ہماری خاندانی روایت ہے کہ رمضان المبارک کا چاند دیکھتے ہی یا اطلاع ملتے ہی اپنے بڑوں کو اور بہن بھائیوں کو اس کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ اس سال یہ موقع آیا تو دل پر شدید چوٹ لگی۔ زخم تازہ اور گہرا ہے سو زیادہ تکلیف دیتا ہے۔ ہمارے بھائی جان مفتی محمود اشرف عثمانی اس سال ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ انہیں رمضان کی اور عیدین کی مبارک دینا ایک خوشی تھی کہ ان کی مسکراتی آواز میں مبارک بھی ملتی تھی۔ روزوں، تراویح کی تفصیل معلوم کرتے تھے اور دعائیں بھی دیتے تھے۔ یہ کیسی بڑی تکلیف ہے، ان لوگوں کو اندازہ ہو گا جن کا زخم گہرا اور تازہ ہوتا ہے۔ نہ جانے پچھلے سال کے کتنے ہی عزیز رشتے دار اس رمضان کو نہ دیکھ سکے اور ہم میں سے کتنے ہی ایسے ہوں گے جنہیں اگلے سال یہ مہینہ نصیب نہ ہو سکے گا۔
ہم سب اپنے پیاروں کو مٹّی دے کر پھٹتے دلوں کے ساتھ قبرستان سے باہر آتے ہیں اور باہر آتے ہی گھر داری اور دنیا داری کے دو لمبے ہاتھ ہمیں کھینچ کر اسی دنیا سے لپٹا دیتے ہیں۔ باہر آ کر ہمیں یاد آتا ہے کہ آج درزی کو نئے سوٹ کا کپڑا بھی پہنچانا ہے۔ آج رات فلاں شخص کی دعوت پر بھی جانا ہے۔ نہ گئے تو تعلقات خراب ہوں گے۔ کل فلاں شخص کی دعوت کرنی ہے۔ اگر نہ کی تو بہت شرمندگی رہے گی۔ بعد میں اس کے پاس وقت ہی نہیں ہو گا۔ وہ رُوٹھ کر چلا جائے گا۔
رحمت، برکت، عبادت اور عافیت کے یہ تیس دن پھر سایہ فگن ہوئے ہیں۔ خوش نصیبی ان خوش نصیبوں کی جنہیں یہ مہینہ ایک بار پھر میسر آیا۔ یہ تیس دن ہمیں دعوت دینے آئے ہیں اور ہمیں ان کی دعوت پر جانا ہے۔ نہیں جائیں گے تو تعلقات خراب ہوں گے اور جانے سے پہلے ہمیں اپنا حلیہ بھی ممکنہ حد تک ٹھیک کرنا ہے۔ ہمیں اس مہینے کی دعوت کرنی ہے۔ کل کو یہ مہمان چلا جائے گا اور اگلے سال جب آئے گا تو ممکن ہے کہ ہم خاک اوڑھ کر سو رہے ہوں۔ ایک عام روزہ دار کی حیثیت سے مجھے تو یہی لگتا ہے اور یقیناً یہ آپ کا مشاہدہ بھی ہو گا کہ اس مہینے میں ماحول اور فضا بھی نظام الاوقات اور مصروفیات کی طرح بالکل بدل جاتے ہیں۔ صرف ہمارے یہاں ہی نہیں دنیا بھر کے مسلمانوں میں۔
دنیا بھر میں مسلمان بہت خوشی اور محبت کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتے ہیں۔ عرب دنیا ہو، ترکی ہو، برصغیر پاک و ہند ہو یا مشرق بعید کے ممالک۔ فجی سے لے کر آباد دنیا کے آخری سرے تک مسلمان غیر معمولی انداز میں اس مہینے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ استنبول ترکی میں استقبالِ رمضان کی ایک بہت منفرد اور دل چسپ روایت ہے۔ پانچ مرکزی سلطان مسجدوں کے دو مناروں کے درمیان رات کو بلندی پر روشنی سے استقبال رمضان کے مختلف کلمات لکھے جاتے ہیں مثلاً ''اے بارہ مہینوں کے سلطان خوش آمدید‘‘ یا ''چاہو اور چاہے جاؤ‘‘۔ اس روایت کو ترکی میں ''ماہیا‘‘ (mahya) کہتے ہیں جس کے معنی ہیں ''آسمان پر لکھی تحر یر‘‘۔ اسی طرح افطار کے وقت ترکی، عرب دنیا اور خاص طور پر حرمین شریفین میں لمبے لمبے دستر خوان بچھ جاتے ہیں اور مکمل اجنبیوں کو جس لجاجت اور تواضع کے ساتھ اپنے اپنے سجے ہوئے دستر خوان پر دعوت دی جاتی ہے وہ منظر بھی بہت لوگوں نے دیکھا ہے۔
ہم بچپن میں اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے پوچھتے تھے: روزہ ہے یا کھوجا؟ بچپن کی بات تھی لیکن روزہ نہ رکھنے کے معنی میں کھوجا لفظ کا مطلب اس وقت بھی روشن تھا۔ پھر بھی ہم کھوجا کیوں کہا کرتے تھے؟ پتہ نہیں اور یہ بھی پتہ نہیں کہ بچے اب بھی یہ لفظ بولتے ہیں یا نہیں؟ روزے‘ افطار‘ سحری اور تراویح کا نظام بہت عجیب ہے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے‘ باقی گیارہ ماہ کے مقابلے میں زیادہ فعاّل ہوں۔ یہ بھی عجیب نظام ہے کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے روزہ داروں کے زمین آسمان بالکل بدل جاتے ہیں جبکہ ''کھوجے‘‘ والے طبقے کے لیے اسی شہر میں کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔
چند سال پہلے میں فیروز پور روڈ لاہور پر شدید ٹریفک جام میں پھنس گیا۔ اپنے حساب سے میں اس طرح ٹھیک وقت پر دفتر سے نکلا تھا کہ افطار سے قبل گھر پہنچ جاؤں گا لیکن فیروز پور روڈ سے جیل روڈ کی طرف مڑنے والی سڑک کے قریب اس قدر گاڑیاں پھنسی ہوئی تھیں کہ ٹریفک کے رینگنے کا لفظ بھی اس کے لیے کچھ مبالغہ آمیز محسوس ہوتا تھا۔ جو گاڑی جس رخ پر جس جگہ پھنسی ہوئی تھی وہاں سے ہلنے جلنے کی جگہ ہی نہیں تھی۔ شدید گرمی، لمبا روزہ اور سارے دن کی تھکن اس پر مستزاد۔ اس ہجوم میں آہستہ آہستہ افطار کا وقت اور یہ یقین قریب آتا گیا کہ افطار اب یہیں اور اسی سڑک پر ہو گا۔ میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے افطار کیا جا سکے حتیٰ کہ پانی بھی نہیں‘ اور گاڑی سے باہر نکلنے یا چھوڑ کر کسی دکان تک جانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ ایسے میں ایک فرشتہ صفت نوجوان کہیں سے نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پانی کی ٹھنڈی بوتلیں تھیں۔ وہ گاڑیوں میں یہ بوتلیں تقسیم کر رہا تھا۔ ایک یخ بوتل میرے حصے میں بھی آئی۔ مت پوچھیے کہ کیسی نعمت تھی اور کیسی اور کتنی دعائیں اس نوجوان کے لیے دل سے نکلیں۔ ایسے کتنے ہی لوگوں کا روزہ اس نے بر وقت افطار کرایا، ان کی پیاس بجھائی۔ اس کو جو اجر ملا ہو گا وہ اللہ کو علم ہے اور یقیناً اسی اجر میں اس کے دل کی وہ خوشی بھی شامل ہو گی جو اس عمل کے نتیجے میں اسے ملی ہو گی۔
اگر ہم اس ماہ میں انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی استطاعت اور گنجائش کے مطابق کچھ چیزیں اپنے معمول میں شامل کر لیں تو یقیناً یہ اجر اور یہ خوشی ہمارے حصے میں بھی آسکتی ہے۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہم اپنی ہمت سے بڑھ کر یہ کام کریں لیکن کھجور بھر نیکی بھی کوئی کم نہیں ہوتی۔
1۔ ہم اپنے ماتحتوں سے اس ماہ کام کا بوجھ کم کر دیں۔2۔ اپنی گاڑی موٹر سائیکل یا بیگ میں گنجائش کے مطابق کھجوریں اور پانی رکھ لیں شاید دفتر، دکان، بازار یا سڑک پر کسی روزہ دار کے کام آ سکیں۔
3۔ کسی نادار اور کم استطاعت والے رشتے دار پڑوسی یا جاننے والے کو دس پندرہ دن کا راشن لے دیں۔ ماشاء اللہ بہت سے فیاض اور دل والے یہ کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں‘ لیکن جس کے لیے جو ممکن ہے اتنا کر لے۔ پانی کا ایک سیراب کر دینے والا گھونٹ بھی پیاسے کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔
4۔ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین بعض اوقات بہت کسمپرسی کے عالم میں ہوتے ہیں اور ان میں روزے دار بھی ہوتے ہیں۔ ان کی دیکھ بھال اور افطار کا بندوبست ہو سکے تو مریض اور تیماردار دونوں کی دعا مل سکتی ہے۔
5۔ افطاری پر ہر گھر میں خصوصی اہتمام ہوتا ہے اور رنگ برنگ پکوان اور کھانے بنائے جاتے ہیں۔ اگر ہم کسی ایک روزہ دار مثلاً گھریلو ملازم یا خادمہ کے گھر میں سے ایک اضافی فرد کو بھی افطار کروا سکیں تو ان گھرانوں تک بھی یہ رزق پہنچ جائے گا جو اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اللہ سب کو سلامت رکھے لیکن اگلے رمضان آپ یا میں کہاں ہوں گے، کچھ پتہ نہیں۔ تو کیا ہم اس سال کا مہمان روٹھ جانے دیں؟ دستر خوان پر ساتھ نہ بٹھا لیں؟ کیا خیال ہے؟