تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-04-2022

امریکا کو غصہ کیوں آتا ہے؟

کون ہے جو برتری نہیں چاہتا؟ اور کون ہے جسے اپنی ختم ہوتی ہوئی برتری بُری طرح نہیں کَھلتی؟ معاملہ فرد کا ہو یا معاشرے کا‘ بات طاقت کے حصول سے شروع ہوکر طاقت کے حصول پر ختم ہوتی ہے۔ ہر انسان زیادہ سے زیادہ طاقتور ہوکر جینا چاہتا ہے۔ یہ طاقت مال و دولت کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے اور شہرت و عزت کی شکل میں بھی۔ اور ان دونوں کے ملاپ سے شخصیت میں وزن پیدا ہوتا ہے جس کی مدد سے انسان دوسروں کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی کر گزرتا ہے۔ یہی معاملہ معاشروں اور ریاستوں کا بھی ہے۔ ہر معاشرہ دوسروں سے بہتر‘ بلکہ برتر ہوکر جینا چاہتا ہے۔ اس کوشش میں بہت کچھ داؤ پر لگ سکتا ہے اور لگتا بھی ہے۔ معاشروں کے درمیان کھنچا تانی اور رَسّا کشی جاری رہتی ہے۔
چشمِ فلک نے ہر دور میں معاشروں اور ریاستوں کے درمیان زور آزمائی دیکھی ہے۔ یہ ایسا ہی فطری معاملہ ہے جیسا سُورج کا طلوع و غروب ہونا‘ ہوا کا چلنا‘ فضا میں نمی کا ہونا ہے۔ جب تک انسان روئے ارض پر ہے تب تک زور آزمائی کا کھیل جاری رہے گا۔ اس کھیل میں صرف کھلاڑی شریک نہیں ہوتے‘ کبھی کبھی تماشائیوں کو بھی با دلِ ناخواستہ شریک ہونا پڑتا ہے اور معاملہ شریک ہونے تک محدود نہیں رہتا‘ بہت کچھ جھیلنا بھی پڑتا ہے۔ ہم نے 1950ء کے عشرے کے اوائل میں ایک غلط فیصلہ کیا تھا اور پھر اُس کے نتائج بھگتنے کا سلسلہ شروع ہوا جو مختلف شکلوں میں اب بھی جاری ہے۔ امریکا اور یورپ کو ترجیح دے کر ہم نے سوویت بلاک کو مکمل نظر انداز کیا۔ یہی نہیں‘ دو سپر پاورز کے درمیان سرد جنگ میں بھی ہم کم و بیش فریق کے درجے میں رہے۔ یہ سب کچھ ہمارے خلاف گیا۔ سوویت دور میں روس نے ہمیں بہت کچھ دینے کی کوشش کی مگر ہم مغرب کی غلامی کو اپنے لیے سرمایۂ حیات سمجھ بیٹھے تھے۔ ہمارے ذہن مغرب سے ہٹ کر کسی کے بارے میں سوچنے کے عادی ہی نہ تھے۔ امریکا اور یورپ نے بھی ہماری نفسی کمزوری اور مرعوبیت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ کم و بیش چار عشروں تک ہمیں کُھل کر استعمال کرنے اور استعمال کے بعد پھینک دینے کا سلسلہ جاری رہا۔
امریکا نے کم و بیش چھ عشروں تک دنیا پر راج کیا ہے اور یورپ نے اُس کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں جب فطری علوم و فنون میں فقید المثال پیش رفت نے کئی ممالک کی طاقت میں اضافہ کیا تو امریکا اور یورپ کے لیے مشکلات پیدا ہونے کا عمل شروع ہوا۔ امریکا نے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ یورپ نے چونکہ اُس کا ساتھ دیا تھا اس لیے وہ بھی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔ ان دونوں کو اپنی طاقت گھٹتی ہوئی محسوس ہوئی تو معاملات کو بگاڑنے پر تُل گئے۔ چین کی طاقت میں ہوشربا اضافے نے امریکا اور چین کی نیندیں اُڑادیں۔ یہ تو ہونا ہی تھا۔ طاقت کا کھیل ہوتا تو زمین پر بسی ہوئی ریاستوں کے درمیان ہے مگر اس کے اصولقدرت طے کرتی ہے اور طریق بھی۔ دوسرے تمام معاملات کی طرح یہ پورا معاملہ بھی قدرت کی مرضی کے تابع ہے۔ جب کوئی اپنی حد سے گزرتا ہے تو اللہ کے جلال میں تحرک پیدا ہوتا ہے اور معاملات کچھ کے کچھ ہونے لگتے ہیں۔ ابھی کل تک یہ محسوس ہو رہا تھا کہ امریکا اور یورپ کی بالا دستی کا عہد ختم ہونے کی طرف رواں ہونے کو ہے مگر اب جو صورتِ حال ابھر رہی ہے وہ صاف بتا رہی ہے کہ سپر پاور جان کر ہم جن سے مرعوب رہا کرتے تھے اُن میں اب پہلی سی بات نہیں رہی۔
جب کسی کے ہاتھ سے طاقت جانے لگتی ہے تو اُس کی حالت عجیب ہو جاتی ہے۔ معاملہ فرد کا ہو یا معاشرے کا یعنی ریاست کا‘ نتیجہ یکساں برآمد ہوتا ہے۔ گھٹتی ہوئی طاقت اور ہاتھوں سے پھسلتی ہوئی برتری بالعموم شدید بدحواسی کو جنم دیتی ہے۔ جس کی برتری ختم ہو رہی ہوتی ہے وہ دن بہ دن بے عقل ہوتا جاتا ہے۔ اس وقت امریکا کی یہی کیفیت ہے۔ ابھی کل تک امریکا واحد سپر پاور کی حیثیت سے زمانے بھرکے مزے لُوٹ رہا تھا۔ کوئی روکنے والا تھا نہ ٹوکنے والا۔ جسے چاہا اُجاڑ دیا‘ جسے چاہا برباد کر ڈالا۔
دنیا سمجھ رہی تھی کہ اکیسویں صدی میں انسانیت کے مسائل حل ہوں گے۔ دنیا بھر میں عام آدمی کے لیے بہترین سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے جانے کی امید پیدا ہوچلی تھی۔ یہ امید کچھ غلط بھی نہ تھی۔ ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی ممکن بنانے کی صورت میں عام آدمی کے لیے بھی تو سب کچھ آسان ہو ہی جانا چاہیے تھا۔ انسان نے تین ساڑھے تین ہزار سال کے دوران علم و عمل کے میدان میں جو کچھ بھی کیا ہے وہ اب مجتمع ہوکر عروج کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ جن سہولتوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا وہ اب زندگی کا حصہ ہیں۔ ایسے میں یہ امید بے جا نہیں کہ عام آدمی کی زندگی زیادہ آسان ہونی چاہیے مگر امریکا نے یورپ کے ساتھ مل کر پوری دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے پر توجہ دی ہے جن کے نتیجے میں عام آدمی کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ ایک زمانے سے سوچا جارہا تھا کہ جب ہر شعبے میں غیر معمولی ترقی ممکن بنالی جائے گی تب ہر انسان کے لیے ڈھنگ سے جینا ممکن ہو جائے گا تاہم ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
دنیا پھر اُسی موڑ پر آگئی ہے جس پر وہ سو سال پہلے تھی۔ تب فطری علوم و فنون کی ترقی مثالی نوعیت کی نہیں تھی۔ آج معاملہ بہت مختلف ہے۔ کم و بیش ہر شعبے میں ممکنہ حد تک ترقی واقع ہوچکی ہے۔ اب معاملہ ایجاد و اختراع سے زیادہ اصلاحِ نفس کا ہے۔ امریکا اور یورپ کو باقی دنیا کے لیے سرپرست کا جو کردار ادا کرنا تھا وہ انہوں نے ادا نہیں کیا۔ اس کے بجائے وہ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کے چکر میں پڑگئے۔ امریکا کے ابھرنے سے یورپ کی برتری متاثر ہوئی تھی۔ اس کے ازالے کے لیے اہلِ یورپ نے امریکا کے ساتھ جُڑنے کو ترجیح دی۔ معاملہ مذہبی‘ نسلی‘ جغرافیائی اور ثقافتی ہم آہنگی کا بھی تھا۔ امریکا کے ساتھ مل کر یورپ نے بھی ایک صدی کے دوران اپنی طاقت میں خوب اضافہ کیا۔ اب معاملات پلٹنے لگے ہیں تو یورپ نے ہر معاملے میں امریکا کی طرف دیکھنے کی عادت ترک کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔
یہ وقت امریکا کے لیے انتہائی نوعیت کی الجھن لے کر آیا ہے۔ اُس کی طاقت میں تیزی سے کمی آتی جارہی ہے۔ عالمی سیاسی و معاشی نظام پر اُس کی گرفت ڈھیلی پڑتی جارہی ہے۔ کل تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ کوئی بھی ملک تجارتی سودے ڈالر سے ہٹ کر کسی اور کرنسی میں کرنے کی طرف جانے کا سوچ بھی سکے گا۔ اب روس اور چین تمام باہمی سودے روبل اور یوآن میں کرنے کی طرف جارہے ہیں۔ بھارت بھی روس سے‘ پابندیوں کے باوجود‘ خام تیل اور دیگر اشیا خریدنا چاہتا ہے اور اس کے لیے ڈالر کو بائی پاس کرنے کے موڈ میں ہے۔ اس پر امریکا جُزبُز ہے۔ یہ بھی فطری ہے۔ معاملات اُس کے ہاتھ سے نکلتے‘ پھسلتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اُس کا جُزبُز اور بدحواس ہونا بنتا ہے۔
امریکی قیادت زمینی حقیقتوں کو اچھی طرح جانتی ہے۔ وہ محسوس کر رہی ہے کہ ایک نئے عالمی نظام کی ضرورت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں بہت سے معاملات میں پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ یہ عمل بھی جاری ہے مگر امریکی قیادت اپنی برتری میں رونما ہونے والی کمی کی رفتار گھٹانے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔ ہم یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ امریکا نے دنیا بھر میں جو خرابیاں پیدا کی ہیں اور جتنے بڑے پیمانے پر ممالک اور خطوں کو تاراج کیا ہے اُس کی پاداش میں خود اُسے بھی شدید نوعیت کے غیظ و غضب کا سامنا ہوسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سپر پاورز جب اپنے نقطۂ عروج پر ہوتی ہیں تو دنیا بھر میں ستم ڈھاتی ہیں اور جب زوال پذیر ہوتی ہیں تب مظلوم مل کر اُن کا ناک میں دم کرتے ہیں‘ گن گن کر بدلے لیتے ہیں۔ امریکا اس وقت زخمی شیر کی سی حیثیت کا حامل ہے۔ وہ اپنی طاقت میں کمی کا عمل روکنے کے لیے کچھ بھی کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved