کیسا عجیب رمضان گزر رہا ہے جس میں سیاسی سکون آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ہر رمضان آنے سے پہلے اور عید کے ایک ہفتے بعد تک یہ طے تھا کہ اس میں سیاسی ہلچل کا کوئی سوال نہیں۔ نہ دھرنے، نہ لانگ مارچ، نہ جلسے، نہ جلوس۔ سیاسی بیانات تک ٹھنڈے پڑ جایا کرتے تھے۔ سیاست دانوں کو اس ماہ میں ٹھنڈ سی پڑ جاتی تھی‘ لیکن اس رمضان کو استثنا ہے۔ اس کا آغاز ہی پرشور اور ہنگامہ خیز تھا اور ممکن ہے کوئی فیصلہ آنے سے اپنے عروج پر پہنچ جائے۔ عمران خان نے سرپرائز کا وعدہ کیا تھا‘ سو وہ آ گیا اور حزب اختلاف، باغی ارکان، اتحادیوں، قوم اور پوری دنیا کو ہکا بکا کر گیا۔ یہی نہیں بلکہ ایک قدم آگے بڑھ کر سپریم کورٹ کے سامنے بھی جا بیٹھا۔ اب دیکھیے اس سرپرائز کے ساتھ منصفین کیا سلوک کرتے ہیں۔ اسے عدالت بدر کرتے ہیں یا اسے مظلوم قرار دیتے ہیں۔ دوران سماعت منصفین کہہ چکے ہیں کہ ہمارا بنیادی نکتہ یہی ہے کہ کیا ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ ضابطوں کے مطابق اور آئینی ہے؟
لیکن بات اتنی ہی نہیں ہے۔ پنجاب اسمبلی کا معرکہ بھی زوروں پر ہے۔ اسمبلی کا اجلاس 16 اپریل تک مؤخر کیا گیا تھا لیکن ڈپٹی سپیکر دوست مزاری نے بتایا کہ مشورے کے بعد اب اجلاس 6 اپریل کو ہو گا۔ اس اچانک تبدیلی کی کیا وجہ ہے؟ کیا ایسی اہم پیش رفت ہوئی ہے؟ کیا چودھری پرویز الٰہی، جن کا پلڑا ہلکا تھا، مزید ووٹ ملانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ میرا خیال ہے یک دم ایسا نہیں ہوا بلکہ پنجاب اسمبلی میں بھی غالباً وہی سرپرائز سب کا منتظر ہے جو قومی اسمبلی میں تھا۔ مجھے تو پنجاب کے گورنر کی تبدیلی اور نئے گورنر سے اہم ملاقات اسی کا پیش خیمہ لگتی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ خواہ پرویز الٰہی تحریک انصاف کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار ہوں، تب بھی عمران خان مرکز سے فارغ ہونے کے بعد پنجاب کا صوبہ ان کے حوالے نہیں کرنا چاہیں گے۔ قاف لیگ کے پاس پنجاب حکومت آنے کا مطلب اس کی طاقت اور اثر و رسوخ میں اضافہ اور مستقبل قریب میں پی ٹی آئی کے لیے ممکنہ رکاوٹیں ہو سکتا ہے۔ اس لیے آج بدھ کے روز اجلاس ہونے یا نہ ہونے کی جو متضاد خبریں آ رہی ہیں اس کے پیچھے یہ چپقلش بھی ہو سکتی ہے۔پتا چلا ہے کہ سپیکر پنجاب اسمبلی نے ڈٹی سپیکر کے اختیارات سلب کر لیے ہیں جبکہ پی ٹی آئی نے اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کر دی ہے۔
واپس عدالتی معاملات کی طرف لوٹتے ہیں۔ اس دوران عدالت کے از خود نوٹس پر عمران خان نے لیٹر گیٹ کے معاملے کی تفتیش اور چھان بین کے لیے عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ شہباز شریف، بلاول اور مولانا فضل الرحمن نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے اجلاس پر آئی ایس پی آر سے مؤقف واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ عدالت میں از خود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ اس حوالے سے کچھ عجلت کی وجہ یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم کے فیصلے کی طرف بھی عدالت کے فیصلے کی روشنی ہی میں بڑھا جا سکے گا۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ خلاف ضابطہ یا غیر آئینی قرار دے کر اسمبلی کو اسی دن کی حالت پر لایا جائے یا اسمبلی تحلیل ہونے کو درست قرار دے کر انتخابات کی طرف بڑھا جائے، یہ تو بہرحال طے ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا دور حکومت اپنے اختتام کو پہنچ چکا۔ فیصلہ اگر یہ آتا ہے کہ عدالت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں مداخلت نہیں کر سکتی، یا عدالت اس کے خلاف ضابطہ اور پروسیجرل پروسیس نامکمل ہونے کی نشان دہی کرتی ہے مگر اسمبلی تحلیل ہونے کو برقرار رکھتی ہے تو ہر آنے والی حکومت کی طرف سے آئندہ اسی قسم کی من مانی رولنگز کا دروازہ نہیں کھل جائے گا؟ اسی طرح اگر وزیر اعظم کی طرف سے غیر ملکی سازش کا الزام، نیشنل سکیورٹی کونسل کا اعلامیہ، روسی وزارت خارجہ کا بیان ایک طرف رکھ کر اسمبلی بحال کی جاتی ہے تو کیا آئندہ پیسے کے بل پر غیر ملکی طاقتوں کا اپنی مرضی کی حکومت بنوانے کی راہ ہموار نہیں ہو جائے گی؟ یہ اہم سوالات ہیں اور ان کا جواب عدالت کے فیصلے کی روشنی میں طے ہو گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ ایک ریفرنس تحریک انصاف کی طرف سے پہلے ہی عدالت میں ہے جس میں ان ارکان کو تا عمر نا اہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو پارٹی پالیسی کے خلاف اسمبلی میں ووٹ دیں یا اپوزیشن کے ساتھ مل جائیں۔ اب موجودہ صورت حال میں ان ارکان کا مستقبل کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ یہ تمام ارکان کسی نہ کسی لالچ، عہدوں یا نشستوں کے وعدوں اور یقین دہانیوں کے بعد اپوزیشن کے ساتھ ملے تھے‘ تو کیا گھوڑوں کی خرید و فروخت کا دروازہ بند ہو سکے گا؟ میرے خیال میں شاید کبھی نہیں۔
یہ بھی تقدیر کی عجیب ستم ظریفی ہے کہ جو لوگ اسمبلیاں توڑ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے، مثلاً مولانا فضل الرحمن‘ اب وہی اسمبلیاں ٹوٹنے پر خوش نہیں ہیں؛ تاہم انہوں نے آئندہ انتخابات میں اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے جس سے نظر آتا ہے کہ وہ اس ان ہونی کے باوجود جلد انتخابات کے مخالف نہیں ہیں۔ پیپلز پارٹی فوری انتخابات کے حق میں نہیں تھی اور یہی صورت حال مسلم لیگ نون کی بھی ہے جو فوری طور پر انتخابات کو اپنے لیے بہتر نہیں سمجھ رہی۔ جماعت اسلامی بھی ابھی گومگو کی کیفیت میں ہے‘ اور کھل کر بات نہیں کر رہی۔
میرا تجزیہ یہ ہے کہ عام آدمی میں ایک لہر پیدا ہوئی ہے جس میں پی ٹی آئی کو مظلوم دیکھا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے خاموش کارکن اور حامی بھی اس کے حق میں بولنے لگے ہیں اور اسی باعث پی ٹی آئی کو، جو کمر توڑ مہنگائی میں اپنے ووٹروں کا سامنا نہیں کر پا رہی تھی، ایک توقع پیدا ہو چلی ہے کہ وہ انتخابات میں جیت سکتی ہے۔ مجھے توقع نہیں ہے کہ اگلے انتخابات میں کوئی بھی جماعت غالب اکثریت لے پائے اور اتحادی اور آزاد ارکان اسمبلی کے بغیر حکومت بنا سکے۔ ایک مخلوط اور چند نشستوں کی اکثریت والی معلق پارلیمنٹ اسی قسم کی ہو گی جیسی ابھی ختم ہوئی ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ عمران خان اپنے سیاسی دور کا عروج دیکھ چکے ہیں اور اب وقت کے متعدد عناصر ان کے حق میں نہیں ہیں‘ لہٰذا اپنی موجودہ مقبولیت کی لہر کے باوجود وہ اتنی نشستیں حاصل نہیں کر پائیں گے جتنی 2018 یا 2013 میں حاصل کر چکے ہیں۔ اگر یہ تجزیہ درست ہے، جس کے صحیح اور غلط ہونے کا صرف اندازہ کیا جا سکتا ہے، اور اصل فیصلہ قدرت کے ہاتھ ہی میں ہے، تو عمران خان کی مرکز میں پہلی اور آخری حکومت اپنے اختتام کو پہنچی اور اب کیا کھویا، کیا پایا کے تجزیے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ انتظار ختم ہوا کہ یہ حکومت اپنی مدت پوری کر لے تو اس پر بات کرتے ہیں۔ منیر نیازی نے کہا تھا:
کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہوا
شباب ختم ہوا، اک عذاب ختم ہوا
خدا کرے کہ عمران خان اور ملک خداداد کے تمام عذاب ختم ہوں لیکن یہ تو نظر آ رہا ہے کہ عمران خان کی کتابِ عمر کا ایک اور باب ختم ہوا۔