بے کس و نادار لوگوںکے حقوق ہر دور میں طاقتور لوگوں نے پامال کیے ہیں۔ آج پاکستان میں غریب عوام کا کوئی بنیادی حق محفوظ نہیں۔ ہم اُس نبیٔ رحمتﷺ کی امت ہیں جو بے کسوں کی دستگیری کے لیے دنیا میں تشریف لائے تھے۔ آپﷺ نے اپنے اس فریضے کو جس عظیم الشان انداز میں سرانجام دیا وہ تاریخ میں بے مثال بھی ہے اور لازوال بھی۔
نبی اکرمﷺ کا تذکرہ قدیم آسمانی کتابوں میں ملتا ہے، جس میں آپﷺ کی شان وشوکت اور فتوحات کے اشارات بھی ہیں اورآپ کی درویشی، سادگی اور انسانیت کے ساتھ ہمدردی وغم گساری کی تصاویر بھی نمایاں ہیں۔ انسانیت زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی۔ لوگوں نے اپنے اوپر بوجھ ڈال رکھے تھے اور ان کے نیچے دبے جارہے تھے۔ طاقتوروں نے کمزوروں کو حقوق سے محروم کر رکھا تھا اور آقاؤں نے غلاموں کو جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کردیا تھا۔ دنیا ظلم وجور سے بھر گئی تھی اور کراہتی ہوئی انسانیت اسی طرح رحمت عالم کی منتظر تھی، جس طرح قحط زدہ پیاسی زمین ابرِرحمت کو ترستی ہے۔ اللہ نے انسانیت کی قسمت بدلنے کا فیصلہ کیا تو رحمتِ مجسمﷺ مبعوث ہوئے۔ نبی اکرمﷺ نے حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا: ''تمہارے غلام، تمہارے غلام، تمہارے غلام، انہیں ویسا ہی کھلاؤ جیسا خود کھاتے ہواور ویسا ہی پہناؤ جیسا خود پہنتے ہو۔ اگر وہ کوئی ایسی غلطی کر بیٹھیں، جسے تم معاف نہ کرنا چاہو تو بھی انہیں سزا اور ایذا نہ پہنچاؤ بلکہ اللہ کے بندو! ایسی حالت میں انہیں فروخت کردو۔ (مسند احمد، ج:4، ص:36)
چونکہ پوری دنیا اور عرب کے معاشرے میں غلاموں کا وجود اور خریدوفروخت مروّج تھی، اس لیے آپﷺ نے انہیں بیچ ڈالنے کی بات فرمائی لیکن عمومی طور پر آپ غلاموں کی آزادی کے علمبردار تھے۔ اس کے لیے نہ صرف آپﷺ نے امت کو تلقین فرمائی بلکہ خود عملاً سینکڑوں غلاموں اور کنیزیں کو آزاد کیا۔ کبارصحابہ کرامؓ کا بھی یہی طرزِ عمل تھا۔ آپﷺ کا ایک ارشاد عبداللہ بن عمرؓ نے نقل کیا ہے، روایت کرتے ہیں: ''میں نے آنحضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، جس کسی نے غلام کو تھپڑ ماردیا یا کوئی ضرب لگائی تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کردے‘‘۔ ( مسلم: 4298)
حضرت ابو مسعود البدریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے غلام کو کوڑے سے مارا تو اچانک پیچھے سے آنحضورﷺ کی آواز آئی۔ میں نے آپ کی آواز سن کر کوڑا پھینک دیا۔ آپﷺ نے فرمایا: ''ابومسعود! خوب جان لو، تم اس غلام پر جتنی قدرت رکھتے ہو، اللہ اس سے کہیں زیادہ تمہارے اوپر قدرت رکھتا ہے‘‘۔ میں نے عرض کیا: ''اب میں کبھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا‘‘۔ ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ میں نے عرض کیا: ''یارسول اللہﷺ! اسے میں نے اللہ کی خاطر آزاد کردیا ہے‘‘۔ جواب میں آپﷺ نے فرمایا: ''اگر تو یہ نہ کرتا تو آگ کی لپٹ تجھے آلیتی۔‘‘ ( مسلم: 4306، 4308)
آنحضورﷺ کے آخری کلام کے بارے میں حضرت علیؓ راوی ہیں کہ آپﷺ کی زبانِ مبارک پر آخری لمحات میں یہ الفاظ تھے: ''نماز، نماز، اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا‘‘۔ ( ابوداؤد:5156) ایک اور حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص آنحضورﷺ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ ہم اپنے غلاموں اور خدام کو ان کی غلطیوں پر کتنی مرتبہ معاف کریں تو آپﷺ خاموش رہے۔ اس نے پھر سوال دُہرایا تو بھی آپﷺ خاموش رہے۔ تیسری مرتبہ سوال کرنے پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ہر دن میں ستر مرتبہ ان سے عفو ودرگزر کا معاملہ کیا کرو‘‘۔ (ابوداؤد: 5264)
آنحضورﷺ نے واقعتاً غلامی کی زنجیریں کاٹیں اور انسانیت کو وہ شرف بخشا، جس کی وہ مستحق ہے۔ یہ بات بھی بہت قابلِ غور ہے کہ زنجیریں کاٹنے والے نے محض قانون سازی ہی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ اس وقت بھی روشنی کے مینار تعمیر کیے، جب قانون اور حکمرانی ان کے پاس نہیں تھی۔ مکہ مالِ تجارت کی طرح غلاموں کی بھی بہت بڑی منڈی تھی۔ اسی منڈی میں ایک بچہ فروخت ہوا، جسے مکہ کے سردار حکیم بن حزام نے خرید لیا اور پھر اپنی پھوپھی سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ کو ہدیہ میں دے دیا۔ مستقبل کا یہ عظیم انسان چار سو درہم میں بکا تھا۔ اس کا نام زیدؓ بن حارثہ تھا۔ زیدؓ ایک معزز قبیلہ بنوقضاعہ کے سردار حارثہ بن شراحبیل کے بیٹے تھے، جنہیں ان کے ننھیال سے کچھ غارت گروں نے حملہ کرکے اٹھا لیا اور پھر مکے میں لاکر فروخت کردیا تھا۔ سیدہ خدیجہؓ کے گھرانے میں زیدؓ کو دنیا کے سب سے بڑے انسان کی سرپرستی اور شفقت ملی تو اپنا غم بھول گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ جس گھر میں وہ آیا ہے، یہاں ماں کی ممتا کا بدل بھی موجود ہے اور شفقت پدری کا نعم البدل بھی۔ بنوقضاعہ کا ہونہار بچہ اچھے ماحول میں پرورش پارہا تھا مگر ادھر اس کے والدین اور عزیز واقارب سخت اذیت اور کرب میں مبتلا تھے۔ ان کے والدین نے عرب کا ہر کونہ چھان مارا مگر ان کا لختِ جگر کہیں سے نہ مل سکا۔ اسی دوران نبی رحمتﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تاجِ نبوت پہنایا۔ آپﷺ نے اپنی دعوت سب سے پہلے اپنے قریبی لوگوں تک پہنچائی۔ اولین چار خوش قسمت انسان جو شمع رسالت کے پروانے بنے، ان میں زیدؓ بن حارثہ کا نام بھی شامل ہے۔ نبی اکرمﷺ نے انہیں آزاد کردیا اور اپنا متبنّٰی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا۔
بنوقضاعہ کے کچھ لوگ مکے میں آئے۔ انہیں معلوم تھا کہ حارثہ کا بیٹا گم ہوگیا ہے۔ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں مکہ کے بازار میں گھوم پھر رہے تھے کہ زیدؓ کو دیکھا تو پہچان لیا۔ واپس جا کر ان کے والد کو بتایا تو وہ فوراً اپنے بھائی کو ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ نبی اکرمﷺ سے ملاقات کی اور اپنا مدعا بیان کیا تو آپﷺ نے ان دونوں بھائیوں کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور فرمایا: ''میں تم سے کوئی قیمت وصول نہیں کروں گا۔ زیدؓ کو بلاتا ہوں، جس طرح وہ کہے گا، اس کے مطابق فیصلہ کر لیں گے‘‘۔ حضرت زیدؓ کو بلایا گیا اور جب معاملہ ان کے سامنے آیا تو انہوں نے کہا: ''میں اس گھر اور اس شخص کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا‘‘۔
باپ اور چچا سخت مایوس ہوئے اور اپنے فرزند سے کہا:''اے زید! افسوس کی بات ہے کہ تم آزادی پر غلامی کو اور اپنے اہل وعیال پر غیروں کو ترجیح دے رہے ہو‘‘۔ حضرت زیدؓ نے جواب میں کہا: ''میں اس شخص کی ان خوبیوں کو خوب جانتا ہوں، جو بے مثل ہیں۔ میں اس پر کبھی بھی کسی اور کو ترجیح نہیں دوں گا۔‘‘ یہ وہ موقع تھا جب خود آنحضورﷺ نے فرمایا تھا: ''زیدؓ! تمہارے والد اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں، اگر تم چاہو تو ان کے ساتھ چلے جاؤ‘‘۔ مگر حضرت زیدؓ نے بلاتوقف آنحضورﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ حضرت زیدؓ کے والد نے بیٹے کی جدائی میں بڑے دردناک اشعار کہے تھے۔ ان اشعار کو ایک نظر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بیٹے کی جدائی میں باپ کے دل پر کیا گزری۔ اسی سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ اگر باپ کا یہ عالم تھا تو اس کی ماں کی کیفیت کیا ہوگی۔
بَکَیْتُ عَلٰی زَیْدٍ وَلَمْ اَدْرِ مَا فُعِلَ
اَحَیٌّ فَیُرْجٰی أَمْ أَتٰی دُوْنَہُ الْأَجَلْ
میں زید پر آنسو بہا رہا ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے۔ آیا وہ زندہ ہے کہ اس کی واپسی کی امید رکھی جائے یا وہ زندگی کھو بیٹھا ہے (کہ صبر کیا جائے)۔
تُذَکِّرُنِیْہِ الشَّمْسُ عِنْدَ طُلُوْعِہَا
وَتُعْرِضُ ذِکْرَاہُ اِذَاغَرْبُہَا أَفَلْ
سورج کے طلوع کے ساتھ مجھے اس کی یاد تڑپا دیتی ہے اور غروبِ آفتاب کے وقت بھی اس کی حسین یادیں پریشان کر دیتی ہیں۔
وَاِنْ ہَبَّتِ الْاَرْیاحُ ہَیَّجْنَ ذِکْرَہٗ
فَیَا طُوْلُ مَا حُزْنِیْ عَلَیْہِ، وَیَا وَجَلْ
ہوائیں جب چلتی ہیں تو وہ بھی اس کی جدائی کے زخم تازہ کردیتی ہیں۔ ہائے اس کی جدائی، کہ میرے غم اور خوف کے ماہ وایام طویل ہوتے جارہے ہیں۔
زیدؓ بن حارثہ کو نبی پاکﷺ نے آزاد کرکے متبنّٰی بنایا تو انہیں اپنے ساتھ خانہ کعبہ میں لائے اور باقاعدہ اعلان کیا۔ اس کے بعد انہیں زید بن محمد کہا جانے لگا۔ جب مدینہ منورہ میں سورۂ احزاب (آیات4تا5) میں منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹا بنانے کی ممانعت آئی تو پھر سے انھیں زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ حضورﷺنے حضرت زیدؓ کو اتنا اعلیٰ مقام عطا فرمایا تھا کہ صحابہ کرام ان پر رشک کرتے تھے۔ آنحضورﷺ زیدؓ ہی نہیں ان کے بچوں سے بھی بہت زیادہ پیار کیا کرتے تھے۔ زیدؓ اور ان کا بیٹا اسامہؓ محبوبانِ رسول کہلاتے تھے۔ حضرت زیدؓ کے ایک نوخیز پوتے محمد بن اسامہ کو صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک بار حرمِ مکی میں دیکھا تو وہ انہیں بہت ہی بھلا لگا۔پوچھا: ''یہ پُرکشش نوجوان کون ہے؟‘‘ تو بتایا گیا کہ زیدؓ بن حارثہ کا پوتا محمد بن اسامہ ہے۔ جلیل القدر صحابیِ رسول ابن عمرؓ رشک بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمانے لگے: اگر رسولِ خداﷺ اسے دیکھتے تو اس کے باپ اور دادا کی طرح اسے بھی اپنا محبوب قرار دیتے۔
غلاموں سے حسنِ سلوک کی اِن مثالوں کی روشنی میں ہر مسلمان کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ گھریلو ملازمین، زیردستوں اور ماتحت عاملین کے ساتھ درشتی، سختی اور ناروا ڈانٹ ڈپٹ کسی طرح کسی مسلمان کے شایانِ شان نہیں۔ جسے اللہ نے بڑا مقام دیا ہے، اُس کا دِل بھی بڑا ہونا چاہیے اور اپنے آقاﷺ کے نقشِ پا پر چلنے کی ہر دَم کوشش کرنی چاہیے۔ ماہِ رمضان میں تو اس کا خصوصی اہتمام ایمان کا تقاضا ہے۔