تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-04-2022

وراثت

کیا کسی سپر پاور سے ٹکر لی جا سکتی ہے؟ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ہمارے جیسے ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک ہمت کر سکتے ہیں؟ سری لنکا کی مثال سب کے سامنے ہے۔ کیا یہ اتفاق ہے کہ روس‘ یوکرین جنگ اور چین کے حوالے سے ان سب ممالک کا موقف ایک ہی تھا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اب پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد نیپال کی باری ہے‘ صرف روس نہیں‘ یہ چین کو بھی گھیرنے کی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگِ ستمبر کے پہلے روز جیسے ہی پاکستانی دستے اکھنور کی جانب بڑھنے لگے تو ان کی غیر معمولی پیش رفت دیکھ کر بعض قوتوں کو تشویش لاحق ہوئی اور پھر کمان تبدیل کر دی گئی۔ ہم وہیں کے وہیں تو کیا رہتے‘ واپسی پر مجبور کر دیے گئے۔
کچھ روز قبل تحریک انصاف کے چند 'منحرف‘ اراکین اسمبلی سے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں ہونے والی گفتگو چونکا دینے والی تھی۔ ایک صاحب سے جب پوچھا کہ آپ نے پینترا کیوں بدلا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنی سیاسی بقا اور آئندہ کے راستے کا سوچنا ہوتا ہے‘ ہماری سیاست صرف اپنی ذات سے متعلق نہیں ہوتی بلکہ ہمیں اپنی برادری اور پورے خاندان سمیت اردگرد کے رشتے داروں اور اپنے ضلع کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں جانے کیلئے عمران خان کا ساتھ کیوں چھوڑا تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ اگر کل کو خان صاحب کو کچھ ہو جاتا ہے تو پھر ہمارا سیاسی مستقبل کیا ہو گا؟ نواز شریف اور شہباز شریف کی تو اولادیں ہیں‘ جنہوں نے اپنی جماعت کو سنبھالا ہوا ہے، زرداری صاحب کے بعد بلاول اور آصفہ بھٹو زرداری کی شکل میں پیپلز پارٹی چلتی رہے گی‘ بالکل اسی طرح جیسے بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد بھی محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا وجود باقی رہا۔ مفتی محمود کے بعد مولانا فضل الرحمن اور ان کے بعد ان کا بیٹا مدرسوں سمیت جماعت کا وارث بنے گا۔ باچا خان کے بعد ولی خان اور اب اسفند یار ولی‘ اسی طرح عطا اللہ مینگل کے بعد اختر مینگل پارٹی کی سربراہی سنبھالے ہوئے ہیں۔ محمود خان اچکزئی اپنے والد کی وراثت سنبھالے ہوئے ہیں لیکن اگر دوسری جانب ہم صرف عمران خان کے بارے ہی سوچتے رہیں‘ اسی سے وابستہ رہیں تو بتایئے کہ ان کے بعد ان کی سیا ست اور پارٹی کا وارث کون ہو گا؟ ان کو تو کوئی سیاسی وارث ہی نہیں۔ اگر دو‘ چار بڑے بڑے نام آج ان کی جماعت میں نظر آ رہے ہیں تو یہ سب چھپ کر نہیں بلکہ کھلم کھلا ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت میں کل کو تحریک انصاف کی قیادت کون سنبھالے گا؟ اگر آج ہمیں کچھ وقتی مفادات دوسری جانب لے کر جا رہے ہیں تو اس کے ساتھ ہم اپنا سیاسی قبیلہ بھی منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں وہی سیاسی جماعت دیر تک کھڑی رہ سکتی ہے جس کے پاس وراثت ہو۔ جس کی وارثت نہیں‘ جس پارٹی میں پارٹی لیڈر کے خاندان کے لوگ نہیں‘ اس کے ساتھ ہم دیر تک نہیں چل سکتے۔ رہی نظریات کی بات‘ تو مجھے کوئی ایسی سیاسی قیادت بتا دیں جس کے نظریات اس کے ساتھ ہی دفن نہیں ہو گئے۔
ان صاحب کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کی اکثریت ایسی ہے جو اپنے علا قے کے ڈی پی او تو بہت دور کی بات‘ ایس ایچ او کی مخالفت کی بھی متحمل نہیں ہو سکتی اور آپ کہتے ہیں کہ ہم نے دنیا کی سپر پاورسے ٹکر لینی ہے۔ پاکستان کے 95 فیصد اراکین اسمبلی کی دوڑ صرف اپنے اضلاع میں مرضی کے ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او اور اپنے حلقۂ انتخاب میں من پسند پٹواری اور ایس ایچ او تک محدود ہوتی ہے۔ اسی کیلئے وہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی منتیں اور ترلے کرتے ہوئے پانچ سال گزار دیتے ہیں۔ یہیں سے ان کی خوشیاں اور ناراضیاں جنم لیتی ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی انہیں امریکا کے سامنے ڈٹ جانے کا کہے تو ان کا یہ کہتے ہوئے خون خشک ہو جاتا ہے کہ ورلڈ پاور سے پنگا لینے والوں نے ہمیشہ ''وین ای پائے نے‘‘۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر اور قرضوں اور امداد کی دلدل میں دھنسے ہوئے ممالک کا امریکا کو آنکھیں دکھانا تو دور‘ اس کے ساتھ بیٹھنا بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا، اس لیے عمران خان نے جو کچھ کاٹا‘ یا آگے کاٹنا پڑے گا‘ یہ سب ان کا اپنا ہی بویا ہوا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اس دنیا کی کوئی طاقت اس سپر پاور کا مقابلہ کرنے کی ہمت کر سکتی ہے؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ اس کے سامنے کوئی بھی کھڑا نہیں رہ سکتا کیونکہ ہر ملک کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں ہے۔ دنیا بھرکی معیشت‘ تجارت‘ میڈیا اور معاشرت اس نے اپنے کنٹرول میں کر رکھی ہے۔ پورا یورپ‘ خلیج اور مشرق بعید ‘ سب اس کے اشاروں پر چلتے ہیں‘ ایسے میں عمران خان جیسے کسی حکمران کی کیا حیثیت ہے؟ جب روس اور چین جیسے ممالک امریکا سے ٹکر نہیں لے سکے تو خان صاحب کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔
ان اراکین اسمبلی کو جب عمران خان کے سیاسی جلسوں میں عوام کے جارحانہ موڈ کا بتایا تو وہ قہقہہ مار کر کہنے لگے ''اے سب وقتی گلاں نے‘ تسی وی ایتھے جے‘ ویکھ لینا‘‘۔ 2013ء میں یہ جلسے کہاں گئے تھے؟ اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کہا‘ میں اس پر لاحول ول قوۃ پڑھتا ہوا نکل آیا۔ ان کا کہنا تھا دیکھتے جائیں آگے خان صاحب کے ایسے ایسے قصے ہر جانب اس طرح پڑھنے اور سننے کو ملیں گے کہ سب کے کان پک جائیں گے اور بالآخر ان پر‘ گھوڑوں کو مربے کہلائے جانے کی باتوں کی طرح یقین کرنا ہی پڑے گا۔ نومبر 1996ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد میڈیا پر گھوڑوں کے ایئر کنڈیشنڈ اصطبلوں اور گھوڑوں کو مربہ جات‘ شہد اور جام کہلائے جانے سمیت دیگر پروپیگنڈا مہم کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بتائو اس مہم کے بعد میاں صاحب کو دو تہائی اکثریت ملی تھی کہ نہیں؟ جب عوام کو ایک ہی چیز سنائی اور بتائی جائے گی تو پھر ان کے ذہنوں میں وہی کچھ ثبت ہو کر رہ جائے گا اور اس کا نتیجہ پولنگ سٹیشنوں پر دیکھنے کو ملے گا۔ یہ سب کچھ پہلے بھی آزمایا جا چکا‘ جیسے جیسے الیکشن قریب آئے گا‘ چیزیں سامنے آنا شروع ہو جائیں گی۔ 1997ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کو بمشکل چودہ نشستیں مل سکی تھیں‘ لیکن اس کے باوجود اب تک سندھ میں وہ پارٹی اس لیے جیتتی چلی آ رہی ہے کیونکہ یہ جماعت ایک خاندانی وارثت کی حامل ہے۔ پاکستانی سیاست میں چونکہ عمران خان کے خاندان میں سے کوئی ان کی جماعت میں شامل نہیں‘ ان کا کوئی سیاسی وارث نہیں‘ لہٰذا اس پارٹی کا دیر تک چلنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ ہم اراکین اسمبلی کا نے کوئی تو سیاسی گھرانا ڈھونڈنا ہی ہوتا ہے‘ اُدھر نہیں تو اِدھر کیونکہ لنگر صرف سیاسی وارثان کے ہی چلتے ہیں۔ رہی بات امریکا کی طاقت کی تو ایک سابق سیکرٹری خارجہ نے گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں امریکی طاقت کا ایک ایسا واقعہ بیان کیا کہ ہمارے ہوش اڑا دیے‘ لہٰذا سپرپاور کے سامنے کھڑے ہونا توپ کے دہانے کے سامنے کھڑے ہونے کے مترادف ہے‘ اگر کوئی اس بیوقوفی پر تل گیا ہے‘ تو اس کا نتیجہ وہی بھگتے‘ ہم اس کے نقصان میں حصہ دار کیوں بنیں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved