اتوار کو جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا‘ اس کی بازگشت اب تک سنائی دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے جشن منایا جا رہا ہے جبکہ باقی جماعتیں اعتراض کر رہی ہیں کہ اگر حکومت ہی باقی نہ رہی تو جشن کیسا؟ شنید ہے کہ پلان یہ تھا کہ تحریک انصاف کی شکل میں میدان میں ابھرنے والی تیسری قوت کا اس طرح شیرازہ بکھیرا جائے کہ یہ ایک برائے نام سی پارٹی بن کر رہ جائے۔ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے چند دنوں بعد عمران خان اور ان کے وفادار ساتھیوں کو مختلف مقدمات میں پھنسا کر طویل مدت تک جیلوں میں بند رکھا جانا تھا اور سب سے پہلے نیب کے پر اس طرح کترنا تھے کہ یہ کسی سہارے کے بغیر اپنی جگہ سے حرکت بھی نہ کر سکے۔ دوسرے اداروں کو بھی اپنے مکمل تابع کرنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا جانا تھا اور الیکٹرانک ووٹنگ اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا جو حق دیا گیا تھا‘ ان فیصلوں کو ریورس کرنا تھا۔ یہ تو تھی 2023ء کے الیکشن تک کی پلاننگ۔ سب سے خطرناک پلان 2023ء کے الیکشن کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے بعد شروع ہونا تھا۔ سادہ سی بات ہے‘ جن کے سہاروں سے حکومت بنائی جا رہی تھی‘ کیا ان کے کوئی مطالبات نہیں ہوں گے؟ نہ صرف ملک کی خارجہ پالیسی بلکہ معیشت کو بھی جس طرح گروی رکھنے کا منصوبہ تھا‘ وہ کوئی بھی ذی شعور بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ افسر شاہی کی جو فہرستیں ان چند پارٹیوں نے مرتب کی ہوئی تھیں‘ اگر یہ کسی وقت شائع ہو گئیں تو پتا چل جائے گا کہ کس طرح انہوں نے ملک کی شہ رگ کو اپنے انگوٹھوں تلے دبا کر رکھنا تھا۔ کس قدر افسوسناک امر ہے کہ جو شخص ملک کی سکیورٹی فورسز پر کھلم کھلا حملے کر رہا ہے‘ اس کا بھائی اس وقت اپوزیشن کی صفوں میں موجود ''ملک کو درست ڈگر پر گامزن کرنے کے مشن‘‘ میں مصروفِ عمل ہے۔ ایسے افراد کا مشن کیا ہو سکتا ہے‘ یہ ڈھکا چھپا نہیں۔ صوبہ سندھ میں پچھلی چار دہائیوں سے دو ہی جماعتوں نے حکومت کی ہے اور وہاں جتنا بھی بگاڑ ہے‘ انہی دو پارٹیوں کی لوٹ کھسوٹ کا نتیجہ ہے، آج وہ دونوں پارٹیاں ایک ہی فورم تلے جمع ہو کر سندھ کی ترقی کے لیے کام کرنے کے دعوے کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک انہوں نے ٹھیک کرنا ہے تو خراب کس نے کیا تھا؟
قدرت نے ان کی یہ تمام پلاننگ ناکام بنا کر رکھ دی ہے۔ ایک غیر ملکی عہدیدار اس وقت بھی نئی دہلی میں بیٹھ کر اپنے مہروں کو مانیٹر کرنے کے علاوہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ جو لوگ اس غیر ملکی سازش کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں‘ انہیں وہ پریس ٹاک دیکھ لینی چاہیے کہ جب اس سے سوال کیا گیا کہ وزیراعظم پاکستان نے آپ پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی حکومت کے خلاف سازش کر رہے ہیں تو نہ صرف یہ کہ اس الزام کی تردید نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر کہ ''پاکستان کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں‘‘ اس سازش کے حقیقی ہونے پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کون کون اس میں آلہ کار بنتا ہے۔ پاکستان‘ جس نے انہیں عزت‘ رتبہ اور دنیا کی ہر آسائش مہیا کر رکھی ہے‘ جس کی عزت اور وقار کے تحفظ کی انہوں نے قسم کھائی ہوئی ہے‘ انہیں اس کا مفاد عزیز ہے یا اپنا ذاتی و سیاسی مفاد؟ بات الزامات کی نہیں بلکہ یہ وہ حقیقت ہے جو نجانے کتنی مرتبہ ملک کے ہر ٹی وی چینل پر کتنی بار دہرائی اور بتائی جا چکی ہے۔ اگر قارئین کو یاد نہیں رہا تو ان سب کو ہم یاد دلائے دیتے ہیں کہ جولائی1996ء کی ایک دوپہر جنوبی ایشیا اور سینٹرل ایشیا کے لیے ایک غیر ملکی اسسٹنٹ سیکرٹری خاتون میاں نواز شریف سے ملاقات اور دوپہر کے کھانے کیلئے ان کی کشمیر پوائنٹ پر واقع رہائش گاہ پر پہنچتی ہے جہاں تین گھنٹے تک نواز شریف اور ان کے تین ساتھیوں سے اس کی میٹنگ جاری رہتی ہے۔ جیسے ہی وہ واپس جانے کیلئے گیراج میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھتی ہے تو میاں صاحب نے اپنے ساتھ کھڑے ''ساتھی‘‘ سے کہتے ہیں ''بس ہن تِن مہینیاں دی گل اے‘‘ (بس اب تین مہینے کی بات ہے)۔ اس سے قبل دورانِ میٹنگ مری میں ہی اس سیکرٹری نے صدر فاروق لغاری سے بات کرنے کے بعد انہیں اور میاں صاحب کو ہدایات کی کہ آپ نے آپس میں رابطہ رکھنا ہے۔
اس کے بعد میاں صاحب نے ملک کے پانچ معروف صحافیوں کوکھانے پر مدعو کیا اور انہیں بتایا کہ ہم دوبارہ حکومت میں آنے والے ہیں‘ آپ لوگوں کو اس لیے زحمت دی ہے کہ آپ سب وعدہ کریں کہ ہماری حکومت کے پہلے 100 دن تک آپ ہماری حکومت کی کسی قسم کی مخالفت نہیں کریں گے۔ (میری اطلاعات یہ ہیں کہ غیر ملکی عہدیدار ہی کی جانب سے ان کے نام دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آپ ان سے رابطہ کرکے اپنی حکومت کی بہتری کیلئے انہیں اعتماد میں لیں) مذکورہ سبھی صحافی اپنے پروگرامز اور ٹاک شوز میں متعدد بار یہ قصہ سنا چکے ہیں کہ جب میاں صاحب نے انہیں کھانے پر مدعو کیا تو اس وقت نہ صرف یہ کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف کوئی ایسی چارج شیٹ نہیں تھی کہ وہ رخصت ہو بلکہ مسلم لیگ کے برسر اقتدار آنے کا بھی کوئی چانس نہیں تھا۔ آج کوئی لاکھ عمران خان کو سلیکٹڈ کہے‘ کم از کم وہ کسی دوسرے ملک کا سلیکٹڈ تو نہیں۔ اگر اس وقت کے حالات کو دیکھا جائے تو محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے کے بعد دسمبر 1998ء میں انتخابات ہونا تھے، مگر 1996ء میں‘ اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے دو سال قبل ہی کس کے کہنے پر اور کیسے کہہ دیا گیا تھا کہ تین ماہ بعد ملک کی حکومت ہمارے پاس آنے والی ہے؟ حیران کن طور پر اس ملاقات کے کچھ ہی ہفتوں بعد وزیراعظم بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کا کراچی کلفٹن میں قتل ہوتا ہے اور اس کے بعد حالات ایسے خراب ہوتے ہیں کہ صدر فاروق لغاری نومبر میں اسمبلیوں کو گھر بھیج دیتے ہیں۔ آج یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ صدر فاروق لغاری کے اپنی جماعت کی لیڈر اور وزیراعظم بینظیر بھٹو سے تعلقات ایک مخصوص ملاقات کے بعد ہی کشیدہ ہونا شروع ہوئے تھے۔ اس وقت کی ایک معروف اخباری شخصیت میاں نواز شریف اور فاروق لغاری کے مابین نامہ بر کے فرائض سرانجام دے رہی تھی حالانکہ اس سے قبل میاں صاحب نے لغاری صاحب کے رضی فارم پر حملہ کر کے علاقے میں ان کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچایا تھا مگر پھر نومبر 1996ء کا وہ دن بھی طلوع ہوا جب بینظیر حکومت کو گھر بھیج دیا گیا اور چند ماہ بعد میاں صاحب دو تہائی اکثریت کے ساتھ مسندِ اقتدار پہ براجمان تھے۔
2008ء کے انتخابات کیسے ہوئے‘ اس کی کہانی چودھری شجاعت حسین اپنی کتاب اور پریس کانفرنسز میں بیان کر چکے ہیں۔ ایک غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار نے ان کے گھر میں بیٹھ کر ان سے کہا تھا ''اگر قاف لیگ جیت گئی تو بھی ہم اس کامیابی کو تسلیم نہیںکریں گے‘‘۔ یہ براہ راست اور کھلی دھمکی دی تھی۔ 2013ء کے انتخابات میں ایک انٹرنیشنل ٹرائیکا نے عمران خان کی جیت کو شکست میں تبدیل کیا۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں ''شاکا‘‘ نے جو کردار ادا کیا‘ وہ آسانی سے فراموش نہیں کیا جا سکتا۔