ریاست کا وجود سطح ِ زمین پر موجود نہیں ہے۔حب الوطنی کے اس تصور سے اب گریز لازم ہوگیاہے جو طفل تسلیوں کے تارِ عنکبوت پر مستقبل کی عمارت تعمیر کر رہا ہے۔ایسی عمارت جسے چند دہشت گرد جب چاہیں منہدم کردیں۔امید ایک دوسری چیز ہے جس کا کوئی تعلق حماقت کے ساتھ نہیں ہے۔ اقبال کی زبان میں ہمیں اب ایسی سیاسی اور فکری قیادت چاہیے جو لوگوں کوحاضرو موجود سے بے زار کرے۔ جوان کے لیے زندگی کو دشوار تر بنا دے۔ ڈیرہ اسماعیل خان جیل کا حادثہ میرے سینے میں اٹک کر رہ گیا ہے۔یہ واقعہ اور اس پر ریاستی اداروں اور اہلِ اقتدار کارد ِ عمل ذہنی پسماندگی کا ایسا مظہرہے کہ اس پر اظہارِ افسوس یقیناً جذبات کی پوری ترجمانی نہیں کرتا۔عمران خان کی وہ دیانت کس کام کی جو ان کے ذہنی ارتقا کے راستے میں دیوار کھڑی کردے۔جو پیش پا افتادہ حقائق کے لیے حجاب بن جائے؟ میرے نزدیک یہ واقعہ،جیسے ہوا،ایک نام کی ریاست میں بھی ممکن نہیں۔ایک نہتا اور بزدل کمزور شہری بھی اپنے گھر اور مال سے اس طرح دست بردار نہیں ہوتا کہ چوروں کے ہاتھ میںگھر کی کنجی دے دے۔ڈیرہ اسماعیل خان جیل سے ریاست نے جس طرح اظہارِ لاتعلقی کیا، یہ جدید تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔ میں ’حکومت‘ کے بجائے ’ریاست‘کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کر رہا ہوں۔ریاست اور حکومت کا فرق میری نظروں سے اوجھل نہیں ہے۔ معلوم نہیں کیوں جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے، مو لانا مودودی کا ایک جملہ یادداشت کے کسی گوشے سے جھانکنے لگتا ہے جو انہوں نے ایوب خان سے متعلق کہا تھا؛اس کھیت کوکوئی نہیں بچا سکتا جس کی باڑہی اُسے کھانے لگ جائے۔ دہشت گردوں کے سامنے ریاست عملاً ہتھیار پھینک چکی۔ اس زمین کا کوئی گوشہ، کوئی پہاڑ ،کوئی وادی، کوئی شہر ایسا نہیں جو ان کی دسترس سے باہر ہو۔عید کے دن جب عام دنوں کی نسبت سکیورٹی زیادہ سخت ہوتی ہے، وہ اسلام آباد کی ایک مسجد تک پہنچ گئے۔قدرت نے بچا یا یا پھر مسجد کے گارڈ نے۔ ریاست تو کہیں مو جود نہ تھی۔ کوئٹہ میں یہی ہوا۔پولیس کے نو جوانوں اور افسروں کو حسب ِ ارادہ و پروگرام نشانہ بنایا گیا اور ریاست کچھ نہ کر سکی۔ کراچی میں عید سے دو دن پہلے آٹھ بچوں کو دھماکے میںقتل کیا گیا۔ہر شہر میں مذہب کے نام پر تشدد پر ابھارنے والے ادارے قائم ہورہے ہیں۔شہر میں اربوں روپے کی زمینیں خریدی جا رہی ہیں۔ اعلانیہ تعمیراتی کام ہو رہا ہے اور کوئی نہیں پوچھتا کہ اتنے وسائل کہاں سے آرہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جانے والی لڑائی کے لیے پاکستان کو میدان ِ جنگ بنا یا جا رہا ہے جیسے پہلے امریکا اور القاعدہ کی جنگ میں پاکستان رزم گاہ بنا تھا۔اُس وقت سے ہم یہ راگ الاپ رہے ہیںکہ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے حالانکہ وہ ہمارے گھر میں لڑی جا رہی ہے۔ اب ایک اور لڑائی کا آ غاز ہو چکا اور آ دمی پھرسوال کر تا ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ یہ صرف دہشت گردی کا معاملہ نہیں۔برسات کو دیکھ لیجیے۔ایک دن کی بارش نے کراچی، لاہور ،اسلام آباداور دوسرے شہروں کی ترقی کا بھرم کھول دیا۔معلوم ہوا یہ شہر تو سیدنا مسیحؑ کے الفاظ میں سفیدی پھری قبروں کی طرح ہیں۔ اندر سے اتنے کھوکھلے،باہر سے جتنے روشن۔میرے ایک دوست شہروں میں انتظامی ذمہ داریاں ادا کر چکے۔ انہوں نے مجھے بتایاکہ برسات کی آ مد سے پہلے شہر میں خصوصی صفائی مہم چلائی جاتی تھی۔ جن نالوں میں طغیانی کا امکان ہو تا تھا، ان کے ممکنہ نقصان سے بچنے کے لیے منصوبہ بندی کی جا تی تھی۔ اس کے بعد یہ امکان بہت کم ہو تا تھا کہ برسات کوئی غیر معمولی اثر چھوڑ جائے۔ اب انتظامیہ ہے اور شہر کی ڈویلپمنٹ اتھارٹیز بھی۔ حالات لیکن یہ ہیں کہ چند بوندیں پڑ جائیں تو زمین اتنی جگہ نہیں دیتی کہ یہ قطرے سماجائیں۔ یوں وہ سطحِ زمین پر ہی تیرنے لگتے ہیں۔پھر یہ بھی اس ملک میں ہوتا ہے کہ قدرت جب کرم کرتی اور بارانِ رحمت بھیجتی ہے تو ہم پانی ذخیرہ نہیں کرتے۔ وہ سمندر کی نذر ہوجا تا ہے اور ہم سارا سال بو ند بوند کو ترستے رہتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم یا کسی ایسے منصوبے کی بات ہو تی ہے تو تیوریاں چڑھ جاتی ہیں اور لوگ مصلحتوں کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔کیا یہ کسی ’ریاست‘ میں ہوسکتا ہے؟ دہشت گردی کے علاوہ،دوسرے جرائم ہیں کہ قابو میں نہیں آرہے۔اب صرف کراچی نہیں ہر شہر میں متبادل حکومت قائم ہے۔میں اپنی گاڑی کی چوری کا قصہ لکھ چکا۔میرا کالم پڑھنے کے بعد مجھے ایک شخص نے بتا یا کہ شہر میں فلاں نام کا ایک آ دمی فلاں جگہ پہ رہتا ہے۔ آپ اس سے ملیں۔یہ بتائیں کہ گاڑی کب، کون سی اور کہاں سے چوری ہوئی ہے،وہ آپ کا معا ملہ کرادے گا۔جرائم میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور یہ معلوم ہو تا ہے کہ قانون اور انتظامیہ نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں۔ دکان دار من مانے دام وصول کرتے ہیں،کوئی ان سے سوال نہیں کر سکتا۔رمضان میں لوٹ میلہ لگا رہااور عوام مسلسل لٹتے رہے۔اس پر حکومت کااصرار ہے کہ سرکاری ملازم سات ،آٹھ ہزار روپے تنخواہ پر مہینہ گزاریں اور اگر کوئی رشوت لے تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آئے۔ سوال یہ ہے کہ جو حکومت لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کرتی، کیا اسے چوری جیسے جرم پر سزا دینے کا حق ہے؟ کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلے کے؟ وزیر اعظم بھارت کے ساتھ خوش گوار تعلقات قائم کر نا چاہتے ہیں لیکن سر حدوں کی کشیدگی کچھ اور احوال سنا رہی ہے۔ جب سر حد کے آر پار گولیاں چل رہی ہوں توان سے ماورا کوئی بیک ڈور سفارت کاری موثر نہیں ہو سکتی۔معلوم ہو تا ہے وزیراعظم ایک سفر کا آغاز کر نا چاہتے ہیں لیکن ’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب میں‘۔ میرا یہ مشاہدہ ہے کہ اس ملک میں آپ جو کام کر نا چاہیں‘ کوئی آپ سے سوال نہیں کرتا۔آپ مذہب کے نام پر تشدد پھیلائیں ،بغیر کسی علم اور ڈگری کے لوگوں کا علاج کریں،متبادل بینک قائم کریں،کسی دوسرے ملک کے باضابطہ ایجنٹ کا کردار ادا کریں،باہر سے غیر قانونی طور پرپیسہ لائیں،کسی کو تاوان کے لیے اغوا کریں، چوری کریں، زمینوں پہ قبضہ کریں، کوئی آپ سے نہیں پو چھے گا۔ایک بھرم ہے جو قائم ہے ۔کوئی دہشت گرد جب چاہتا ہے، اس بھرم کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔ بارش کی چند بوندیں،ہر قلعی کھول دیتی ہیں۔مصنوعی لوگ اور مصنوعی اقتدار۔ نواز شریف صاحب، توانائی کا بحران حل کر نا چاہتے ہیں۔ وہ قومی سلامتی پالیسی بھی تشکیل دے رہے ہیں۔لیکن زمین ہے کہ اسی طرح اپنے مدار میں گھوم رہی ہے۔سماج کے کسی طبقے اور ریاست کے کسی ادارے کے ہاں اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کی کوئی شہادت مو جود نہیں ہے۔جب ریاست ہی عملاً مو جود نہیں تو پالیسی کس لیے؟میرے نزدیک یہی حقیقت ہے۔یہ تلخ ہے لیکن اس سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں۔ رہنما، فکری ہو یا سیاسی، اس کا کام ہے کہ وہ پہلے بتائے کہ قوم کو کینسر کا مرض ہے یا نزلہ؟کینسر کے مریض کوبتا نا پڑے گا کہ اس کی بیماری کیا ہے اور اس کے علاج کے لیے کتنا وقت اور وسائل چاہئیں۔ اور ہاں! مولانا مودودی کے جملے پرغور ضرور کیا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved