تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     02-04-2022

ہولے ہولے رکھنا قدم…

ویسے توایک زمانے سے ہماری آزمائش جاری ہے مگر اب تو واقعی تنے ہوئے رَسّے پر چلنے کا مرحلہ آگیا ہے۔ ماہرین اور تجزیہ کار کم و بیش بیس سال سے جن لمحات کی طرف اشارہ کرتے آئے تھے‘ وہ لمحات آچکے ہیں۔ جن مراحل سے گزرنے کے حوالے متنبہ کیا جارہا تھا اب اُن سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ کم ہی نسلیں اِتنی خوش نصیب ہوتی ہیں کہ حقیقی پاور گیم دیکھ پائیں۔ بڑی طاقتوں کے درمیان محاذ آرائی اور رسہ کشی کے مراحل صرف دیکھنے کے لائق نہیں ہوتے بلکہ بھگتنے کی چیز بھی ہوتے ہیں۔ ہاتھیوں کی لڑائی میں گنّوں کی شامت آکر ہی رہتی ہے۔ ہر دور میں کمزوروں کا یہی فسانہ رہا ہے۔
آج کی دنیا میں جینے والے اس اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ ''دی گریٹ گیم آف سپریمیسی‘‘ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان اپنی طاقت برقرار رکھنے اور کمزوروں کو ایک طرف ہٹانے کا عمل روز بروز تیز ہوتا جارہا ہے۔ یہ کھیل کبھی کبھی صدیوں تک نہیں ہوتا اور کبھی کبھی چالیس پچاس سال میں کھیلا جانے لگتا ہے۔ یورپ نے کم و بیش تین صدیوں تک ایک دنیا پر راج کیا۔ تب یورپی طاقتوں کو منہ دینے کی ہمت کم ہی ریاستوں کو ہو پائی۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے فرق بہت زیادہ تھا۔ گوری نسلوں نے باقی دنیا کو اپنا فرمانبردار رکھنے کے لیے فطری علوم و فنون میں ہوشربا نوعیت کی پیش رفت یقینی بنائی۔ یورپ پر تھکن طاری ہوئی تو امریکا نے مورچہ سنبھال لیا۔ یورپی طاقتوں نے بھی زیرِ نگیں خطوں پر کم مظالم نہیں ڈھائے تھے مگر امریکا نے تو حد کردی۔ طاقتور جب کسی کو دبوچتا ہے تو اپنی بات منواتا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ یورپ نے بھی یہی کیا تھا۔ اہلِ یورپ اپنے ثقافتی اثرات مرتب کرنے پر بھی توجہ دیتے تھے مگر زیرِ نگیں ممالک اور خطوں کی اپنی تہذیب و ثقافت کو زیادہ نہیں چھیڑتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ خطوں کی اندرونی ثقافتی نشو و نما زیادہ متاثر نہ ہو۔ امریکا نے یہ اہتمام بالکل متروک رکھا ہے۔ وہ اپنے ماڈل کو بہترین قرار دے کر باقی دنیا کو وحشی قرار دیتا آیا ہے۔ لبرل ڈیموکریسی کو وہ بہترین نظامِ حکومت اور کھلے بازار کی معیشت کو مثالی معاشی نظام قرار دیتا ہے۔ اپنی بات منوانے کے لیے امریکا نے سات عشروں کے دوران متعدد ممالک اور خطوں کو تاراج کیا ہے۔ اُس کی کوشش رہی ہے کہ ہر معاملے میں صرف اُسے مثال اور ماڈل کے طور پر قبول کیا جائے۔
امریکا نے سات عشروں کے دوران جو کچھ بھی کیا وہ اب اپنے تمام منطقی اثرات و نتائج کے ساتھ سامنے آچکا ہے اور ایک دنیا کے لیے دردِ سر ثابت ہو رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد سامنے آنے والے عالمی نظام میں تمام مزے صرف امریکا اور یورپ کے لیے مختص رہے ہیں۔ ان دونوں خطوں نے مل کر باقی دنیا کا ناک میں دم کیا ہے۔ اب اِن دونوں خطوں کے لیے اپنی طاقت میں مزید اضافے کی گنجائش نہیں رہی۔ مورخین کہتے ہیں کہ کوئی بھی سپر پاور اپنے ہی بوجھ سے زمین پر آ رہتی ہے۔ نصف صدی کے دوران اِنہوں نے ہر معاملے کو اپنے حق میں کرنے کے حوالے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ عالمی نظام پر دونوں کی گرفت اِتنی مضبوط رہی ہے کہ اِن کی طاقت راتوں رات نمایاں حد تک کم نہیں ہوسکتی۔ ایک ریاست کی حیثیت سے امریکا اگر ناکامیوں کی طرف بڑھنے لگے تو سپر پاور کی حیثیت سے کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اُس کے لیے مختلف معاملات میں ایڈوانٹیج کے حصول کا سلسلہ دو ڈھائی عشروں تک جاری رہ سکتا ہے۔ ہم ایک اعتبار سے خوش نصیب ہیں کہ چار بڑی قوتوں کے درمیان بالا دستی کی جنگ دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور یورپ کھڑے ہیں اور دوسری طرف چین اور روس ہیں۔ ویسے تو بھارت بھی اس ریس میں شامل ہے مگر کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ وہ چند معاشی و مالیاتی کامیابیوں کے باوجود سپر پاور بننے کی ریس سے باہر ہے۔ سپر پاورز کے ساتھ مقابلہ کرنا تو بہت دور کا معاملہ‘ بھارت ڈھنگ سے علاقائی سطح کی پاور بننے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔ دو سال قبل ہم نے جس طور بھارتی فضائیہ کو دھول چٹائی تھی اُس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عسکری محاذ پر بھارت کس حد تک کمزورعزم کا حامل ہے۔
طاقت کے حوالے سے اب مقابلہ مغرب اور مشرق کے درمیان ہے۔ ایک زمانے سے روس وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہا تھا۔ وہ ایشیا میں بھی ہے اور یورپ میں بھی۔ روس پچھلے دروازے سے تو امریکا تک پہنچا ہوا ہے۔ بڑی طاقت ہونے کے حوالے سے وہ امریکا کو ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں بھی ہے۔ اب اس
نے طے کیا ہے کہ وہ نئی ابھرتی ہوئی دنیا میں ایشین بلاک کا حصہ رہے گا۔ چین کے ساتھ مل کر وہ امریکا اور یورپ کی بالا دستی کو چیلنج کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کا فیصلہ کرچکا ہے۔ امریکا اور یورپ کو یوکرین پر لشکر کشی کے باوجود روس پر حملہ کرنے کی ہمت اب تک نہیں ہوئی اور ہوگی بھی نہیں۔ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ روس کہاں تک جا سکتا ہے اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔ امریکا نے یوکرین کے معاملے میں صرف طفل تسلیوں پر گزارہ کیا ہے۔ اس سے باقی دنیا کو بھی بہت کچھ معلوم ہوگیا ہے۔ یورپ بہت کچھ سمجھ چکا ہے اور اُس نے اپنی راہ بہت حد تک بدل لی ہے مگر امریکی قیادت اب تک زیادہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ کچھ اور ممکن نہیں تو وہ دھمکانے پر اُتر آیا ہے۔ گزشتہ روز ہی کی بات ہے، بھارت نے روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا خیر مقدم کیا تو امریکا نے اُسے خبردار کیا کہ روس سے سستا تیل یا کوئی اور چیز نہ خریدے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ نے انتباہ کیا کہ روس سے دوستی بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ چین نے ڈوکلام میں سرحدوں پر کوئی زیادتی کی تو روس بچانے نہیں آئے گا۔ انہیں اس معاملے میں اپنے ملک کی مثال دینا چاہیے تھی جس نے یوکرین کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے!

 

پاکستان کے لیے یہ بہت نازک وقت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں کہا بھی ہے کہ ہم فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہیں۔ اب طے کرنا ہے کہ اپنے فیصلے ہم خود کریں گے یا کسی بڑی طاقت کی حاشیہ برداری کرنی ہے۔ یہ پورا خطاب پاکستان کے معاملے
میں بیرونی قوتوں کی بھرپور مداخلت کی توضیح کے لیے تھا۔ انہوں نے امریکا کا نام بھی لے لیا‘ اگرچہ بعد میں معذرت کر لی مگر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کی زبان پھسل گئی تھی۔ وہ قوم کو بتانا چاہتے تھے کہ راہ بدلنے کا وقت آگیا ہے۔ پاکستانی قیادت کو اب طے کرنا ہے کہ امریکا اور یورپ کے ہاتھوں مزید فریب کھانے ہیں یا پھر زمینی حقیقتوں کا ادراک کرتے ہوئے چین اور روس کا ساتھ دے کر نئے ابھرتے ہوئے بلاک میں اپنے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرنا ہے۔ بھارت اب تک مخمصے کی حالت میں ہے۔ یوکرین کے معاملے میں وہ پھنس کر رہ گیا ہے۔ ایک طرف روس ہے جس سے وہ اپنا بیشتر اسلحہ خریدتا ہے اور دوسری طرف امریکا و یورپ ہیں جو اُسے دھمکا رہے ہیں۔ امریکا نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ ڈالر سے ہٹ کر کسی انتظام کے تحت روس سے کچھ نہ خریدا جائے، کوئی ادائیگی نہ کی جائے۔ بھارت کی الجھن بڑھتی جارہی ہے۔ روس اُسے آزمانا چاہتا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ نے بھی نئی دہلی کا دورہ کیا ہے تاکہ بھارتی قیادت کے عزائم معلوم کیے جاسکیں۔ امریکا اور یورپ میں بھارت کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ داؤ پر تو ہمارا بھی بہت کچھ ہے مگر ہمارا معاملہ دوسرا ہے۔
اب ہماری قیادت کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ مغرب ابھی ہم پر بہت دباؤ ڈالے گا۔ وہ اِس مرحلے پر نہیں چاہتا کہ ہم اُس کے ہاتھ سے جاتے رہیں۔ ہم بھلا کیوں اُس کی باتیں مانتے رہیں؟ اس سے ہمیں ملا ہی کیا ہے؟ کئی بار اُس نے ہمیں استعمال کیا اور پھر اگلی ضرورت تک کے لیے چھوڑ دیا۔ وقت آگیا ہے کہ پارٹنر منتخب کرنے کے معاملے میں حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved