راج نیتی کے کیسے کیسے راج کمار اورراج کماریاں جمہوریت کو رسوا کر کے اس طرح شاداں اور نازاں ہیں کہ سنبھالے ہی نہیں جا رہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک عوام کے درد میں بے حال ہونے والے کو دیکھ کریہ سوچ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے کہ عوام کے مسائل اور تکلیفوں کے ازالہ کے لیے ڈھیروں رہنمادن رات تو ایک کیے ہوئے ہیں ‘عوام کو اور کیا چاہئے؟ ایسے لیڈر کہاں ملتے ہیں کہ رات کو سونے جائو تو یہ سٹیج لگائے ہوتے ہیں‘صبح اٹھو تو اسی سٹیج پر موجود اپنے اوصاف اور مخالفین میں پائے جانے والی خامیوں کے بارے میںعوام کو مطلع کرتے نظر آتے ہیں۔آج کل یہ سبھی رہنماشفٹوں میں دستیاب ہیں۔ملک میں آئینی بحران ہو یا انتظامی ‘ کسی کو رتی برابر پروا نہیں۔ اپنے بیانیوں سے جو اخلاقی بحران یہ پیدا کرچکے ہیں اسے دیکھ کر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آئینی و انتظامی بحران اس بار بھی بھاری قیمت چکائے بغیر ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ قیمت کی ادائیگی ہو یا خمیازے کا بھگتان‘ان سبھی کے لیے قربانی کا بکرا ہمیشہ کی طرح عوام کو ہی بننا پڑے گا۔ یہ جمہوری چیمپئن کہیں خود دھمال ڈالتے نظر آتے ہیں تو کہیں جمہوریت کو آگے کر دیتے ہیں۔ تعجب ہے کہ عوام اس منظر نامے سے عبرت پکڑنے کے بجائے مزید سردھنتے اور دادِ عیش دیتے نظر آتے ہیں۔ یہ سبھی کچھ دیکھ کر مشہور زمانہ تین ضدیںبے اختیار یاد آ رہی ہیںیعنی بال ہٹ‘ تریا ہٹ اور راج ہٹ۔ بال ہٹ (بچے کی ضد)‘ تریا ہٹ (عورت کی ضد) اور راج ہٹ (حکمران کی ضد)‘ ہمارے ہاں سیاست اور ریاست میں یہ ساری ضدیں کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔ اکثر اربابِ اختیار بچے کی طرح ضد لگا بیٹھتے ہیں جس پر سننے اور دیکھنے والا بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ یہ کیا بچوں والی ضد لگا رکھی ہے ‘گویا اس ضد کے نتیجے میں ہونے والے طفلانہ فیصلے اور اقدامات کی قیمت بھی بہرحال عوام ہی کو چکانا پڑتی ہے۔ دوسرے نمبر پر تریا ہٹ یعنی عورت کی ضد ہے جس سے جڑے بے شمار واقعات اور مناظر ہماری ریاست اور سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست ہو یا ریاست عورت کا کردار بہرحال کلیدی اور اکثر فیصلہ کن رہا ہے۔ماضی سے لے کر دورِ حاضر تک‘ خواب سے تعبیر تک‘ خیال سے تکمیل تک‘ ذاتی خواہشات سے من مانی اور بغاوت تک‘ رائے اور مشورے سے دو ٹوک فیصلوں تک تریا ہٹ کے انگنت واقعات کوئے سیاست سے ایوانِ اقتدار تک عورت کی اہمیت ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ آج کل بھی ایک کردار ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے اور بعض سرکردہ سیاسی شخصیات اس کے دفاع میں عذر اور جواز پیش کرنے کی ڈیوٹی پر نظر آتے ہیں۔ اس پر مزید تفصیل میں جانے کے بجائے اتنا ضرور عرض کروں گا کہ ڈی پی او پاکپتن والا واقعہ ایک ٹیسٹ کیس تھا جس میں مذکورہ کردار اتنا بھاری ثابت ہوا کہ تختِ پنجاب ہلکاپڑ گیا۔ اگر اُس وقت حدود کا تعین کر دیا جاتا تو اتنی سبکی اور جگ ہنسائی نہ ہوتی اور شاید بزدار حکومت کی گورننس بھی شرمساراور میرٹ اس طرح تار تار نہ ہوتا‘ لیکن یہاں بھی ضد بھاری پڑ ی جبکہ امورِ حکومت کے دیگر اہم معاملات سے لے کرنظرانتخاب تک اس کے اثرات بجا طور پر دیکھے اورمحسوس کیے جاتے رہے ہیں۔
تیسری ضد راج ہٹ ہے جس کا تو کوئی انت ہی نہیں ۔آج کل ملک بھر میں راج ہٹ کے مناظر اور اس کے نتیجے میں چھایا ہوا جمود راج ہٹ کی اہمیت کا کھلا پتہ دے رہا ہے جبکہ اپوزیشن کے گٹھ جوڑ کو بین الضدین بھی کہا جاسکتا ہے۔ مفادات کے مارے حصولِ اقتدار کی دھن میں یہ بھی بھول چکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کو آڑے ہاتھ لینے کے ساتھ ساتھ کیسی کیسی بدزبانی اور بدکلامی کیا کرتے تھے‘لیکن شوقِ اقتدار میں کل کے گتھم گتھا آج بانہوں میں بانہیں ڈالے بغلگیر نظر آتے ہیں۔مگر ان کا یہ اتحاد اور اتفاق بھی وقتی اور عارضی لگتا ہے ‘ ان سبھی کا ماضی گواہ ہے کہ ان کا یہ گٹھ جوڑ محض اقتدار کے بٹوارے سے لے کر وسائل کی بندر بانٹ تک کے لیے ہے۔اختلاف رائے ذاتی دشمنیوںاور بند کمرے کے راز و نیاز پل بھر میں وائٹ پیپر بنتے دیر نہیں لگتی۔یہی ان کی جمہوریت کا حسن اور ان کی اخلاقیات کا خاصہ ہے۔ایوان کو اکھاڑا اور منڈی تو یہ ہر دور میں بناتے ہی چلے آئے ہیں لیکن اب تو یہ تماشا بھی بنا چکے ہیں۔
قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بحران کیا کم تھا کہ پنجاب اسمبلی کو مقفل کرکے ‘ارد گرد خار دار تار لگا کراجلاس سے فرار اختیار کیا جا رہا ہے۔ نوے کی دہائی میں عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے کے لیے سیکرٹری اسمبلی کو اغوا کرلیا گیا تھا لیکن آج تو باقاعدہ فریق بن کرنئے قائد ایوان کے انتخاب میں اس وقت تک رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے جب تک کہ حالات موافق نہیں ہو جاتے۔ اس کے لیے وہ خلافِ ضابطہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ اپنے اپنے بیانیوں میں جان ڈالنے کے لیے سبھی جان جوکھوں سے گزر رہے ہیں۔ پورے ملک پر جمود کا سماں ہے۔ ملک کے وزیراعظم سے لے کر سب سے بڑے صوبے کی وزارت اعلیٰ تک کو معمہ بنا دیا گیا ہے۔حالات کی نزاکت اور سنگینی سے بے نیاز سبھی جمہوری چیمپئنز معاملات کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر لے جانے کے لیے بڑھ چڑھ کراپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔عناد‘ بغص اور خفگی سے بھری طرزِ سیاست اور تصادم کے درمیان فاصلے خطرناک حد تک کم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ خدشہ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ سبھی رہنمااپنے مفادات اور اہداف کی بھٹی میں عوام کو جھونکنے سے بھی ہرگزگریز نہیں کریں گے۔
بدقسمتی دیکھئے کہ ہمارے ہاں قدرت نے جسے بھی گورننس کی نعمت عطا کی اُس نے اس عطا کو اپنی استادی‘ مہارت اور اہلیت سے منسوب کیا۔ گویا یہ قدرت کی عطا نہیں بلکہ خود ان کی کسی ادا کا چمتکار تھا۔برسر اقتدار آنے کے بعد یہ سبھی راج ہٹ کا شکارہو کر ایک دوسرے کے ریکارڈ یکارڈمدت میں توڑنے کی کوشش میں اپنی آنکھوں میں اچھے خاصے شہتیر لیے پھرنے کے باوجود دوسروں کی آنکھ کے تنکے کو لے کر آسمان سر پہ اُٹھا لیتے ہیں۔یہی ان کی جمہوریت ہے اور یہی ان کی جمہوریت کا حسن ہے۔مشہور فلم ''زرقا‘‘ کا شہرہ آفاق گیت'' رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ تو سبھی نے سن رکھا ہو گا لیکن مملکت خداداد میں جمہوریت کے حسن کا رقص زور و شور سے جاری تو ہے لیکن یہ جمہوری رقص گلے میں طوق اور پائوں میں بیڑیاں پہن کر کرنے والے خدا جانے کس بوتے پر نازاں اورشاداںہیں اور یہ سبھی ایسی کون سی توپ چلا چکے ہیں‘ کون سا ایسا کارنامہ ‘کون سی ایسی قومی خدمت کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں کہ غول در غول ایک بار پھر اقتدار اور وسائل پر حملہ آور ہیں۔ متحدہ اپوزیشن ہو یابرسراقتدار پارٹی‘کس کے پلے کیا ہے؟ اور ان سبھی نے عوام کے پلے چھوڑاہی کیا ہے؟ ان کے منہ کو لگا اقتدار کا چسکا چھٹتا ہی نہیں۔یہ سبھی کس منہ سے ‘کس ڈھٹائی سے اور کس دیدہ دلیری سے اپنے اپنے گمراہ کن بیانیوں کے ساتھ عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ غیرتِ قومی اور ملکی استحکام کو بھی دائو پہ لگا چکے ہیں۔