''میری جان کو شدید خطرہ ہے، ایک بڑا ملک دورۂ روس پر ناراض ہو گیا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے عدم اعتماد، استعفے یا نئے انتخابات کی پیشکش کی، مجھے ہٹانے پر سارے چور کیسے حکومت چلائیں گے؟ فوج کے خلاف کوئی بات نہیں کروں گا، میں چاہتا تھا کہ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر دسمبر تک رہیں لیکن ایسا نہ ہوا، دسمبر میں ملک پر مشکل وقت آنا تھا، جس کا نتیجہ اور حالات آج آپ دیکھ رہے ہیں، کسی کو آرمی چیف لگانے کا سوچا نہیں تھا، اگست سے سازش ہو رہی تھی اس کا علم تھا، گیم لندن سے چلائی جا رہی تھی، میرے پاس سب رپورٹس ہیں کہ کون کس سے ملا ہے اور کون کس سفارتکار سے مل رہا ہے‘ سب خبر ہے۔ سازشی عناصر میرے سمیت میری اہلیہ اور ان کی دوست فرح خان کی کردار کشی بھی کریں گے، ہو سکتا ہے میری کوئی آڈیو ٹیپ جاری کی جائے، احتساب کے عمل کو جان بوجھ کر خلل ڈال کر روکا گیا، لوگوں کو سازش اور ڈیلز کے تحت بچایا گیا، یہ سب پتہ ہے لیکن ہم بے بس تھے، عدم اعتماد کی ووٹنگ پر بڑا سرپرائز دوں گا اور اگر ہم جیت جاتے ہیں تو پھر قبل ازوقت الیکشن کی طرف چلے جائیں گے، دوبارہ اکثریت سے آ کر سب صفائی کروں گا۔ عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹانا سیاسی سمجھوتہ تھا، آخری گیند تک لڑوں گا، یہ سازش ایک بہت بڑی بین الاقوامی سازش ہے‘‘۔ یہ باتیں وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کے روز ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیں۔ اب ان تمام باتوں کو اس پس منظر میں دیکھیں کہ وفاق اور پنجاب میں اپوزیشن کی جانب سے پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد میں بظاہر نظر آتی ناکامی پر وزیراعظم اور ان کے کھلاڑی سیخ پا نظر آتے ہیں۔ آج بروز اتوار قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں عین جمہوری و آ ئینی روایات و ضابطوں کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور وزیراعلیٰ پنجاب کے لئے ووٹنگ کروائی جائے گی۔ کسی اور ملک میں یہ جمہوری و آئینی عمل وقوع پذیر ہورہا ہوتا تو اس ملک کے سیاسی لیڈر اور شہریوں کے نزدیک ایسا عمل، ملک میں جمہوری روایات اور عوام کے اقتدار اعلیٰ کو مضبوط کرنے کا ایک احسن اور مثبت قدم سمجھا جاتا‘ لیکن چونکہ ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے باسی ہیں تو دوسرے ممالک کے برعکس اپنے معاملات میں خاص ہیں۔ ہمیں اپنے سامنے واضح نظر آتی شے میں بھی سازش اور اس کے پس پردہ ہلتی ڈوریاں دیکھنے کی پختہ عادت ہوچکی ہے۔ ورلڈ کپ کا کوئی اہم میچ ہار جائیں تو ہمیں اس کے پیچھے بھی کوئی سفارتی ڈیل یا جوئے میں جیتی رقم نظر آتی ہے۔ کہیں کوئی واقعہ ہو جائے تو ہم فوراً اس کے پیچھے چھپے ''خفیہ عوامل‘‘ ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں۔ اہم حکومتی معاملات تو چھوڑیے، ہماری ہاں روز بروز بڑھتی ہوئی اس منطق کا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ چند سال قبل آزاد کشمیر اور بالاکوٹ میں آنے والا تباہ کن زلزلہ بھی بہت سے لوگوں کے نزدیک امریکہ کے زیر زمین بم تجربے کا نتیجہ تھا۔ اگر اس پیرائے میں موجودہ حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کے پیچھے عالمی سازش اور استعماری قوتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ اپوزیشن کی لائی تحریک عدم اعتماد کے پیچھے عرق ریزی سے ایک مراسلے کی صورت میں حکومت نے باریک بینی سے سازش تو ڈھونڈ نکالی، لیکن روز روشن کی طرح عیاں اپنی غلطیاں، خامیاں اور کوتاہیاں، انہیں دکھائی نہ دیں۔ بقول شاعر:
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں...
یہ کیسی عالمی سازش ہے کہ جس کے وقوع پذیر ہونے کے ڈیڑھ سال قبل ہی منحرف ہونے والے اراکین اسمبلی نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا تھا، مگر اس وقت جناب وزیراعظم اور ان کی کچن کیبنٹ کے پاس ان اراکین کے مسائل سننے کا وقت نہیں تھا‘ اب ان کے منہ بند کروانے کے لئے الزامات، کردار کشی حتیٰ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بے دریغ استعمال میں بھی کوئی قباحت نہیں سمجھی گئی۔ جہانگیر ترین گروپ، علیم خان گروپ، چھینہ گروپ، فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کے معاملات آج کے نہیں... بلکہ درحقیقت یہ وہ زیر زمین ابال تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک آتش فشاں کی صورت میں باہر نکل آیا۔ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتے ہی جس طرح وفاق اور چاروں صوبوں میں ان کی پارٹی ٹوٹی، اس میں امریکہ بہادر یا یورپی یونین کا اتنا ہی ہاتھ ہوسکتا ہے، جتنا عالمی معاملات میں پاکستان کے اثرورسوخ کا‘ یعنی نہ ہونے کے برابر۔ جناب وزیراعظم کے پاس اگر یہ رپورٹ موجود ہے کہ پاکستان میں کون سے سیاستدان، اینکر اور صحافی کس سفارتکار سے ملے، کیا بات چیت ہوئی تو یقیناً یہ ثبوت بھی ہونے چاہئیں کہ ان منحرف اراکین نے کتنے میں اپنا ضمیر کا سودا کیا؟ انہیں کب اور کہاں کتنی رقم ادا کی گئی؟ اور وہ کہاں موجود ہے؟ کم از کم قوم یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہے کہ یہ ثبوت جلد از جلد ان کے سامنے رکھے جائیں تاکہ ان ضمیر فروشوں کا محاسبہ کیا جا سکے، اور اس میں وہ تاخیر نہ کی جائے جو مراسلے کی صورت میں غیر ملکی دھمکی قوم کے سامنے لانے میں کی گئی۔ وہ مراسلہ 7 مارچ سے 27 مارچ تک، یعنی 20 دن تک وزیراعظم کی جیب میں رہا۔ اسی دوران اپوزیشن نے سپیکر کے سامنے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی، وزیراعظم نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر اپوزیشن کا شکریہ ادا کیا، جلسے جلوسوں میں تینوں مخالفین کو بندوق کی ''نشست‘‘ پر باندھنے کی خواہش کا اظہار کیا... عوامی طاقت سے مخالفین کے چھکے چھڑانے کے دعوے کئے لیکن جب کچھ نا بنا، تو اس مراسلے کو تحریک عدم اعتماد سے جوڑنے کی کوشش شروع کردی۔ مجھ سمیت بہت سے پاکستانی، یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس خط کا اپوزیشن سے کیا تعلق ہے؟ اور وہ کیوں اور کیسے غدار ہے؟ یہ بات ابھی تک بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کی سمجھ میں نہیں آسکی۔ وزیراعظم عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لئے اس مسئلے کو ایوان سے نکال کر سڑکوں پر پہنچایا، جلسے جلوس کئے، اداروں کو اس سیاسی لڑائی میں گھسیٹنے کی پوری کوشش کی، اور کچھ نہ بنا تو سارا ملبہ غیر ملکی سازش پر ڈال دیا۔
لیکن کوئی حکومت سے پوچھے کہ اگر آپ کے تعلقات بیک وقت اپوزیشن، اپنے پارٹی اراکین، اپنی اتحادی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور اہم ممالک سے اچھے نہیں تو آخر اس میں قصور کس کا ہے؟ اگر آپ نہ مہنگائی کنٹرول کر سکے، نہ معیشت کو ترقی دے سکے، نہ انتخابی نعرے، دعوے اور وعدے نبھا سکے تو آخر کہیں تو غلطی ہے، جس کی ذمہ دار خود حکومت ہے؟ پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی سویلین حکومت ہے جسے طشتری کی صورت میں اقتدار اور تمام تر تعاون و سہولیات پیش کی گئیں ۔ فقیدالمثال تعاون جو اس حکومت کو اداروں کی جانب سے حاصل رہا وہ لاثانی تھا۔ اس کے باوجود اگر تبدیلی سرکار پرفارم کر سکی اور نہ ہی ایک صفحے پر موجود سٹیک ہولڈرز کی قدر کرسکی تو پھر اسے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ اپنا محاسبہ خود نہ کر سکی، اپنی غلطیوں سے سیکھ نہ سکی تو پھر آئندہ کسی الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل کر بھی لے تو حکومت بنا لینے کے بعد یہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ کسی غیر ملکی سازش کے سر تھونپتی دکھائی دے گی۔