تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     08-04-2022

آگے راستہ بند ہے!

آپ نے یقینا پچھلے کچھ عرصے میں پاپولزم کی اصطلاح سنی ہوگی۔ سیاسیات کی یہ اصطلاح سیاست کی ایک خاص قسم کے بارے میں استعمال کی جاتی ہے جس میں کوئی سیاستدان عوام کو اپنا گرویدہ بنانے کیلئے ایسے مسائل اٹھاتا ہے جو بظاہر تو اصلی ہوتے ہیں لیکن گہرائی میں جاکر دیکھیں تو عملی زندگی میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر یورپ میں مسلمان خواتین کے حجاب کا معاملہ دیکھ لیں۔ وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور ان میں سے جو خواتین حجاب لیتی ہیں وہ اس اقلیت میں بھی اقلیت ہیں لیکن یورپ کے انتہا پسند سیاستدانوں نے اس کو اتنا اہم بنا دیا کہ پورا یورپی معاشرہ ہی حجاب کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھنے لگا۔ اسی طرح بھارت میں دیکھ لیں کہ مودی حکومت کی مسلم مخالف پالیسیوں کے اثرات اعلیٰ عدالتوں تک جا پہنچے ہیں اور وہ بھی تعلیمی اداروں میں حجاب کے خلاف فیصلے دے رہی ہیں‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان بھارت کی آبادی کا صرف 15 فیصد ہیں اور پسماندہ ترین لوگوں میں ان کا شمار ہے لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی پچاسی فیصد لوگوں کو اس سے ڈرا کر ووٹ کھرے کرتی ہے۔ پاپولزم کے راستے کی اگلی منزل فسطائیت ہے۔ اس طرزعمل کا مطلب ہے کہ صرف میں ٹھیک ہوں اور جو مجھے ٹھیک نہیں سمجھتا وہ غلط ہے لہٰذا اس کے ساتھ ہر طرح کا سلوک جائز ہے۔ جرمنی میں ہٹلر کا یہی معاملہ تھا کہ اس نے پہلے جرمنوں کی اکثریت کو یہودیوں کی اقلیت سے ڈرا کر حکومت میں آنے کا راستہ ہموار کیا، پھر جرمن قوم کو دنیا کی اعلیٰ ترین قوم قرار دیا اور آخرکار پوری دنیا کو جنگ میں جھونک دیا۔ چونکہ بھارت کی حکمران جماعت بھی پاپولزم کے زور پر ہی آگے بڑھ رہی ہے اسی لیے عمران خان اس پر جب فسطائیت کا الزام لگاتے ہیں تو دنیا اسے غور سے سنتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ عمران خان کی سیاست میں بھی کسی حد تک پاپولزم کی جھلک نظر آتی ہے۔ انہوں نے سیاست میں آکر بہت سے ایسے کام کیے جن کے بارے میں ان سے پہلے سیاستدان سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے مخالفین پر ہر طرح کا الزام لگایا، میڈیا سے دشمنی مول لی، ملکی معیشت کے بارے میں ایسے نعرے تخلیق کیے جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ جو پہلے سے ہورہا تھا اسے مکمل غلط قرار دے کر تبدیلی کے نام پر ایک روشن مستقبل کا خواب دکھایا۔ اپنی شخصیت کو ایمانداری کا معیار بناکر دوسروں کو جھوٹا اور بے ایمان بتایا۔ کہنے کی حد تک یہ کام سارے ہی سیاستدان کرتے ہیں لیکن جس طرح عمران خان نے کیا‘ ان سے پہلے کسی نے نہیں کیا۔ اپنے آپ کو مکمل درست قرار دینے کی اس حکمت عملی نے کام دکھایا اور انہوں نے اتنے ووٹ لے لیے جو انہیں حکومت میں لے آئے۔ حکومت میں آکر انہوں نے کچھ توازن پیدا کیا۔ ریاست کی سمت تبدیل کرنے کیلئے احساس پروگرام پر توجہ دی، عام آدمی کا تعلق بینکوں سے جوڑنے کی کوشش کی، مؤثر بلدیاتی نظام کے ذریعے نچلے ترین طبقے کو ریاستی نظام میں شامل ہونے کا موقع دیا۔ ان کی اشرافیہ کے خلاف مہم نے کافی حد تک ریاست پاکستان کو عام آدمی کیلئے بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ عمران خان توازن کا دامن ہاتھ سے چھوڑ رہے ہیں۔ اپوزیشن کے طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد جس تیزی سے وہ پاپولزم کی منزلیں پھلانگتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے یہ خدشہ پیدا ہورہا ہے کہ وہ جلد ہی اس منزل پر پہنچ جائیں گے جہاں مخالفین کیلئے شدید نفرت پیدا ہوجاتی ہے اور ایسا آدمی انہیں کچل دینے سے بھی گریز نہیں کرتا۔
عمران خان کے حد سے آگے بڑھ جانے کا احساس مجھے پچھلے سال ہوا تھا جب دنیا ٹی وی کے کچھ صحافی ان سے ملنے گئے تھے۔ اس ملاقات میں انہوں نے بڑی سختی سے کہا، 'میں شہباز شریف سے ہاتھ ملانا بھی اپنی توہین سمجھتا ہوں‘۔ میں سمجھا کہ شاید یہ ایک وقتی تاثر ہے لیکن چند دن بعد انہوں نے یہ بات ایک انٹرویو میں بھی کہہ دی۔ اب یہ احساس اس لیے کچھ گہرا ہورہا ہے کہ ان کی تقریروں میں اپنے مخالفین کیلئے نفرت زیادہ نمایاں ہونے لگی ہے۔ پہلے جب وہ مولانا فضل الرحمن، شہباز شریف اور آصف علی زرداری پر بالترتیب ڈیزل، چیری بلاسم اور بیماری کی پھبتیاں کسا کرتے تھے تو ان کے چہرے پر کھیلتی ہوئی مسکراہٹ بتا رہی ہوتی تھی کہ وہ مخالفین کو تنگ کرنے کا مزا لے رہے ہیں۔ آج کل وہ اپنے مخالفین کو غدار تک بھی کہنے سے نہیں چوکتے۔ اپنے حریفوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کے چہرے پر نفرت کا ایک گہرا تاثر پیدا ہوچکا ہے جو جلسے کے شرکا کو تو نظر نہیں آتا لیکن ٹی وی کی سکرین پر بڑا واضح دکھائی دیتا ہے۔
اسی طرح ان کی حکومت کے بارے میں امریکی پیغام کا معاملہ ہے۔ اس معاملے میں ان سے اتنا اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ دنیا کا کوئی بڑے سے بڑا ملک بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے ملک کو حکومت کی تبدیلی کا حکم نہیں دے سکتا۔ یہ اصولی بات ہے اور سرکاری سطح پر پاکستان احتجاج بھی کرچکا۔ انہیں یہ حق حاصل ہے کہ اس پیغام سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کریں لیکن حدود کا بھی خیال کریں۔ آزاد خارجہ پالیسی کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ قوم کو کسی دوسرے ملک کے حوالے سے ہیجان میں مبتلا کردیا جائے۔ کسی ملک یا سفارتکار کا نام لے کر جب تقریروں پر تقریریں کی جائیں گی تو ضرورت کے وقت یہی تقریریں واپسی کے راستے بند کردیں گی۔ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر خودکشی کو ترجیح دینے کی بات کی تھی لیکن حکومت میں آتے ہی انہیں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ مخالفین نے خیال اور حقیقت کے اس فرق کو قول و فعل کا تضاد بنا کر پیش کیا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کی حکومت پر باقاعدہ نالائقی اور نااہلی کا الزام بھی لگا۔ آج وہ خارجہ پالیسی میں جس حریت پسندی کا ذکر کرتے ہیں، ان کے اپنے دور حکومت میں ہی صورتحال اس سے کافی مختلف بھی رہی ہے۔ دسمبر 2019 میں انہوں نے ایک سربراہی کانفرنس میں ملائیشیا جانا تھا لیکن ایک دوست ملک کے اصرار پر انہیں اپنا دورہ منسوخ کرنا پڑا۔ دورے کی منسوخی کو کیا نام دیا جائے؟ وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ امریکا‘ یورپ کا پاکستان کے ساتھ رویہ سفارتی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے دشمنی مول لی جائے۔ اپنی حمیت پر اصرار اچھی بات ہے لیکن تعلق کو دشمنی میں بدلنا باقاعدہ نقصان دہ ہے۔
کچھ عرصے سے عمران خان کی گفتگو میں مذہب کا حوالہ بھی اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ بے شک مذہب پاکستان کی معاشرتی زندگی کا اہم ترین جزو ہے لیکن سیاست میں اس کا استعمال بے شمار پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ ان کے مذہبی رجحانات اپنی جگہ لیکن اسلامی روایت کے بارے میں ان کا علم چند تاریخی واقعات سے واقفیت تک ہی محدود ہے، جن سے وہ کبھی درست اور کبھی غلط مطلب نکال کر اپنی سیاست کو مذہبی سند دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں یہ بھی اندازہ نہیں کہ گورنر ہاؤس لاہور کے ایک جلسے میں گلے کی خراش دور کرنے کیلئے افطاری سے پہلے پانی مانگنے کے اثرات کیا ہیں۔ ان کے چاہنے والے یہ دلیل دے سکتے ہیں وہ اسلام آباد سے آئے تھے، اس لیے سفر میں تھے اور مسافر پر روزہ فرض نہیں، لیکن ماہ رمضان میں پاکستان کی معاشرتی روایت میں افطاری سے پہلے برسرعام پانی مانگنا کیسا ہے، اس کا پتا اس ملک کا غیرمسلم شہری بھی دے سکتا ہے۔
خان صاحب فرماتے رہے ہیں کہ سیاستدان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے اورلیڈر اگلی نسل کا۔ ان کا حق ہے کہ وہ الیکشن جیتنے کیلئے اپنی حکمت عملی بروئے کار لائیں، مگر یہ نہ بھولیں کہ لیڈر الیکشن جیتے یا ہارے، معاشرے میں تضادات کو بڑھاتا نہیں، کم کرتا ہے۔ اختلاف سے فائدہ نہیں اٹھاتا، اسے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنے دعوے کے برعکس وہ جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ تضاد اور تقسیم کا راستہ ہے۔ یہ وہی راستہ ہے جو آگے جاکر بند ہوجاتا ہے اور بند راستوں کے مسافر کبھی منزل پر نہیں پہنچتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved