تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     02-04-2022

تلخ تجربات کا سبق کیا ہے؟

پاکستان کی سیاست نمک کی کان کی طرح ہے، جس میں جا کر سب نمک ہو جاتے ہیں۔ جو لوگ بے نظیر بھٹو کو آکسفورڈ سے جانتے تھے، وہ جب اس بے نظیر بھٹو سے ملے جو پاکستان کی وزیر اعظم بن چکی تھیں‘ تو انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ وہی بے نظیر بھٹو ہے، جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں ایک طالب علم رہنما تھی، اور سیاست میں آدرش پسند تھی۔ بے نظیر کی آکسفورڈ کی ایک حیرت زدہ دوست نے لکھا کہ میں اس وقت ششدر رہ گئی جب میں نے بے نظیر کے بطور وزیر اعظم پاکستان طرز عمل پر سوال اٹھایا تو انہوں نے مجھے سمجھاتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کی سیاست میں کئی 'سٹیک ہولڈرز‘ یعنی حصہ دار ہوتے ہیں‘ اور پاکستان میں اقتدار میں رہنے کیلئے ان لوگوں کو ان کا حصہ دینا پڑتا ہے۔
مغرب میں رہنے والے ان طالب علموں یا صحافیوں کو کوئی اندازہ نہیں تھاکہ پاکستان کی سیاست نمک کی کان کی طرح ہے، جس میں ہر نیا آنے والا نمک ہو جاتا ہے۔ بے نظیر بھٹو کے آدرشوں، خوابوں اور طرز فکر و عمل میں جو نوے ڈگری کی تبدیلی آئی تھی، اسے کچھ لوگوں نے حقیقت پسندی یا عملیت پسندی کا نام دیا تھا، جس کے بغیر پاکستان کی عملی سیاست میں کسی خاطر خواہ کامیابی کی امید عبث تھی۔ پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد بے نظیر بھٹو کی فکر و شخصیت میں جو تبدیلی آئی، وہ ان کے آکسفورڈ کے مغربی دوستوں کے لیے ہی پریشان کن نہیں تھی، بلکہ پاکستان ن میں بھی سیاست کے بارے میں آدرش پسندی کا شکار یا مثبت طرز فکر رکھنے والوں کے لیے یہ صورت حال گہری تشویش کا باعث تھی۔ اگرچہ بے نظیر نے اپنے دورِ اقتدار میں اس طرح کے فکر و عمل کا سیاست کے عملی تقاضوں کے نام پر دفاع کیا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی حد تک ان کو اپنی غلطی کا احساس بھی ہوا‘ اور بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر بے نظیر بھٹو کو تیسری بار موقع ملتا تو شاید ان کا طرز عمل کافی حد تک مختلف ہوتا۔
نمک کی کان میں نمک ہو جانے کے باب میں وزیر اعظم عمران خان کا معاملہ بے نظیر بھٹو سے زیادہ سنجیدہ اور افسوسناک ہے۔ انہوں نے جس پیمانے پر تبدیلی اور نئے پاکستان کے دعوے اور وعدے کیے، اس کا تقابل ماضی کے کسی بھی سابق حکمران یا لیڈر سے نہیں کیا جا سکتا۔ خصوصاً کرپشن کے خلاف جس تسلسل اور اصرار سے انہوں نے بات کی اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ سب کچھ سوشل میڈیا کے دور میں ہوا، جب ان کے دعووں اور وعدوں کی وڈیوز براہ راست عوام تک پہنچتی رہیں‘ اور عوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان پر یقین کر لیا۔ ان کی سیاسی جدوجہد یا اقتدار کے حصول کی تگ و دو کے دوران ان کی بیشتر تقاریر، دعوے اور وعدے سن کر ان کے پیروکاروں کو لگتا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ ان کے اپنے دل کی آواز ہے۔ انہوں نے عام مسائل کی جو وجوہات بیان کیں، اور ان پر اپنا جو موقف بیان کیا اس سے اختلاف کی بہت کم گنجائش تھی۔
انہوں نے پاکستان کے تقریباً دس بڑے مسائل پر عوام کے خیالات کی حقیقی ترجمانی کی۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ کرپشن کا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں ہر دور میں کرپشن کے خلاف شور و غوغا ہوتا رہا، مگر شاید ہی کوئی حکمران اتنی وضاحت اور تسلسل کے ساتھ کرپشن کے خلاف بولا ہو۔ ان کا یہ موقف ناقابل تردید تھا کہ جب تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ نہیں کیا جاتا، اس وقت تک ملک ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ دولت کا بیشتر حصہ چند مراعات یافتہ اور طاقت ور لوگ لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ اس باب میں ان کے جوش و جذبے بلکہ غم و غصے کو دیکھ کر یہ تاثر ابھرتا تھا کہ ان کے دورِ اقتدار میں اور کچھ ہو یا نہ ہو کرپشن ضرور ختم ہو جائے گی‘ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد جو عملی اقدامات انہوں نے کرنا شروع کئے، وہ ان کی تقاریر اور خیالات سے واضح طور پر متصادم تھے۔
انہوں نے اپنے ارد گرد ان لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا، جو ماضی میں کئی بار کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہ چکے تھے، اور کسی بھی زاویے سے ان کا دامن اتنا صاف نہیں تھا کہ کرپشن کے خاتمے اور شفاف نظامِ حکومت کے قیام میں وہ ایک کلیدی کردار ادا کر سکنے کی پوزیشن میں ہوں۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے، جو ان حکمرانوں کے ساتھ رہے تھے، جن کو عمران خان پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے چور‘ ڈاکو جیسے القابات سے نوازتے تھے۔ ان کی کابینہ کے نصف سے زائد اہم عہدیدار وہی چہرے تھے، جو ہر دور کے بدعنوان نظام کا حصہ رہے تھے۔ ان کے اس عمل سے شروع میں ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ ناصرف کرپشن کے محاذ پر ان کے قول و فعل میں گہرا تضاد ہے، بلکہ ان کا تبدیلی کا دعویٰ بھی زمین پر ان کے عملی اقدامات سے میل نہیں کھاتا۔ نظام بدلنے کے لیے بنائی گئی کابینہ کے بیشتر ارکان ماضی کے بد ترین آمروں اور ان کی اپنی زبان میں ''چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ کے قریبی ساتھی رہ چکے تھے۔
نئے نظام کے باب میں بھی ان کی ڈھلمل یقینی اور کنفیوژن نے عوام میں گہری مایوسی پیدا کی۔ نظام کے حوالے سے انہوں نے اپنے وعدوں اور دعووں کا آغاز ریاست مدینہ سے کیا، لیکن اس باب میں ڈھلمل یقینی کا یہ عالم تھا کہ کبھی سویڈن اور ناروے کے نظام کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے، اور کبھی چین کے معاشی و سیاسی نظام کو آئیڈیل قرار دیا جاتا‘ لیکن اس طرح مسلسل دعووں کے باوجود پاکستان کے فرسودہ سیاسی و معاشی نظام میں کسی قسم کی تبدیلی کے لیے ایک بھی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس باب میں نہ تو کوئی قانون سازی ہوئی اور نہ ہی پالیسی میں تبدیلی کیلئے کوئی عملی اقدامات ہوئے۔ اس طرح ساڑھے تین سال کا قیمتی وقت انتہائی بے دردی سے ضائع کر دیا گیا۔ اس طویل عرصے بعد جب ان کو اپنی ناکامی کا احساس ہوا تو انہوں نے دوسرے لیڈروں کے ساتھ کارکردگی کی بنیاد پر مقابلہ کرنے کے بجائے ذاتی اور شخصی تقابل شروع کر دیا۔ ذاتی اور شخصی تقابل کا نقطہ ماسکہ یہ تھا کہ ہماری ذات ہر قسم کے الزامات اور کرپشن سے پاک ہے، اور یہ چیز ہمیں ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں ممتاز کرتی ہے‘ لیکن بدقسمتی سے اس باب میں بھی وہ اپنے بیان کردہ اصولوں اور اخلاقیات کی دھجیاں بکھیرنے پر مجبور ہو گئے۔
تحریک عدم اعتماد کے خلاف انہوں نے سب سے بڑا موقف یہ اپنایا کہ اس میں لوگوں کو پیسے اور عہدوں کا لالچ دیکر ان کی خرید و فروخت ہو رہی ہے‘ لیکن بدقسمتی سے خود وہ اس دوڑ میں سب سے آگے نکل گئے، اور اپنی حکومت بچانے کے عوض ایسے لوگوں کو کلیدی عہدوں کی پیشکش شروع کر دی، جن کے کردار کے بارے میں ان کے خیالات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس طرح ان کی اخلاقی گراؤنڈ پر برتری حاصل کرنے کی کوشش بھی ناکام ہو گئی۔ دوسرا کام یہ کیا کہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر انہوں نے مذہب اور قوم پرستی کو سیاسی نعرے بلکہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ تاریخی تجربہ یہی بتاتا ہے کہ تنگ نظر قوم پرستی اور مذہب کے نام پر سیاست کے کچھ وقتی فوائد تو حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن ان کے حتمی نتائج کبھی مثبت نہیں ہوتے۔ اس باب میں کئی تلخ تاریخی تجربات موجود ہیں، جن سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved