تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     02-04-2022

ایک معلمہ کا قتل

ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک مدرسے کی معلمہ کا قتل،افسوس ناک ہی نہیںپریشان کن بھی ہے۔اگر اسے سماجی رجحانات کا ایک پیمانہ مان لیا جائے تواس پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں دینی مدارس سے فارغ التحصیل خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔وفاق المدارس کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ طالبات کی تعداد طلبا سے زیادہ ہے۔چند دن پہلے جن نتائج کا اعلان ہوا،ان کے مطابق،وفاق المدارس سے اس سال 385700 طلباو طالبات کامیاب ہوئے۔یہ ایک تعلیمی بورڈ کا نتیجہ ہے۔ایسے دس بورڈ ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ہر سال ملک میں دینی فضلا اور عالمات کی تعداد میں کس شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ان کاکردار کیا ہے؟
یہ سوال عام تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والوں کے بارے میں بھی پیدا ہو تا ہے۔ہمارے ہاں ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ڈاکٹرز، انجینئر زاور دیگرشعبوں کے ماہرین سماج کا حصہ بنتے ہیں۔یہ تعدادہماری ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ان میں سے اکثرکوشش کرتے ہیں کہ ملک سے باہر چلے جائیں۔ چند ہی اس کوشش میں کامیاب ہوتے ہیں۔کچھ کسی اور شعبے میں چلے جاتے ہیں جیسے سرکاری ملازمت یا کاروبار۔
اس کے بعد بھی بہت سے لوگ بے روزگار رہ جاتے ہیں۔سماج کے لیے ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کا مستقبل کیا ہے؟ جو کسی معلوم شعبے کا حصہ نہیں بن پاتے،ان کے بارے میں خوف ہوتا ہے کہ وہ کسی نامعلوم میدان کا انتخاب نہ کر لیں۔سماجی مطالعے بتاتے ہیں کہ نوجوانوں میں جرائم کی شرح بڑھ رہی ہے اور اس کا بڑا سبب بے روزگاری ہے۔ انتہا پسند مذہبی گروہوں میں بھی ایسے پڑھے لکھے نوجوانوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
ایسے مسائل کا ایک حل یہ تلاش کیا جاتا ہے کہ ایک ملک اتنے ہی ڈاکٹر پیدا کرے جتنے اس کی ضرورت ہیں یا ہر سال جتنے کسی دوسرے ملک جا سکتے ہیں۔ہمارا معاملہ یہ ہے کہ جب ایک رجحان پیدا ہو توسب لوگ اسی طرف کارخ کرتے ہیں۔تعلیم چونکہ جنسِ بازار ہے ،اس لیے جب طلب بڑھتی ہے تو رسد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔یوں نجی شعبے میں تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھ جاتی ہے جو ایسے ماہرین پیدا کرنے والی فیکٹریاں بن جا تے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔
کچھ ایسا ہی معاملہ دینی تعلیم سے فارغ التحصیل لوگوں کا بھی ہے۔یہ حضرات دو طرح کی خدمت سر انجام دے سکتے ہیں۔ایک درس و تدریس ہے اور دوسرا سماج کی دینی تعلیم وتربیت۔ضیاالحق صاحب نے جب مدرسے کی سند کو عام تعلیمی اداروں کی سند کے مساوی قرار دیا توجدید تعلیم کے اداروں میں اسلامیات کے اساتذہ مدرسے سے آنے لگے۔یوں وہ سرکاری تعلیمی نظام کا حصہ بننے کے بھی اہل ہیں۔اس کے ساتھ وہ دینی مدارس سے بھی وابستہ ہو سکتے ہیں۔ سماج کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے وہ کسی مسجد کے خطیب اور امام بھی بن سکتے ہیں۔
سرکاری ملازمتوں یا تعلیمی اداروں میں کم تعداد ہی جاسکتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامیات کی تعلیم ،عام تعلیم کا بھی حصہ ہے۔یوں اس نظام سے آئے ہوئے لوگ بھی اس ملازمت میں ان کے ساتھ شریک ہوجاتے ہیں۔زیادہ تعداد مدرسے سے وابستہ ہوتی ہے یا خطابت و امامت سے۔مدرسے کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں اساتذہ کی تنخواہ بہت کم ہے۔ اتنی کم کہ اس سے ایک خاندان کی کفالت ممکن نہیں۔یوں اس مدرس کو ضرورت پڑتی ہے کہ وہ کہیں اور ملازمت تلاش کرے۔اس کے لیے کسی مسجد کی امامت و خطابت یا بچوں کو قرآن پڑھانے جیسے ذرائع کے سوا ،اس کے پاس آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہو تا۔
دوسری طرف سماج میں مساجد کی ایک خاص تعداد ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔جس طرح ڈاکٹر یا انجینئر ضرورت سے زیادہ ہیں،اسی طرح دینی مدارس کے فضلا بھی زیادہ ہیں۔اب جس طرح ایک ڈاکٹر ایسی جگہ پر اپنی دکان کھول لیتا ہے جہاں اس کی ضرورت نہیں ہوتی،اسی طرح دینی مدرسے کا فارغ التحصیل بھی کوشش کرتا ہے کہ کوئی نئی مسجد تعمیر ہو جائے،قطع نظر اس کے کہ سماج کو اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔
ہماری دینی تعلیم کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ تعلیم مسلکی ہے۔یوں مدرسے کا فارغ التحصیل اپنے مسلک ہی کی مسجد قائم کر تا ہے۔اگر کسی محلے میں ایک مسلک کی مسجد موجود ہے اور نمازیوں کی تعداد کی نسبت سے کفایت کرتی ہے تو وہاں دوسرے مسلک کا فارغ پہنچ جائے گا اور اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی مسلک کی مسجد بنا لے۔ یوں معاشرے میں غیر محسوس طریقے سے مسلکی تقسیم بڑھتی چلی جا تی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نئی مسجد کے لیے جواز چاہیے اوریہ جواز اسی وقت پیدا ہوگا جب آپ موجود مسلک کو غلط قرار دیں گے۔
سوال یہ ہے کہ دینی مدارس سے جو خواتین فارغ ہو رہی ہیں،ان کا مستقبل کیا ہے؟خطابت و امامت کا شعبہ ان کے لیے ممنوع ہے۔ان کے مدارس کی تعداد بھی کم ہے،اگرچہ طالبات کی تعداد زیادہ ہے۔مسجد وہ بنا نہیں سکتیں اور سرکاری ملازمتوں میں بھی کم جا تی ہیں۔ اب معاشرے میں ان کا کردار کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب تلاش کرتے وقت ،یہ بات بھی پیش ِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ بھی مسلکی تعلیم ہی حاصل کر رہی ہیں۔گویا ان کے نظریات ان مرد فضلا سے مختلف نہیں جو مدرسے سے فارغ ہیں اور ان کے سماجی کردار پر اکثر گفتگو ہوتی ہے۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا واقعہ بتا رہا ہے کہ خواتین بھی مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو رہی ہیں اور اس میں مدرسے کے کردار سے صرفِ نظر ممکن نہیں۔اس سے پہلے ہم نے اس کاایک مظاہرہ جامعہ حفصہ اسلام آباد کی طالبات کی صورت میں دیکھاجو شمشیر بکف ،نہی عن المنکراور جہاد کے لیے میدان میں تھیں۔کیا ڈیرہ اسماعیل خان کے واقعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندانہ خیالات خواتین میں سرایت کر رہے ہیں؟
اس بارے میں حتمی طور پر کوئی بات کہنا مشکل ہے۔تاہم اس سے یہ ضرورت نمایاں ہوتی ہے کہ مدارس سے فارغ التحصیل خواتین کے سماجی کردارکو سمجھا جائے۔کیا ہم نے اس بارے میں کوئی منصوبہ بندی کی ہے کہ سماج میں ان خواتین کے لیے ایسی جگہ پیدا کی جائے جس سے یہ سماجی تعمیر میں شریک ہو سکیں؟مثال کے طور پر خواتین فطری طور پر تعلیم کے لیے موزوں ہیں۔کیا مسلمان بچوں کی تعلیم کے لیے ہم کوئی ایسا نظام وضع کر سکتے ہیں جہاں یہ خواتین کوئی کردار ادا کر سکیں؟اس کے ساتھ یہ سوال بھی اہم ہو گا کہ مسلکی پس منظر کے ساتھ ،وہ جو تعلیم بچوں کو دیں گی،کیا اس سے مسلکی تقسیم مزید گہری نہیں ہو گی؟کیا سماج یہ خطرہ مول لے سکتا ہے؟
ڈیرہ اسماعیل خان کا واقعہ متنبہ کر رہا ہے کہ ہم ایسے واقعات کی روک تھام کا ابھی سے اہتمام کریں اورخواتین میں پیدا ہونے والی اس مذہبی انتہا پسندی کے اسباب کا کھوج لگانے کے ساتھ،اس کے اثرات کا بھی جائزہ لیں۔ایک معلمہ کے افسوس ناک قتل کو محض ایک واقعہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس بچی کی جان بھی اتنی ہی قیمتی تھی جتنی ملالہ کی جان قیمتی ہے۔ہمیں وہ نظام بنانا ہے جس میں ہماری سب بچیاں محفوظ ہوں اور معاشرہ بھی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved