پاکستان اس وقت شدید سیاسی بحران سے گزر رہا ہے اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں جو اجلاس فرنیچر ٹوٹنے پر 16 اپریل تک ملتوی کیا گیا تھا‘ ڈپٹی سپیکر نے وہ 6 اپریل کو طلب کیا جس پر تحریک انصاف اپنے ہی ڈپٹی سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔ یہ معاملات کیسے حل ہوں گے‘ اس بارے میں سپریم کورٹ ہی بہتر رہنمائی کر سکتی ہے۔ اب تک 1993ء میں اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد انہیں دوبارہ بحال کیا گیا تھا مگر بحالی کے باوجود حکومت عدم استحکام کا شکار رہی اور اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گئی۔ تحریک انصاف پہلی سیاسی جماعت نہیں ہے جس پہ آئین شکنی کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے یہ الزام پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان پر لگایا جاتا رہا ہے۔ مبینہ طور پر نواز شریف نے صدرِ پاکستان غلام اسحاق خان کو اسمبلیاں تحلیل کرنے پر آمادہ کیا تھا جس کے نتیجے میں انہوں نے 5 اگست 1990ء کو اسمبلیاں توڑ کر بینظیر حکومت کو گھر بھیجا تھا۔اس پر نواز شریف اور ان کی پارٹی نے خوب جشن منایا تھا۔ اسی طرح مبینہ طور پر بینظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت گرانے کے لیے غلام اسحاق خان کو استعمال کیا اور انہوں نے 18 اپریل 1993ء کو اسمبلیاں توڑ دیں۔ نواز شریف کی حکومت ختم ہوئی تو بینظیر بھٹو اور ان کی پارٹی نے جشن منایا تھا۔ 3 اپریل 2022ء کو وزیراعظم عمران خان نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس بھیجی‘جس پر صدرِ مملکت نے اسمبلیاں توڑ دیں۔ فرق اتنا ہے کہ اس مرتبہ جشن منانے والوں میں اپوزیشن کے بجائے حکومت پیش پیش ہے۔
گیلپ پاکستان کا حالیہ سروے پی ٹی آئی کے حق میں آیا ہے اور آج یہ جماعت اس قدر پاپولر ہو چکی ہے کہ اگر فوراً الیکشن کروا دیے جائیں تو میرے خیال میں سب سے زیادہ ووٹ اسی جماعت کی جھولی میں گریں گے۔ کہا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن ملک پاکستان میں شاید جمہوریت سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ جمہوریت برداشت اور توازن کا عملی مظاہرہ ہوتی ہے لیکن یہاں یہ عالم ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کے الزامات لگا رہی ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اگر سب غدار ہیں تو پھر عوام کا مسیحا کون ہے؟ ان کے دکھوں کا مداوا کس نے کرنا ہے؟ غربت‘ بیروزگار ی اور مہنگائی جیسے مسائل کس نے حل کرنے ہیں۔
اس وقت مہنگائی تقریباً 13فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ڈالر 186 روپے سے تجاوز کر چکا ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اگلی حکومت بننے سے پہلے یہ 200 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ 2018ء میں نگران حکومت کے دور میں ڈالر کے ریٹ میں تقریباً 25 روپے اضافہ ہوا تھا جس کی ذمہ داری نہ تو مسلم لیگ نون نے قبول کی اور نہ ہی تحریک انصاف نے اس کا بوجھ اٹھایا۔ خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ادھورے مطالبات پر عمل درآمد کے لیے نگران حکومت بنائی جا سکتی ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کا بڑا مطالبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہے جو نگران حکومت سے کرایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر مزید کم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے یعنی ڈالر کی قیمت میں مزید اضافے کے قوی خدشات ہیں۔ یہ کڑوا گھونٹ بھی عوام کو شاید نگران حکومت کے ہاتھوں ہی پینا پڑے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ نگران سیٹ اَپ تو قیمتیں بڑھا کر گھر چلا جائے گا لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے گا؟ ان کے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ میں نے پچھلے کالموں میں پاکستان میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ موجودہ صورتحال میں پاکستانی معیشت کا گراف سری لنکا کے آٹھ ماہ قبل کے معاشی گراف سے مماثلت رکھتا نظر آتا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی معیشت کے غیر مستحکم پر ہونے کی تصدیق شہباز شریف اور خواجہ آصف بھی کر چکے ہیں۔ ان سے پہلے تحریک انصاف کی حکومت کا حصہ رہنے والے وزیرخزانہ شبر زیدی اور شوکت ترین صاحب بھی معیشت کو تکنیکی طور پر دیوالیہ قرار دے چکے ہیں۔ یہ دعوے بلاوجہ نہیں ہیں۔ ایک طرف معاشی گراف خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے اور دوسری طرف ملک میں کوئی حکومت ہی نہیں۔ سیاسی اونٹ کو جلد کسی کروٹ بیٹھنا چاہیے تا کہ موقع پرست اور مافیاز اس صورتحال سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکیں اور ملکی معیشت ناقابل تلافی نقصان سے بچ سکے۔
معاشی حالات کے حوالے سے جب میں نے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ڈالر کی موجودہ قیمت تقریباً 15 روپے زیادہ ہے۔ برآمدات بڑھ رہی ہیں اور روشن ڈیجیٹل اکائونٹس کے ذریعے تین بلین سے زیادہ ڈالرز پاکستان آ چکے ہیں۔ متحدہ عرب امارات نے 2 ارب ڈالرز کے قرضوں میں توسیع دے دی ہے۔ عالمی بینکوں کا پاکستانی معیشت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ ان حالات میں ڈالر کو تقریباً 170 روپے تک برقرار رہنا چاہیے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک میں پیدا ہونے والی غیر یقینی سیاسی صورتحال کے باعث کاروباری حضرات نے ہنڈی کے ذریعے ڈالرز بیرونِ ملک منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے ایکسپورٹرز کو بہتر سہولتیں دے رکھی تھیں‘ بجلی کم ریٹ پر دی جارہی تھی جس کے باعث ان کے ریٹ عالمی مارکیٹ کے برابر چل رہے تھے۔مسلم لیگ نون کی پالیسی ایکسپورٹرز کے حق میں نہیں رہی۔ کاروباری طبقے کو خدشہ ہے کہ اگر مرکز میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنتی ہے تو ایکسپورٹرز کو ملنے والی رعایات ختم ہو جائیں گی؛ البتہ انہوں نے بینکوں کی جانب سے ڈالر پر سٹہ کھیلنے کے امکانات کو رد کیا ہے۔ اس وقت سٹیٹ بینک کی بہتر پالیسی کی بدولت بینک ڈالر کی خریدوفروخت سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں ملوث دکھائی نہیں دیتے‘ جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔ ان کے مطابق جب ایک دن میں ڈالر کی قیمت تین چار مرتبہ بڑھے یا کم ہو تو اس میں بینکوں کے ملوث ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ موجودہ صورتحال اس کے برعکس ہے۔ حکومت کی سخت پالیسیوں کی وجہ سے اس وقت منی ایکسچینجرز کے پاس کسٹمرز نہیں ہیں۔ بیرونِ ملک ٹریول کرنے والے، تعلیم اور علاج جیسے معاملات کیلئے کسٹمرز آتے ہیں لیکن ان کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ ہنڈی کے کاروبار کو منی ایکسچینجرز سے جوڑنا غلط ہے۔ پراچہ صاحب کی رائے محترم ہے لیکن ہنڈی کے معاملات میں منی ایکسچینجرز کو مکمل طور پر بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ماضی کے سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جن میں منی ایکسچینجرز ہنڈی اور منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے۔ اس وقت برآمدات تو بڑھ رہی ہیں لیکن تجارتی خسارہ 35 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے جو کہ طے کردہ ہدف‘ 28 ارب ڈالر سے‘ 7 ارب ڈالر زیادہ ہے۔ ایف بی آر مارچ کے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز سے متجاوز دکھائی دے رہا ہے۔ درآمدات کم کرنے کیلئے کوئی حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس طرح کے سینکڑوں مسائل ابھی تک ہوا میں معلق ہیں جنہوں نے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو مزید سرمایہ کاری سے روک دیا ہے۔ملکی سٹیک ہولڈرز سے گزارش ہے کہ باہمی اختلاف ختم کر کے قومی مفاد کی خاطر مل بیٹھیں تا کہ معاشی اور سیاسی بحران پر بروقت قابو پایا جا سکے۔