کچھ الفاظ اپنی مثال آپ ہوتے ہیں جن کی نہ تو کوئی تشریح کی جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی مطلب ان سے انصاف کر سکتا ہے۔ اور اگر الفاظ کسی دوست کے منہ سے نکلے ہوں تو صورتحال مزید سنگین ہو جاتی ہے۔ قصے کہانیوں، ڈراموں اور فلموں میں ہیرو کا کردار کچھ ایسا رکھا جاتا ہے کہ وہ اچھے برے فیصلے اور چھوٹی بڑی غلطیاں کرنے کے باوجود آخر تک ہیرو رہتا ہے‘ لیکن سیاست میں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بننے میں دیر نہیں لگتی۔
عمران خان وزیر اعظم بننے اور سیاست میں آنے سے پہلے بھی ہیرو تھے۔ کرکٹ نے انہیں پاکستان کیا دنیا بھر میں شہرت دلائی۔ وہ اکثر اپنی تقریروں میں بھی اس بات کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کے پاس عزت، دولت، شہرت اور اللہ کا دیا سب کچھ تھا‘ کرکٹ کو خیرباد کہہ کر انہوں نے فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھایا اور شوکت خانم ہسپتال تعمیر کیا۔ پھر یہ غریب عوام کا درد تھا جو انہیں سیاست کے خارزار میں لے آیا۔ ان کی اہلیہ بھی اپنے انٹرویو میں اس بات کا ذکر کر چکی ہیں کہ انسانیت کا درد کس قدر عمران خان کے دل میں موجزن ہے۔ خاتون اول اپنی پردہ داری کے باعث بہت کم منظر عام پر رہی ہیں؛ تاہم فلاحی خدمت کا جذبہ انہیں بھی بعض اوقات کھینچ کر عوام میں لے جاتا رہا ہے۔ ان عوامی دوروں میں ان کی انتہائی قریبی دوست ان کے ساتھ ساتھ ہوتی تھیں‘ جو اب کچھ الزامات کی زد میں آ رہی ہیں۔
عمران خان کے سیاسی سفر میں بہت سے لوگ ان کے ساتھ رہے تو کچھ بیچ سفر میں چھوڑ گئے۔ آج کل بھی کچھ دیرینہ ساتھی رفاقت چھوڑ رہے ہیں۔ ایسے ساتھیوں کی بات کریں تو ان میں سے ایک اکبر ایس بابر ہیں جو فارن فنڈنگ کا مقدمہ لے کر الیکشن کمیشن گئے۔ یہ مقدمہ تقریباً سات سال سے چل رہا ہے اور اس کیس کے فیصلے کی اب تک پوری قوم منتظر ہے۔ اکبر ایس بابر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ پارٹی کے نام پر بیرون ملک سے اکٹھا کیا جانے والا پیسہ نہ صرف ذاتی بینک اکائونٹس میں ڈالا گیا بلکہ خورد برد کے ذریعے رقم اپنے ذاتی استعمال میں بھی لائی گئی۔
حالیہ دنوں میں پنجاب کے سابق گورنر چودھری سرور نے اتوار کے روز ایک بھرپور جذباتی پریس کانفرنس کی اور ان کی زبان پر بھی کرپشن کی کہانی تھی۔ انہوں نے پنجاب میں سردار عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ لگائے جانے کو عالمی سازش قرار دیا اور اپنے سینے میں دفن راز افشا کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ چودھری سرور صاحب کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہر تین مہینے بعد آئی جی، چیف سیکرٹری بدلا جاتا رہا، ملازمتیں بکتی رہیں۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ پیسے دے کر اے سی اور ڈی سی لگ رہے ہوں۔
کہتے ہیں دوست کو اپنے حال سے اتنا واقف کرو کہ وہ تمہارا دشمن بن جائے تو نقصان نہ پہنچا سکے۔ تحریک انصاف کے سرکردہ رہنما اور عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھی اور اپوزیشن کی طرف سے عرف عام میں ''اے ٹی ایم‘‘ کہلوائے جانے والے پنجاب کے سابق سینئر وزیر عبدالعلیم خان بھی اب کپتان کی دوستی چھوڑ کر مخاصمت پر اتر آئے ہیں۔ پیر کے روز ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں انہوں نے عمران خان سے سوال کیا: اگر آپ نے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا تھا تو انہیں نیب کے پاس بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ علیم خان صاحب کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا رکن بننے کے فوری بعد نیب نے انہیں چار بار بلایا۔ اس بات کا الزام وہ عمران خان صاحب پر لگاتے ہیں۔
انہوں نے عمران خان کو اپنی کرپشن سامنے لانے کا چیلنج دیا اور یہ بھی کہا کہ اگر وہ جھوٹے ثابت ہوئے تو خود کو گولی مار لیں گے۔ علیم خان نے بھی وہی الزام دہرائے جو مریم نواز اور چودھری سرور نے لگائے لیکن ان سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر بات کی۔ علیم خان کے مطابق پنجاب میں تین تین کروڑ میں ڈی سی لگتے تھے۔ یہاں کمشنر اور ایس پی لگانے کے ریٹ الگ تھے۔ انہوں نے عمران خان سے براہ راست سوال بھی پوچھا کہ کیا آپ کو یہ سب نہیں پتا تھا، کیا ایجنسیاں آپ کو یہ رپورٹس نہیں دے رہی تھیں؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ یہ پیسے کہاں جاتے تھے؟ قوم کو کیوں نہیں بتایا جا رہا۔ پنجاب میں جو چار بیوروکریٹ رہے ہیں ان کو پکڑیں گے تو ساری قوم کو سچ پتا چل جائے گا اور سارے کرتوت سامنے آ جائیں گے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم کی ایک قریبی شخصیت نے بہت رشوت لی۔ وہ شخصیت ٹھیکوں، ٹرانسفرز اور پوسٹنگ میں موجود رہی۔ اس شخصیت کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان چھوڑ کر دبئی جا چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق ان کے شوہر پہلے ہی ملک چھوڑ کر باہر جا چکے ہیں۔
علیم خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ انہوں نے عثمان بزدار کے بارے میں جو پیغامات عمران خان کو بھیجے اور ان کے جو جواب موصول ہوئے سب ان کے پاس محفوظ ہیں اور اس کو وہ قوم کے سامنے لائیں گے۔ اپنے ساتھ جو کچھ ہوا‘ علیم خان صاحب نے وہ کہانی تو سنائی ہی مگر ساتھ ہی عمران خان کے ایک اور پرانے دوست جہانگیر خان ترین کے حق میں بھی آواز بلند کی۔ انہوں نے عمران خان سے شکوہ کیا کہ آپ نے جہانگیر ترین کی بیٹیوں کے خلاف پرچے کرا دئیے۔ وہ جہانگیر ترین جو دن رات آپ کے لیے محنت کرتا تھا۔ مروت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ علیم خان نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور کچھ خاص مروت سے کام نہیں لیا۔ اب کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اگلا دھماکا جہانگیر ترین کرنے جا رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کے منحرف رکن راجا ریاض کہتے ہیں: جہانگیر ترین جلد لندن سے پاکستان واپس آ کر عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔ راجا ریاض نے علیم خان اور چودھری سرور کی جانب سے لگائے گئے کرپشن کے الزامات کو بھی درست قرار دیا۔ جہانگیر ترین عمران خان کے انتہائی قریبی حلقے میں رہ چکے ہیں۔ ان کے سینے میں ایسے بہت سے راز چھپے ہوں گے جو منظر عام پر آئیں گے تو شاید سیاست کا منظر نامہ بدل جائے۔ عمران خان اب تک اپنے سیاسی سفر میں ہیرو رہے ہیں۔ باریاں لگا کر حکمرانی کرنے والے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف جدوجہد کا نعرہ بلند کر کے وہ اقتدار میں آئے۔ اب ان کے قریب رہنے والے لوگ کرپشن کی صدائیں بلند کرتے ان سے دوری اختیار کر رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ عمران خان اب سیاست میں ہیرو سے ولن بننے جا رہے ہیں؟؟