ہمیں تو اِس بات پر بھی ہنسی آتی ہے کہ جن کالموں کو خود خواتین ’’خراجِ تحسین‘‘ کے زُمرے میں رکھتی ہیں اُنہیں ’’واٹ‘‘ لگانے کی کوشش کیوں قرار دیا جارہا ہے! شاپنگ دُنیا کا واحد موضوع ہے جس کے حوالے سے خواتین پر شدید تنقید کی جائے تو وہ داد و تحسین کے ڈونگروں کی طرح قبول کرتی ہیں! خواتین عید کی شاپنگ سے قبل بازار کے کئی چکر کاٹتی ہیں تاکہ حالات کا جائزہ لے سکیں۔ یہ وارم اپ میچ ہوتا ہے۔ بقول میرؔ ع یعنی آگے چلیں گے دَم لے کر شاید کھیلوں کی دُنیا میں بھی وارم اپ میچ کا آئیڈیا خواتین کی ’’شاپنگ دَر شاپنگ‘‘ سے ہاتھ آیا ہے! جو لوگ شاپنگ کے دریا کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں اُنہیں کِسی بھی نوعیت کے تکلف کے بغیر دُنیا کے سب سے بڑے احمق قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاپنگ دنیا کا واحد مرض ہے جو اپنے علاج کی کوکھ سے پیدا ہوتا ہے! اسلام کی طرح قدرت نے خواتین کی شاپنگ کی فطرت میں بھی لچک دی ہے۔ یعنی اُتنی ہی یہ اُبھرے گی جتنی کہ دباؤ گے! گویا ع مَرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی! دُنیا بھر کے ماہرینِ نفسیات اگر خود کو بہت بڑا طُرّم خاں سمجھتے ہیں تو ذرا آگے آئیں اور ہمارے ہاں عید کی شاپنگ کا جوش و خروش گھٹانے کا کوئی نُسخہ تجویز کرکے تو دِکھائیں۔ ذرا سی دیر میں لگ پتا جائے گا! نفسیات کے ماہرین جب بھی گفتگو کرتے ہیں، نظریات سے شروع ہوکر تجربات تک پتا نہیں کیا کیا بَک جاتے ہیں۔ کبھی عید کی شاپنگ پر کچھ کہیں تو اُنہیں معلوم ہو کہ چند لمحوں میں گونگے بن جانا کیا ہوتا ہے! بعض لوگوں کا مزاج اُلٹا ہوتا ہے۔ یعنی کِسی کام سے روکنا ہو تو وہ کام کرنے کو کہیے۔ یہ اُصول مَردوں اور خواتین دونوں پر کارگر ثابت ہوتا ہے۔ شاپنگ کو البتہ ’’استثنیٰ‘‘ حاصل ہے۔ خواتین کو شاپنگ سے روکیے یا نہ روکیے، نتیجہ سِتم بالائے سِتم ہی کی شکل میں برآمد ہوتا ہے! رمضان کی آمد اِس بات کی نوید ہے کہ اب عید الفطر بھی وارد ہوگی۔ مگر صاحب! بیشتر شوہروں کے لیے رمضان کا وارد ہونا عیدالاضحٰی کی آمد سے کچھ کم نہیں! اُنہیں رمضان کے پہلے عشرے ہی میں چُھریاں نظر آنے لگتی ہیں! بازاروں کی رونق کِسے اچھی نہیں لگتی مگر یہ ساری رونق دیکھ دیکھ کر شوہروں کے دِل بیٹھتے جاتے ہیں۔ ماہِ مُبارک کے دوران عبادات کا لطف کچھ اور ہی ہے۔ جنہیں اللہ سے بہت کچھ چاہیے وہ عبادات میں مصروف رہتے ہیں۔ بیشتر (بالخصوص حق حلال کی آمدنی والے) شوہر معروف و مقبول عبادات کے ساتھ شاپنگ کے عذاب سے بچنے کے لیے بھی مختلف وظائف پڑھتے رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ رمضان کے ختم ہوتے ہوتے بیشتر شوہر کسی نہ کسی روحانی درجے پر فائز دکھائی دینے لگتے ہیں! چہرے کی مِسکینی بڑھ جاتی ہے۔ طبیعت میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے اور گھر بھر کی خوشیوں کا خیال رکھنے کے صِلے میں اللہ چہرے پر تھوڑا بہت نور بھی پیدا کر ہی دیتا ہے! اگر کوئی شاپنگ کے حوالے سے خواتین کو مطعون کرنا چاہے تو اُس کی سادگی اور کم عِلمی پر ہنسی ہی آئے گی۔ شاپنگ تو خواتین کی نفسیاتی ساخت میں ’’اِن بلٹ‘‘ ہے، یہ وصفِ حمیدہ اُن کے دِماغی کمپیوٹر کے ڈیفالٹ میں ہے! علامہ اقبالؔ نے کہا ہے کہ کائنات کی تصویر میں رنگ عورت کے وجود سے ہے۔ عیدالفطر جُوں جُوں قریب آتی ہے، یہ رنگ اور گہرا ہوتا جاتا ہے۔ تصویرِ کائنات کے سارے رنگ شاپنگ سینٹرز میں ڈیرے ڈال کر اُنہیں ایک نئی کائنات کی شکل بخشتے ہیں! اِس پورے عمل میں بے چارے شوہر سوچتے ہی رہتے ہیں ع دِل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک! شاپنگ کے بُنیادی اُصولوں پر غور کرتے وقت یاد رکھیے کہ اِس کا کوئی بُنیادی اُصول نہیں ہوتا۔ پہلے نمبر پر یہ یاد رکھیے کہ شاپنگ اور بالخصوص عید کی شاپنگ کبھی ایک ’’ہَلّے‘‘ میں نہیں ہوتی۔ بازار کے پہلے دو تین چَکّر تو صرف ’’سروے‘‘ کے لیے ہوتے ہیں۔ یعنی دیکھا جاتا ہے کہ کون کون سی (اوٹ پٹانگ) چیزیں آئی ہوئی ہیں۔ اِس کے بعد یہ طے کیا جاتا ہے کہ کیا اور کیوں خریدنا ہے۔ ’’کیوں‘‘ کی غایت یہ ہے کہ بہت سی چیزیں اپنی پسند سے نہیں خریدی جاتیں بلکہ حریفوں کو نیچا دِکھانا مقصود ہوتا ہے! عید کی شاپنگ بھی ایک پورا تہوار ہے، میلہ ہے، ایونٹ ہے۔ سب سے پہلے تو ٹوہ لگائی جاتی ہے کہ کِس نے کیا خریدا ہے۔ اس کے بعد موازنہ شروع ہوتا ہے۔ کِسی نے کچھ اچھا خریدا ہے تو اب اُس سے اچھا خریدنا ہے۔ اگر کِسی نے بے ڈھنگی شاپنگ کی ہے تو اُسے نیچا دِکھانے کے لیے مزید شاپنگ کرنی ہے۔ شاپنگ سینٹرز کا چَکّر ایک نئی فہرست کو جنم دیتا ہے۔ گویا ٹارگٹ کلنگ کی تیاری کی جارہی ہو! ویسے شوہروں کی کمائی کی تو یہ ٹارگٹ کلنگ ہی ہے! اللہ کا کرم ہم پر ہر آن جاری ہے اور ہم مشاہدہ بھی کرسکتے ہیں۔ مگر کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ اہلِ خانہ کو عیدالفطر کی تیاریاں کرانے کے بعد بھی ہر صاحبِ خانہ کا زندہ رہنا اللہ کا کتنا بڑا کرم ہے! خواتین جس تیزی سے ایک دکان سے دوسری دکان اور دوسری سے تیسری میں داخل ہوتی اور باہر آتی ہیں وہ منظر قابل دید ہوتا ہے۔ مگر اِس سے زیادہ قابل دید تو شوہروں کی پُھرتی ہوتی ہے جو سامان اور بچوں کو سنبھال کر بیویوں کو فالو کر رہے ہوتے ہیں! ایسی حالت میں شوہروں پر ٹکٹ بھی لگایا جاسکتا ہے! لفظوں میں کیا سمائیں گے کرتب جناب کے! گھر سے نکلتے وقت جو سرکس کا شیر تھا، بازار سے واپسی پر فوج کے خَچّر میں تبدیل ہوچکا ہوتا ہے، یعنی خریدے ہوئے سامان اور بچوں کی بار برداری کے کام آتا ہے! مختصر یہ کہ ناز برداری میں کام آ جاتا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved