تحریر : جویریہ صدیق تاریخ اشاعت     10-04-2022

سیاسی ہلچل اور بھارتی میڈیا

پاکستان میں گزشتہ دو ہفتے میں بہت کچھ ہوگیا‘ ہر چیز بدل کر رہ گئی‘ کیااپوزیشن اور کیا عوام‘ سب ہی سرپرائزڈ رہ گئے۔اپوزیشن نے تو شیروانی تیار کرلی تھی اور بس انتظار میں تھے کہ کب اتوار کا دن آئے گا اور ہم وزیراعظم عمران خان کو گھر بھیج کر راج کریں گے مگر عمران خان نے سرپرائز دیا‘ اپنے سمیت سب کو ہی گھر بھیج دیا۔ جمہوریت کے حال پر تاسف تو بنتا ہے۔پھر عدالت کا بڑا فیصلہ آیا‘ حکومت واپس بحال ہوگئی اور دوبارہ تحریک عدم اعتماد آئی۔ عجیب صورتحال ہے‘ حکومت واپس حکومت میں جانا نہیں چاہتی تھی اور اپوزیشن الیکشن میں جانا نہیں چاہتی۔اس سب صورتحال میں عوام اور جمہوریت کا بہت نقصان ہوا۔ سیاست دان کیوں ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچتے ہیں۔ جمہوریت صرف دو گھروں کی غلام نہیں ہے‘ دوسرے سیاست دانوں کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ بن سکیں۔
جمہوریت صرف کچھ خاندانوں کانام نہیں‘ اب نئے اور کرپشن فری چہروں کو سامنے آنا چاہیے۔ جب پاکستان میں تحریک عدم اعتماد لائی جارہی تھی اورحکومت گرانے کی کوشش ہورہی تھی تو اس وقت بھارتی میڈیا کے تمام بڑے چینلز نے اپنی مہم شروع کردی اور یہ مہم عمران خان کے خلاف تھی۔ اس شر انگیز مہم کے ذریعے فوج ‘ حکومت اور عوام کے درمیان لڑائی پیدا کرنے کوشش بھی کی گئی۔ ایسے جیسے مودی میڈیا کو ہدایات ملی ہوں کہ کیا کیا کرنا ہے۔ سب ایک ہی لائن پر تھے کہ کسی طرح پاکستان میں خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ یہ مہم نفرت پر مبنی تھی اور یہ مہم اب بھی بھارت کے میڈیا چینلز پر جاری ہے جبکہ ہمارے ہاں تو قومی معاملات پر بھی اتفاق نہیں ہے‘ ہر وقت سیاستدانوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ کم از کم قومی سلامتی کے معاملات پر تو اتحاد کرلیں ‘ مگر سب نے اپنی اپنی سائڈز لے رکھی ہیں اور غیرجانبدار بہت کم ہیں۔
اب بھارتی میڈیا کی چالیں ملاحظہ ہو ں۔غور سے جائزہ لیں کہ سب سے پہلے ڈبلیو آئی او نیوز نے اس حوالے سے خبر دی کہ پاکستان میں آرمی اور حکومت ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے ہیں۔یہ ایک جھوٹی خبر تھی ایک چینل یہ کہہ رہا تھا کہ آرمی عمران خان کو ہٹانا چاہتی ہے‘ دوسرا چینل یہ کہہ رہا تھا کہ عمران خان اعلیٰ فوجی قیادت کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ یہ بات پاکستان میں ایک غیر معروف صحافی اور ایک متنازع سیاست دان نے بھی نشر کردی جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کلکتہ سے چلنے والے سوشل میڈیااکاؤنٹس بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئے جو دیکھنے میں تو پی ٹی ایم اور بلوچستان میں دہشت گرد وں کو سپورٹ کرتے ہیں اور خود کو پاکستانی کہتے ہیں لیکن وہ چلتے بھارت سے ہیں۔ ان اکاؤنٹس نے پاک آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف ٹرینڈ کئے اور لگ یہ رہا تھا کہ یہ پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس ہیں جبکہ یہ اکاؤنٹس بھارتی تھے۔ ڈبلیو آئی او نے 20مارچ کو یہ جھوٹی خبر بھی دی کہ آرمی نے وزیراعظم عمران خان سے استعفیٰ طلب کرلیا ہے۔اس ادارے کے بعد دوسرے بھارتی چینلز بھی میدان میں آگئے۔ ایک بھارتی سائٹ او ایم ایم کام نیوز نے خبر دی کہ عمران خان آرمی چیف کو برطرف کرکے اپنی پسند کے جنرل کو لگانا چاہتے ہیں۔ یہ جھوٹی خبر 19مارچ کو دی گئی۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار نے اس کوریج پر میڈیا کو بھاری فنڈنگ کی تھی تاکہ پاکستان میں انتشار پھیلے اور انتشار پیدا ہوجائے۔ پھر ان کی ایک اور ویب سائٹ نے 19 مارچ کو یہ خبر دی کہ فوج اور حکومت میں ٹھن گئی ہے۔ بھارتی میڈیا یہ ٹرانسمیشنز اور شوز اب تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔19 مارچ ہی کو ٹی وی 9 بھارت ورش نے خبر دی کہ وزیراعظم عمران خان کو اتارا جارہا ہے اور یہ منظر پیش کیا کہ مذہبی جماعتیں حکومت کے خلاف مسلح مذمت کررہی ہیں ۔یہ خبر بھی جھوٹ تھی۔ پھر بھارت ورش ٹی وی نے کہا کہ حکومت کی تبدیلی کے بعد فوج حکومت کا تختہ الٹ دے گی‘ یہ بھی ایک جھوٹی خبر تھی۔پھر ان کی ایک خاتون اینکر‘ جوکہ نیوز 18 ہندوستان سے تعلق رکھتی ہے اس نے بھی یہ دعویٰ کر دیا کہ عمران خان آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں‘ یہ خبر 22 مارچ کو بریک کی گئی‘ اور یہ بھی جھوٹی خبر تھی۔
اس دوران فوج کے خلاف تین ٹرینڈ بنے ‘جب میں نے اس کا جائزہ لیا کہ تصاویر عمران خان کی تھیں لیکن پرانے ٹوئٹس تو پی ٹی ایم‘ بی ایل اے اور دیسی لبرلز کے حق میں تھے۔ کچھ اکاؤنٹس امریکہ میں بیٹھے حسین حقانی کا نیٹ ورک‘ خود ساختہ بلاگرز جن پر گستاخانہ پیجز چلانے کا الزام ہے‘ وہ اکاؤنٹس ان کے تھے۔ عام پاکستانی عوام کے نہیں تھے۔ اس کے ساتھ ارنب گوسوامی‘ روبیکا لیاقت‘ سدھیر چوہدری‘راہوال شیوشنکر‘ گورو آریا اور ویبھوسنگھ نے بھی پاکستان کے خلاف خوب مہم میں حصہ لیا۔ میں نے ان کے ٹائم لائنز شو اور ٹرانسمیشن دیکھے جس کا مقصد صرف پاکستان میں نفاق پیدا کرنا تھا۔ یہ اتنا گلا پھاڑ کر بولتے ہیں کہ سر میں درد شروع ہوجاتا ہے۔بھارتی میڈیا نے یوں تاثر دیا کہ جیسے عوام فوج کے خلاف ہیں اور فوج حکومت کے خلاف۔ یہ سب ایک منفی مہم تھی۔
جیسے جیسے تحریک عدم اعتماد قریب آئی بھارت میڈیا بالکل پاگل پن کا شکار ہوگیا ۔ایسے شور کررہے تھے جیسے جانور چڑیا گھر میں شور کرتے ہیں۔ اپوزیشن سے زیادہ ان کو جلدی تھی کہ حکومت گر جائے اور عمران خان واپس چلے جائیں۔ مجھے اس ساری گیم کو دیکھ کر بہت حیرت ہورہی تھی کہ یہ ہماری حکومت کے اتنے دشمن کیوں ہیں۔دراصل بھارت ہر اس چیز کو ہوا دیتا ہے جس سے پاکستان کا نقصان ہو۔ 30 مارچ کو نیوز 18نے پھر یہ خبر چلائی کہ وزیراعظم مستعفی ہوگئے ہیں۔یہ بھی جھوٹ تھا۔اس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اسمبلی تحلیل کی تو بھارتی میڈیا نے اپنا اٹیک اور تیز کردیا۔وہ مسلسل پی ٹی آئی کے خلاف مہم چلا رہے تھے اور اپوزیشن کا ساتھ دے رہے تھے۔ میں بالکل یہ نہیں کہوںگی کہ ہماری اپوزیشن ان کے ساتھ رابطے میں ہے ‘حقیقت یہ ہے کہ بھارت پی ٹی آئی اور اپوزیشن کے خلاف خلیج مزید گہری کرنا چاہتا ہے۔ اس کا دوسرا ہدف پاکستانی عوام میں اعلیٰ اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرنا ہے۔ مودی سرکار نے اس حوالے سے سوشل میڈیا کو بھی متحرک کیا ہے اورساتھ ساتھ اپنے میڈیا کو بھی اس کام پر لگایا ہوا ہے۔ یہ مہم اردو اور انگریزی ‘ دونوںزبانوں میں چلائی جارہی ہے۔اب جبکہ حالات یکسر تبدیل ہوگئے ہیں تب بھی انڈین میڈیا چپ نہیں ہوا۔
ہمیں اس مہم پر مؤثر جواب دینا ہوگا۔ سب پہلے بھارت کو براہموس میزائل کا مس فائر ہونا یاد دلایا جائے۔ اس کے بعد ان کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر ان کو بار بار شرمندہ کرنا چاہے ‘ابھی تین چار دن پہلے راجستھان میں بی جے پی نے پولیس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے چالیس مکانات اور دکانیں جلا دیں۔ ہمارے میڈیا کو بھی بھارتی چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کرنا چاہیے۔ بھارت کوئی سیکولر ملک نہیں ہے ۔وہ ایک اتنہاپسند آر ایس ایس کے ہجوم سے بنی ریاست ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے۔چاہے وہ بھارت کے مسلمان ہوں یا پاکستان کے ‘ان کا مقصد مسلمانوں کی نسل کشی ‘ان میں نا اتفاقی اور نفرت کو جنم دینا ہے۔ ایک دوسرے سے مت لڑیں‘ ایک دوسرے کی عزت کریں ‘رمضان کے مہینے کا احترام کریں۔ ملک میں نفرت بدامنی اور انتشار کو مت پھیلنے دیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved