تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     08-04-2022

معاشی جنگ کا نیا میدان

روئے ارض پر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا ایسا زمانہ نہیں گزرا جب طاقت کی زور آزمائی نہ ہوئی ہو۔ افراد کی طرح معاشرے بھی آپس میں ٹکراتے رہتے ہیں۔ طاقت کے حصول کی جبلت انسانوں اور معاشروں میں یکساں ہے۔ کیوں نہ ہو کہ معاشرے انسانوں ہی کا تو مجموعہ ہوتے ہیں۔ ہر دور میں چند ممالک فطری علوم و فنون اور علم و ادب اور ثقافت کے حوالے سے غیر معمولی پیشرفت یقینی بناکر دوسروں سے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ عشروں اور کبھی کبھی تو صدیوں کی محنت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ مادّی ترقی کی منازل طے کرنے والے معاشرے بڑی طاقت میں تبدیل ہوتے جاتے ہیں۔ بڑی طاقتوں کے درمیان رسّہ کشی بہت کچھ تبدیل کرتی رہتی ہے۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے۔ بڑی طاقتوں کے درمیان کشمکش ویسے تو ہمیشہ ہی جاری رہتی ہے مگر کبھی کبھی اِس میں تیزی آجاتی ہے اور پھر فیصلہ کن لمحات آ جاتے ہیں۔ اس وقت دنیا بڑی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی کے حوالے سے فیصلہ کن لمحات ہی دیکھ اور بھگت رہی ہے۔ مغربی طاقتیں اپنی طاقت برقرار رکھنے کی دُھن میں بہت کچھ اُلٹنے، پلٹنے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ کورونا کی وبا اِس سلسلے کی تیزی سے بڑھانے کا وسیلہ ثابت ہوئی۔ اس ایک وبا کی آڑ میں درجنوں ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے انتہائی درجے کی مشکلات پیدا ہو گئیں۔ جو ممالک ابھر کر عالمی طاقت بن سکتے ہیں یا بننے کا سوچ سکتے ہیں‘ اُن کی راہیں مسدود ہو گئیں یا کردی گئیںمگر بُرا ہو روسی قیادت کا جس نے امریکا اور یورپ کے مزید منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ روس نے یوکرین پر لشکر کشی کرکے امریکا اور یورپ پر واضح کر دیا کہ سب کچھ ویسا نہیں چلے گا جیسا وہ چاہتے ہیں۔
آج کی دنیا میں جس قدر بھی سیاسی و معاشی اور جغرافیائی و سٹریٹیجک تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اُن کی پشت پر چین ہے۔ چین ایک انوکھی سپر پاور بننے میں کامیاب رہا ہے۔ مختلف ادوار میں جن ممالک کو بڑی طاقت بننا نصیب ہوا اُنہوں نے یہ مقام عسکری قوت کے ذریعے پایا۔ یورپ اور امریکا کی تاریخ
گواہ ہے۔ مسلمانوں نے بھی جنگ کے میدانوں میں خود کو منوایا تو دنیا نے سر جھکایا۔ اِس سے قبل ایران اور روم کی سلطنتیں بھی عسکری محاذ ہی پر کامیابی پاکر بڑی طاقتیں بنی تھیں۔ چین منفرد کیس ہے کہ جس نے کوئی بھی جنگ لڑے بغیر عالمی سیاست و معیشت کو اپنی مٹھی میں لے لیا ہے۔ امریکا اور یورپ کی اجارہ داری توڑنے میں روس بہت حد تک کامیاب رہا ہے اور یہ سب کچھ معیشت کے محاذ پر ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ کے قائدین تین عشروں سے یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور کر کچھ نہیں پارہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ چینی قیادت صرف معاشی قوت میں اضافہ کرتی جارہی ہے اور اب بھی اِسی ڈگر پر گامزن رہنے کے موڈ میں ہے۔ چین کو عسکری معاملات میں گھسیٹنے کی کوششیں اب تک ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ چند ایک سرحدی تنازعات ضرور ہیں مگر اُن میں چینی قیادت ایک خاص حد تک ہی جاتی ہے۔ کوئی باضابطہ جنگ چھیڑنے سے صاف گریز کیا جاتا رہا ہے۔ یہ بات امریکا اور یورپ سے ہضم نہیں ہو رہی۔ وہ چاہتے ہیں کہ چین کو کسی ایسے مناقشے میں الجھایا جائے جس میں معاملات عسکری زور آزمائی تک پہنچ جائیں۔ چینی قیادت چاہتی ہے کہ مختلف خطوں میں بھرپور سرمایہ کاری کے ذریعے صرف معیشت کا محاذ مضبوط رکھا جائے۔ چین نے اب تک کسی بھی ملک پر حملہ نہیں کیا اور محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل قریب میں بھی اُس کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ یہ سب کچھ امریکا اور یورپ پر بہت شاق گزر رہا ہے۔ یہ دونوں خطے اب تک صرف طاقت کے ذریعے دوسروں یعنی کمزوروں کو کچلتے آئے ہیں۔ عسکری محاذ پر متحرک رہ کر امریکا نے اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی اپنائی مگر اِس کا ضمنی منفی اثر یہ مرتب ہوا کہ اُس کی اپنی حدود میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوچکی ہے۔ امریکی معاشرہ منقسم اور منتشر ہوتا جارہا ہے۔ دوسری طرف یورپی معاشرے اگرچہ اب تک سالم اور محفوظ ہیں مگر اُن میں بھی احساسِ جرم پنپ رہا ہے۔ یورپی باشندوں کو اچھی طرح اندازہ ہے کہ امریکا کے ساتھ مل کر اُن کی حکومتوں نے پوری دنیا میں خرابیاں پیدا کی ہیں۔ اِس حوالے سے اُن کے ضمیر پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ امریکا اب بھی یورپ کو باقی دنیا سے خوفزدہ کرکے اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ شمالی افریقہ کے ممالک یورپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اُس سے تعاون چاہتے ہیں مگر یورپ ڈرا ہوا ہے۔ ایک مشکل یہ بھی تو ہے کہ مختلف ادوار میں یورپی قوتوں نے مختلف خطوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور اُن کے قدرتی وسائل پر بے جگری سے قبضہ کیا۔ یورپی قیادتوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ اچھا موقع ملا تو وہ لوگ یورپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے جنہیں استعماری پالیسیوں کے تحت تباہ کیا گیا‘ غلام بنایا گیا۔ یہ غلامی صدیوں کی تھی۔ یورپی قائدین کا خوفزدہ ہونا فطری ہے۔ وہ راستہ بہت حد تک بدل چکے ہیں مگر پھر بھی خوف ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مکافاتِ عمل کا قانون تو قدرت کا طے کردہ ہے اور کسی کے بدلے نہیں بدلتا۔ یورپ کو بھی یہ ڈر ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو امریکا کے ساتھ مل کر وہ کوئی ایسا غلط قدم اٹھالے جس کی پاداش میں تمام مظلوم مل کر دُھنائی کردیں۔
چین اور روس کا ابھر کر سامنے آجانا امریکا اور یورپ کو خطرناک حد تک بدحواس کر رہا ہے۔ چین تو عسکری مہم جُوئی سے گریزاں ہے مگر روس نے یوکرین پہ حملہ کر کے یورپ کو دہلا دیا ہے۔ یورپی قوتیں پریشان ہیں کہ اگر یہ جنگ پھیل گئی تو بہت کچھ ٹھکانے لگ جائے گا۔ امریکا اور یورپ کو اپنی بات منوانی ہے۔ چین اور روس مگر پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ایسے میں اکھاڑے کا درجہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کو مل رہا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ عرب دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت بھی اُس کے کیمپ میں رہیں۔ بھارت عجیب مخمصے کا شکار ہے۔ اُس کے معاشی مفادات واضح طور پر مغرب سے وابستہ ہیں۔ امریکا اور یورپ میں کروڑوں بھارتی باشندے مقیم ہیں اور اپنے ملک کے لیے خطیر زرِ مبادلہ کا اہتمام کرنے میں جتے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف روس ہے جسے بھارت عسکری اعتبار سے نظر انداز نہیں کرسکتا۔ بھارتی فوج کے لیے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان کا 60 فیصد آج بھی روس سے آتا ہے۔ بھارتی فضائیہ روس کی معاونت سے فعال ہے۔ ایسے میں روس کو بھی نظر انداز یا ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ نظر انداز یا ناراض تو بھارتی قیادت چین کو بھی نہیں کرسکتی کیونکہ دونوں ممالک کے مابین تجارت کا حجم 100 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ بھارت بہت سے معاملات میں چین پر انحصار کرتا ہے۔ چین نزدیک بھی ہے یعنی مال کی ترسیل پر زیادہ خرچ نہیں آیا۔ امریکا سے مال منگوانے کی صورت میں ترسیل کا خرچہ ہی مار ڈالتا ہے۔ پھر یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ امریکا اپنا مال ڈرا دھمکاکر بیچتا ہے۔ وہ پاکستان، بھارت اور دوسرے بہت سے ممالک کو خریداری پر مجبور کرتا ہے۔ اِس کے لیے مختلف ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ چین اب تک ایسا نہیں کر رہا۔ وہ کھلے بازار کی منڈی کے اصول پر کام کر رہا ہے یعنی سستا مال دیتا ہے جسے خریدنے سے انکار کرنا بہت سوں کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
امریکا اور یورپ کے لیے چین اور روس سے عسکری محاذ پر نمٹنا تو اب ممکن نہیں رہا۔ ایسے میں تجارت کا میدان ہی رہ جاتا ہے جس میں کسی حد تک مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ امریکا دنیا بھر کے ممالک میں پائی جانے والی نفسی مرعوبیت یعنی ''امریکا پسندی‘‘ کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ یہی معاملہ یورپ کا بھی ہے۔ بیشتر پس ماندہ اور ابھرتے ہوئے ممالک میں عام آدمی کے لیے آج بھی یورپ اور امریکا بہترین ماڈل یا نمونے کا درجہ رکھتے ہیں۔ ایسے میں بہترین تجارتی میدان مغربی و جنوبی ایشیا میں سجنے جارہا ہے۔ اب بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، عرب و افریقی ممالک اور خلیجی ریاستوں کو طے کرنا ہے کہ وہ امریکا و یورپ کی طرف جھکے رہیں گے یا حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین و روس سے تجارتی شراکت کو ترجیح دیں۔ اب چند برس تک یہ کشمکش زور پکڑتی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved