عالمی طاقتوں کے کھیل میں کھلاڑی آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس وقت چین بڑے کھلاڑیوں کی صف میں ہے۔ اُس کی پوزیشن روز بروز بہتر اور مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ کیوں نہ ہو؟ اُس نے اِس دن کے لیے عشروں محنت کی ہے۔ اکیسویں صدی کے اواخر میں چین نے خود کو منوانے کی سمت سفر شروع کیا۔ چین ایک ایسے خطے میں واقع ہے جس میں عالمی آبادی کا بڑا حصہ مرتکز ہے۔ چین، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، میانمار اور جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک مل کر اس پورے خطے کو دنیا کی سب سے بڑی منڈی بناتے ہیں۔ معاشی مفادات دیگر تمام امور پر حاوی ہیں۔ ایسے میں پاکستان کے لیے بہت کچھ ہے کیونکہ وہ اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے چین اور وسطی ایشیا کے لیے بہت اہم ہے۔ پھر ہمیں یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ممکنہ اگلی سپر پاور چین سے ہماری سرحد ملتی ہے اور تعلقات بھی بہت اچھے ہیں۔ ہم متوازن پالیسیاں بناکر اپنے معاملات کو زیادہ سے زیادہ بارآور بناسکتے ہیں۔ بین الریاستی تعلقات مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ کوئی کسی پر احسان نہیں کرتا۔ کوئی اگر کسی کی طرف بڑھتا اور جھکتا ہے تو ایسا کسی نہ کسی مفاد کے تحت ہی کیا جاتا ہے۔ چین سے ہمارے تعلقات بھی مقاصد، اہداف اور مفادات کے تحت ہیں۔ اور جائے شکر ہے کہ یہ تعلقات اب تک باہمی احترام پر مبنی رہے ہیں۔ چین آج جہاں کھڑا ہے اُس مقام تک پہنچنے کے لیے اُس نے سات عشروں تک اَن تھک محنت کی ہے۔ چینی معیشت ساڑھے تین چار عشروں کے دوران غیر معمولی استحکام سے ہم کنار رہی۔ چین نے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایک دور تھا کہ چین کے لیے اس کی بڑی آبادی بہت بڑا بوجھ تھی۔ پھر ماؤ زے تنگ جیسے قائد اور اُن کے رفقائے کار کے ملنے پر چینیوں نے محنت کی اور شاندار ترقی ممکن بناکر ایک دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ آج چین میں بہت بڑے پیمانے پر اشیا سازی عام ہے کیونکہ اچھا خاصا مال تو اندرونِ ملک ہی کھپ جاتا ہے۔ بہت بڑے پیمانے پر اشیا سازی سے منافع کی شرح غیر معمولی ہے۔
چین کی طاقت میں اضافے کو دیکھ کر سب سے زیادہ پریشانی امریکا اور یورپ کو لاحق ہے اور یہ بالکل فطری امر ہے۔ اب معاملات مکمل طور پر بے نقاب ہوچکے ہیں۔ امریکا اور یورپ دیکھ رہے ہیں کہ چین اُن کی کوئی بھی ایسی ویسی بات نہیں مان رہا۔ سرد جنگ اب گرم ہوتی جارہی ہے۔ ایسے میں سفارتی اور سٹریٹیجک سطح پر ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھایا جانا چاہیے۔ چینی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ امریکا اور یورپ میں وہ پہلی سی بات نہیں اس لیے اُن کی ہر بات من و عن تسلیم بھی نہیں کی جاسکتی۔ ہر سپر پاور کو آخر آخر ایسے ہی لمحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چین نے امریکا پر واضح کردیا ہے کہ جن معاملات سے اُس کا کوئی تعلق نہیں اُن میں گھسیٹنے کی کوشش نہ کی جائے۔ دو دن قبل یورپی یونین اور چین کے قائدین کے درمیان ورچوئل کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں یوکرین کی صورتِ حال، عالمی تجارت اور دیگر امور پر بات چیت ہوئی۔ اس کانفرنس کے حوالے سے ایک پریس بریفنگ میں چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ژاؤ لی جیان نے کہا ''یوکرین کا بحران امریکا کا پیدا کردہ ہے۔ اُس نے معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم نیٹو کی مشرق کی سمت توسیع پر زور دیا تو روس بھڑک اٹھا۔ روسی قیادت نے یہ محسوس کیا کہ اُسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکا نے 1999ء سے اب تک نیٹو کی توسیع کے حوالے سے جو اقدامات کیے ہیں اُن کے نتیجے میں نیٹو کے ارکان کی تعداد 16 سے 31 تک جا پہنچی ہے۔ یہ سب کچھ روس کو مشتعل کرنے کے لیے کافی تھا‘‘۔
چین نے امریکا پر واضح کیا ہے کہ یوکرین کے معاملے میں اُسے کسی ایک فریق کی طرف داری کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ چین جو کچھ بھی کرے گا اپنے مفادات اور اپنی ترجیحات کے مطابق کرے گا۔ امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ چینی قیادت اس مرحلے پر یوکرین کے حوالے سے کھل کر روس کی مذمت کرے جبکہ چین کہتا ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ اپنے حتمی مفادات دیکھتے ہوئے کرے گا۔ یہ بات کسی بھی اعتبار سے غلط ہے نہ قابلِ مذمت۔ روس اور چین کے درمیان تجارت کا حجم غیر معمولی ہے۔ یوکرین کے بحران پر چینی قیادت روس کو ناراض نہیں کرسکتی اور دوسری طرف یہ بھی تو دیکھا جانا چاہیے کہ جو کچھ ماننے کے لیے چین کو مجبور کیا جارہا ہے وہ دوسرے کب مان رہے ہیں۔
یوکرین پر روس کی لشکر کشی کے حوالے سے بھارت نے اب تک خاصا ڈھلمل رویہ اپنا رکھا ہے۔ وہ روس کی مذمت کرنے سے گریزاں ہے اور روس پر امریکا و یورپ کی طرف سے عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی تک جاچکا ہے۔ روس نے بھارت کو سستا خام تیل فراہم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ بھارت تیل خریدنے کو تیار ہوگیا ہے۔ یہ تو
ہوئی اقتصادی پابندیوں کی خلاف ورزی۔ امریکا اور یورپ کو زیادہ دھچکا اس بات سے لگا ہے کہ روس اور بھارت کے درمیان یہ سودا ڈالر میں نہیں ہو رہا۔ بین الاقوامی ادائیگیوں کے نظام سوئفٹ سے روس کو نکالا جاچکا ہے۔ ایسے میں بھارت نے روس کو اُسی کی کرنسی‘ روبل میں ادائیگی کرنے کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔ روس سے تجارتی روابط برقرار رکھ کر امریکا اور یورپ کو ٹھینگا دکھانے کی ابتدا چین نے کی تھی۔ اب بھارت بھی سامنے آچکا ہے۔ دو دن قبل برطانوی وزیر خارجہ لز ٹرس نے نئی دہلی میں اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے کہا کہ روس سے خام تیل نہ خریدا جائے۔ اس پر انہوں نے پوچھا کہ اگر روس پر اقتصادی پابندیاں عائد ہیں تو پھر یورپی ممالک اب بھی روس سے تیل اور گیس کیوں خرید رہے ہیں؟
امریکا اور یورپ چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور چین کو گھیر لیا جائے۔ یہ عمل مختلف طریقوں سے کم و بیش دو عشروں سے جاری ہے مگر چینی قیادت کسی بھی مقام پر جھکائی اور پکڑائی نہیں دے رہی۔ چین نے معیشت کے محاذ پر زیادہ توجہ دی ہے۔ دنیا بھر میں چین کی خطیر سرمایہ کاری ہے۔ افریقہ میں اُس نے کئی ممالک سے قدرتی وسائل کے شعبے میں معاہدے کیے ہیں۔ امریکا اور یورپ ڈیڑھ عشرے سے یہ ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ چینی قیادت ایشیا اور افریقہ کے ممالک کو قرضوں کے جال میں جکڑ کر کنگال کرنا چاہتی ہے۔ مغربی ماہرین یہ بتانا پسند کریں گے کہ اب تک دنیا بھر کے پس ماندہ ممالک کو قرضوں کے جال میں کن اداروں نے جکڑا ہے؟ آئی ایم ایف اور عالمی بینک امریکا اور یورپ کے اشاروں پر کام کرتے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے پس ماندہ ممالک میں حکومتوں کو غیر مستحکم کرتے ہیں تاکہ اُن کا تختہ پلٹ کر اپنے مطلب کے حکمرانوں کو سامنے لانا آسان ہوسکے۔
چینی قیادت کے حوالے سے یہ تاثر پھیلایا جاتا رہا ہے کہ وہ کمزور ممالک کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ ایسا نہیں ہے! چین نے ابتدا ہی سے پوری توجہ معیشت کو دی ہے۔ وہ عسکری قوت کا بھی حامل ہے اور اب بڑے پیمانے کی عسکری کارروائیاں کرنے کی صلاحیت و سکت کا حامل بھی ہے مگر اس کے باوجود چینی قیادت چاہتی ہے کہ کسی بھی غیر ضروری عسکری مہم جُوئی سے گریز کیا جائے۔ اُس نے امریکا اور یورپ کا انجام دیکھا ہے۔ وہ فی الحال کسی بھی غیر ضروری مہم جُوئی کے گڑھے میں گرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ ایسے میں امریکا اور چین کی بدحواسی کا بڑھنا بھی ناگزیر ہے۔ وہ کسی نہ کسی طور چین کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے اسے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین کے لیے بھی یہ فیصلہ کن لمحات ہیں۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتا ہے کہ روس کے ساتھ مل کر وہ ایک ایسا نظام تیار کرسکتا ہے جس میں امریکا اور یورپ کے لیے تمام فوائد بٹورنے کی گنجائش نہ ہو۔ ادائیگیوں کے نظام میں ڈالر کو ثانوی حیثیت دینے کی طرف قدم بڑھایا جاچکا ہے۔ یہ مغربی طاقتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ بعض معاملات میں بپھرنے کی گنجائش بھی ہے مگر چینی قیادت اب تک صبر و تحمل ہی کو اپنا کلیدی ہتھیار بنائے ہوئے ہے۔ یہ حکمتِ عملی مغربی طاقتوں کی بدحواسی بڑھارہی ہے کیونکہ وہ ایکسپوز ہوتی جارہی ہیں۔