تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     10-04-2022

بیش قیمت خود مختاری

آزاد ہو اور خود مختار نہ ہو۔ خود مختار ہو پھر بھی آزاد نہ ہو۔غیر اخلاقی ہو لیکن غیر قانونی نہ ہو۔ غیر قانونی ہو پھر بھی جمہوری ہو۔ ذہن مائو ف کر دینے والے تضادات ہیں۔ یہ ابہام کیوں ؟ اس لیے جب کسی ملک میں اقدار کا نظام ضمیر کے بجائے مفاد کے تابع ہوجائے تو پھر کچھ بھی ممکن ہے ۔ ذرا تصور کریںکہ اس ملک میں کیا کچھ ہورہا ہے ۔ ایک ملک نے ایک خود مختار ملک کو کھلی دھمکی دی ہے کہ اس کی حکومت کو تبدیل کردیا جائے ورنہ اس کے نتائج ہوں گے ۔ یہ کوئی غیر رسمی مراسلہ نہیں بلکہ رسمی سفارتی اجلاس میں بولے گئے اصل الفاظ ہیں۔ یہ لمحاتی اشتعال کے موقع پر منہ سے نکل جانے والے الفاظ نہیں ‘ بلکہ تعمیل نہ کرنے والے ایک لیڈر کو ہٹانے کے لیے سفاک لہجے میں اداکیے گئے سوچے سمجھے جملے ہیں۔
غریب ممالک پر امیروں کے قبضے اور اقتدار کو کنٹرول کرنے کے فارمولے کو ''امریکہ کی خفیہ حکومت کی تبدیلی کی کارروائیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔ آئزن ہاور سے لے کر اوباما تک کئی مطالعات سے ایسی سرگرمیوں کے دستاویزی ثبوت ملے ہیں۔ '' امریکہ کی سرد جنگ کے دوران 72 بار دوسرے ممالک کی حکومتوں کو تبدیل کرنے کی کوشش ‘‘ کے عنوان سے23 دسمبر 2016 ء کو چھپنے والے ایک مضمون میں 50 کی دہائی میں ایران میں اور پھر 2011ء میں لیبیا میں صدر اوباما کی طرف سے حکومت کی تبدیلی کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس مضمون میں کہا گیا ہے کہ 1947 ء سے 1989ء تک امریکہ نے دنیا میں حکومتوں کی تبدیلی کی 66 خفیہ اور چھ کھلے عام کارروائیاں کیں۔ اکثر
ملکوں میں ووٹنگ کے عمل میں مداخلت کی گئی۔ 66 کوششوں میں سے 16 ایسے کیسز تھے جن میں واشنگٹن نے خفیہ طور پر اپنے پسندیدہ امیدواروں کے لیے فنڈنگ‘ مشورے اور پراپیگنڈہ پھیلا کر انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ ایک سے زیادہ انتخابات میں ایسا کیا گیا۔اس کے نتیجے میں امریکی حمایت یافتہ جماعتوں نے 75مرتبہ اپنے انتخابات جیتے۔ اس لیے سپر پاور کی طرف سے موجودہ پیغام انتہائی سنجیدہ ہے۔ حکومت کی تبدیلی کی خفیہ کوشش امریکیوں کے لیے ساز گار ہے کیونکہ:
1۔ طاقتور اور کمزور: یہ ایک کے فائدے میں دوسرے کے نقصان کا پرانا کھیل ہے ۔ طاقتور محسوس کرتے ہیں کہ پاور کی رسائی محدود ہے۔ مزید طاقتور بننے کے لیے انہیں دوسروں سے اقتدار چھیننا ہوگا۔ ایسا کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ قدرتی وسائل رکھنے والے چھوٹے‘ غریب ممالک کو ہدف بنایا جائے۔ ترجیحی طور پر وہ دیکھتے ہیں کہ وہاں اطاعت پر آمادہ لیڈر ہونے چاہئیں۔ کئی دہائیوں سے ہم نے پاکستان‘ افغانستان‘ عراق‘ شام جیسے ممالک کو بڑی طاقتوں کے درمیان بالادستی کے لیے میدان جنگ بنتے دیکھا ہے۔ امریکہ نے ان میں سے بہت سے ممالک پر حملہ کیا ہے اور ان پر قابو پانے کے لیے ان کے لوگوں کو ہی استعمال کیا ہے۔ افغانستان میں اشرف غنی جیسے مہرے تھے۔ عراق کے صدام حسین امریکہ کی مخالفت کرنے سے پہلے امریکہ کے پسندیدہ تھے۔ اس طرح جنگیں ہارنے کے باوجود مقامی قیادت کو مطیع کرکے یا خرید کر اپنا کنٹرول قائم کرنے کی صلاحیت اُن کے پاس موجود ہے ۔
2۔ بدعنوان سرگرمیاں: جوڑ توڑ کا بہترین طریقہ کمزوری سے کھیلنا ہے۔ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں کے رہنما بدعنوان رہے ہیں۔ ایک بدعنوان آدمی بنیادی طور پر خود غرض‘ سمجھوتہ کرنے والا اور ہیرا پھیری پر آمادہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں روایتی طور پر بدعنوانی کے الزام میں حکومتوں کا تختہ الٹا جاتا رہا ہے۔ بدعنوانی کی وجہ سے ہر حکومت قائم نہیں رہ پاتی ۔ اس کی وجہ سے آنے جانے کی راہ داریاں آباد رہتی ہیں۔ طریق کارہر بار ایک ہی ہوتا ہے۔ وہ آتے ہیں‘ لوٹ مار کرتے ہیں اور پھر وہ ڈیل کرتے ہیں اور دوسرے ملکوں کو فرار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد اقتدار کی راہداریوں میں ایک اور داخلے کا انتظار کرتے ہیں۔ یہ ماضی کا ریکارڈ انہیں طاقتور ممالک کے استحصال اور اپنے ایجنڈوں کے لیے استعمال کرنے کے لیے عظیم ''اثاثہ‘‘ بناتاہے۔
3۔ کہانی ساز: معلومات میں طاقت ہوتی ہے ۔ بدقسمتی سے غلط معلومات کہیں زیادہ طاقت رکھتی ہیں۔ خبر سازی کے فن میں کمال حاصل کرنے کے بعد بڑی طاقتوں کے بیانیے کے کارخانے ایسی کہانیاں چھیڑتے ہیں جو ان کے میڈیا کے تسلط سے دنیا میں اپنے بیانیے کا سیلاب لے آتی ہیں۔اپنی شکست کو اپنی جیت کے طور پر دکھایا جاتا ہے اور دوسروں کی فتوحات کو دوسروں کی شکست کے طور پر ۔یہ کام نام نہاد ماہرین‘ رائے سازوں‘ مصنفین اور ملک کے لبرل دانشوروں کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ مخمصہ اس کی واضح مثال ہے۔ کچھ میڈیا لابیوں کے کالم‘ ٹویٹس اور ری ٹویٹس وقت کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو پھیلارہے
ہیں کہ ایک سپر پاور نے ہماری قومی خودمختاری کی خلاف ورزی کی ہے۔ جہاں وہ اس صورتحال کو معمولی بنانے میں مصروف ہیں‘ وہیں وہ زبردستی یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کتنی ''جمہوری‘‘ سرگرمی ہے ۔
چونکہ ملک ایک اور بحران کے دہانے پر ہے‘ اس لیے ضروری ہے کہ ماضی سے جان چھڑائی جائے اور کچھ چیزیں دوبارہ سیکھیں جو اسے مکمل افراتفری میں آنے سے بچا سکتی ہیں:
1 ۔ مضبوط موقف اختیار کریں: جب بیرونی طاقتیں انہیں گرانے کی کوشش کر رہی ہوں تو شہریوںکو بطور ِقوم اٹھنا پڑتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ایران‘ چین اور بھارت جیسے ممالک ایسی قوموں کی مثالیں ہیں جنہوں نے بڑی طاقتوں کو ٹالنے کے کے عمل میں ہم سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ہمیں اجتماعی طور پر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہم عراق یا افغانستان جیسا مستقبل نہیں چاہتے۔ ہمیں اجتماعی طور پر غیر ملکی طاقتوں کے اپنے مفادات ہم پر مسلط کرنے کی کسی بھی کوشش کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ پاکستان کو کس ملک کا دورہ کرنا چاہیے اور کس ملک کے ساتھ دوستی کرنی چاہیے اس کا حکم دینا غلامی سے بڑھ کرہے۔ ''ڈومور‘‘ کے رویے نے ہمیں بے وقعت بنا دیا۔ ہار ماننے کی وجہ یہ ہے کہ ''بھکاری انتخاب کا حق نہیں رکھتا‘‘۔ درست ہے‘ لیکن اگر ہم اس امداد کو دیکھیں جو ہم نے وصول کی ہے ‘ لیکن جو اس کی جو قیمت ہم نے ادا کی ہے‘ وہ اس سے کہیں بڑھ کرہے۔ پچھلی دو دہائیوں میں ہمیں امریکہ سے 20 بلین ڈالر کی امداد ملی اور معاشی لحاظ سے 150 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ 130 بلین کا نقصان ایک قیمت ہے جو ہماری آنے والی نسلیں ادا کریں گی کیونکہ ہم نے صحیح موقف اختیار نہیں کیا تھا۔
2۔ خود مختار ی کا انتخاب کریں: ہمیں یاد رکھنا چاہے کہ غلط انتخاب‘ غلط نتائج دے گا۔ اگر ہم ایسے لیڈروں کا انتخاب کرتے رہیں جن کے مفادات‘ اثاثے‘ پیسہ‘ خاندان دوسرے ممالک میں پڑے ہوئے ہیں تو ہم اشرف غنی اور نواز شریف کا سیاسی نمونہ دہراتے رہیں گے۔ دونوں نے سخت حالات آتے ہی اپنے ممالک سے اپنے خاندانوں کو سمیٹا اور بھاگ گئے اور مغرب میں سرمایہ کاری کرلی۔ بحیثیت قوم ہم تبھی آگے بڑھیں گے جب ہم یہ عزم کریں کہ کسی بھی آزمائے ہوئے ناکام کو ملک کو تباہ کرنے کا ایک اور موقع نہیں دیا جائے گا۔
3۔ بنیادی اصول مد نظر رکھیں: شاید سب سے بڑی کوشش کی ضرورت ان اقدار کو دوبارہ دریافت کرنے اور دوبارہ زندہ کرنے کی ہے جنہوں نے ایک بار اس ملک کو اس کی بنیاد کا جواز بنایا تھا۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنے اردگرد کی غلطیوں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ہمیں اجتماعی طور پر جھوٹ‘ فریب‘ بدعنوانی کو کسی طور برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں قانون شکنوں کو شرمندہ کرنا چاہیے چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں۔ ہمیں بااصول لوگوں کا ساتھ دینا چاہیے‘ چاہے وہ کتنے ہی عام کیوں نہ ہوں۔
یہ فیصلہ کن لمحات ہیں۔ ہم جنگی حملے کی زد میں ہیں۔ قبضے کا مطلب ہے کسی دوسری قوم کے لوگوں کی آزادی سلب کرنا ہے۔ ہماری اپنی پالیسیوں کے انتخاب کا حق چھیننے کی موجودہ کوشش ہماری خودمختاری پر سنگین حملہ ہے۔ اگر ہم نے ایسا ہونے دیا تو ہم غلام بن جائیں گے۔ یہ لڑائی اس بات کی نہیں ہے کہ اعتماد کا ووٹ کون جیتا ہے بلکہ اس کی لڑائی ہے جو آزادی کا ووٹ کون جیتتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved