تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     01-04-2022

ڈالر کے خلاف محاذ

عالمی مالیاتی نظام پر اس وقت مختلف جہتوں سے دباؤ مرتب ہو رہا ہے۔ عالمی تجارت کا سیٹ اَپ الجھ چکا ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے مفادات پر کاری ضرب پڑ چکی ہے۔ تجارت کے معاملے میں چین نے اِن دونوں خطوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ چین میں تجارتی مال کی لاگت خاصی کم ہے۔ چینی بڑے پیمانے پر پیداوار کے قائل اور عادی ہیں۔ چین کو مجموعی طور پر دنیا کی فیکٹری بھی کہا جاتا ہے۔ اشیا سازی کے عمل میں چین سے مقابلہ کرنے کی سکت اس وقت امریکا میں ہے نہ یورپ میں۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ چین نے مختلف خطوں سے خام مال کے حصول کے لیے منظم کوششیں کی ہیں۔ افریقہ، ایشیا اور دیگر خطوں سے وہ بڑے پیمانے پر خام مال حاصل کر رہا ہے۔ اس عمل نے اُس کی معاشی ہی نہیں‘ سیاسی اور سماجی حیثیت بھی مضبوط کی ہے۔ امریکا کو اس وقت یہ فکر لاحق ہے کہ عالمی سیاست و معیشت بالخصوص مالیات میں اُس کی برتری کیونکر قائم رہ سکتی ہے۔ چین اس کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھرا ہے۔ چند دوسری ریاستیں بھی امریکا کی مالیاتی بالا دستی کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہیں۔ عرب دنیا بعض معاملات میں امریکا اور یورپ‘ دونوں سے متنفر ہے مگر اُس کے حکمران اب تک امریکا کی حاشیہ برداری میں مصروف ہیں۔ اسرائیل کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کو بلیک میل کرنے کا زمانہ اب لدتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کو یہ بھی ڈر ہے کہ کہیں خطۂ عرب اس کے ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ ترکی نے یورپ کو گھاس ڈالنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ ایشیائی طاقتوں سے مل کر اپنی پوزیشن مضبوط بنارہا ہے۔ ایسے میں ترک قیادت کا عرب ممالک کی طرف جھکنا امریکا اور یورپ دونوں کے لیے خطرے کی اضافی گھنٹی ہے۔
مغرب کے تصرف میں کام کرنے والے عالمی مالیاتی نظام کے لیے خطرے کی سب سے بڑی گھنٹی روس نے بجائی ہے۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی کی پاداش میں امریکا اور یورپ نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرکے اپنی پوزیشن مضبوط رکھنے کی کوشش کی ہے۔ بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام سوئفٹ سے روس کو نکال دیا گیا ہے۔ اس نظام میں تمام ادائیگیاں ڈالر اور یورو میں کی جاتی ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ روس اپنے مالیاتی معاملات اب ڈالر میں انجام نہیں دے سکتا۔ سوئفٹ سے نکالے جانے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی روسی کمپنی کسی سے ڈالر میں وصولی کرسکتی ہے نہ کسی کو ڈالر میں کوئی رقم ادا کرسکتی ہے۔ ایسے میں روس کے پاس کیا آپشن بچا ہے؟ وہ ڈالر کی اجارہ داری توڑنے کی کوشش کے سوا کر بھی کیا سکتا ہے؟ اسی لیے اب روسی قیادت تجارتی معاملات متعلقہ کرنسیوں میں نمٹانے کی بات کر رہی ہے۔ روس ایک بڑا برآمد کنندہ ہے۔ اُس کی برآمدات میں ایلومینیم، پیلیڈیم، نکل اور دیگر دھاتیں، خام تیل، گیس، ہیرے، کوئلہ اور دوسری بہت سی اہم اشیا شامل ہیں۔ عالمی تجارت میں روس کا حصہ کم و بیش 22 فیصد ہے۔ اتنی بڑی تجارتی حیثیت کے حامل ملک کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اب چین نے روس سے تیل کے سودے روبل (روسی کرنسی) میں نمٹانے کی بات کی ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب بھی بعض معاملات میں سوئفٹ جیسے سیٹ اَپ سے جزبز دکھائی دیتا ہے۔ اگر روس نے اپنے تمام تجارتی سودے روبل میں کرنا شروع کردیے تو؟ ڈالر کی عالمی حیثیت کمزور پڑے گی۔ روس کے کامیاب رہنے کی صورت میں دیگر ممالک کو بھی اپنی اپنی کرنسی میں سودے کرنے کی سوجھے گی۔ خام تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑے ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔ اگر اُنہوں نے اپنا تیل اپنی کرنسی میں بیچنے کا سوچ لیا تو؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ اقتصادی پابندیوں نے روسی کرنسی کو کمزور کیا ہے۔ روسی قیادت چاہتی ہے کہ اپنی کرنسی کو مضبوط بناکر امریکا اور چین کو معیشت کے محاذ پر منہ توڑ جواب دیا جائے۔ چین نے اُس سے روبل اور یوآن میں تجارت پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ اگر مزید دو تین ممالک بھی اِس طرف آگئے تو ڈالر کی بالا دستی کے لیے بہت خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ عالمی مالیاتی نظام سے ڈالر کو دور کرنا یا اُس کی بالا دستی ختم کرنا بہت دور کی منزل ہے۔ اس وقت بھی دنیا بھر 90 فیصد تک سودے ڈالر میں ہوتے ہیں۔ سوئفٹ کے تحت ادائیگی کے لیے ڈالر ہی کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ دنیا بھر کے چھوٹے بڑے، ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر ڈالر کی شکل میں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پاکستان سمیت پورے جنوبی ایشیا کا یہی معاملہ ہے۔ چین، روس، ترکی اور پاکستان مل کر بین الاقوامی ادائیگیوں کا کوئی متبادل نظام لانا بھی چاہیں تو بھارت اُن کی راہ میں سب سے بڑی دیوار بن کر کھڑا ہوگا کیونکہ بھارتی قیادت آج بھی انتہائی مغرب نواز ہے۔ امریکا اور یورپ سے اُس کے مفادات اس حد تک وابستہ ہیں کہ اُن سے بگاڑ مول لینے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کو کمزور کرنے کی نیت سے تجارتی پابندیوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ امریکا اور چین کی تجارتی جنگ کم و بیش دو سال چلی۔ چین پر ٹیرف کی پابندیاں بھی لگائی گئیں اور دیگر پہلوؤں سے بھی اُسے گھیرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب کچھ چین کے خلاف جاتا دکھائی دے رہا تھا مگر چین ڈٹا رہا۔ اِس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چین کے ساتھ روس بھی کھڑا ہوگیا۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی یقینی بنانے والے حالات پیدا ہونے تک دنیا بھر میں یہ تاثر ابھر چکا تھا کہ اب ایک نیا بلاک بننے والا ہے جو مغرب مخالف ہوگا اور مغرب کو حقیقی ٹف ٹائم دے گا۔ پاکستان سمیت مسلم دنیا اس حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ ہمارے فیصلوں ہی کی بنیاد پر اس بلاک کے خدوخال واضح ہوں گے۔ بھارت اگر ساتھ نہ دے تو بھی کوئی بات نہیں۔ مسلم دنیا کے بیشتر ممالک چین اور روس کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو بہت کچھ بدل جائے گا۔ ایسی حالت میں امریکا عالمی سیاست و معیشت میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ امریکا اور یورپ کے لیے حقیقی پریشان کن عامل یہ ہے کہ عالمی تجارت میں روس اور چین‘ دونوں کا حصہ اچھا خاصا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے مینوفیکچرنگ انجن کے طور پر چین سینہ تان کر امریکا اور یورپ کے سامنے کھڑا ہے۔ روس نے طویل خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر بتادیا ہے کہ وہ بھی میدان میں ہے، اُسے نظر انداز نہ کیا جائے۔
اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کیا چاہتے ہیں۔ کیا وہ باقی دنیا کو کسی بھی معاملے میں کوئی رعایت دینے کو تیار ہیں؟ کیا عالمی سیاست و معیشت میں مغربی دنیا دیگر ابھرتی ہوئی قوتوں کو حصہ دار بنانے کے لیے تیار ہے؟ سرِدست ایسا دکھائی نہیں دیتا۔ ہر دور میں سپر پاورز کا جو رویہ رہا ہے وہی رویہ اس وقت امریکا اور یورپی یونین کا ہے۔ دونوں پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ چین اور روس کے لیے گنجائش چھوڑنے کے حق میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن کی طاقت برقرار ہے۔ اگرچہ طاقت میں کمی واقع ہوچکی ہے مگر یہ دونوں خطے اپنے کمزور پڑنے کا تاثر مضبوط نہیں ہونے دینا چاہتے۔ ایسے میں ہٹ دھرمی بھی ایک مؤثر ہتھیار کے طور پر بروئے کار لائی جاسکتی ہے اور لائی جارہی ہے۔ اگر چین اور روس نے بین الاقوامی ادائیگیوں کے مروّج نظام کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنے لیے کوئی متبادل نظام تیار کرلیا تو امریکا اور یورپ کی مالیاتی بالا دستی پر شدید ضرب لگے گی۔ عرب یا خلیجی ریاستوں نے بھی یہ متبادل نظام اپنانے میں دلچسپی لی تو بہت کچھ الٹ پلٹ جائے گا۔ روس ایک زمانے سے بارٹر سسٹم بحال کرنے کی بات کر رہا ہے یعنی مال کے بدلے مال کا نظام لایا جانا چاہیے۔ ایسا کوئی بھی نظام لائے جانے کی صورت میں ڈالر کی فیصلہ کن حیثیت شدید متاثر ہوگی۔
اس وقت بڑوں کی لڑائی ہو رہی ہے اور چھوٹے صرف تماشا دیکھ سکتے ہیں۔ ہاں! سہمے ہوئے سبھی ہیں۔ بڑی طاقتوں کی لڑائی میں چھوٹوں کو بہت کچھ جھیلنا پڑتا ہے۔ ڈالر کی بالا دستی پر ضربِ کاری کی قیمت خدا جانے کس کس کو کس کس طرح ادا کرنا پڑے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved