احتجاج کی آزادی جمہوریت کا حسن ہے ۔ عراق پر امریکی حملے کی مزاحمت میں دنیا بھر میں اتنا شدید ردّعمل ہوا کہ 15فروری 2003ء کو نیویارک ٹائمز کے لکھاری نے کہا: ایسا لگتاہے کہ دنیا میں دو عالمی طاقتیں ہیں، ایک امریکہ اور دوسری اس کی مخالف عالمی رائے عامہ ۔ مسلم ممالک ایک طرف، یورپ میں عدیم النظیر مظاہرے ہوئے ۔ روم میں تیس لاکھ افراد نے ریلی نکالی اور یہ ایک عالمی ریکارڈ ہے۔ ساڑھے تین ماہ میں کرّہ ارض کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ جنگ کی مخالفت میں گھر سے نکلے۔ امریکی عزائم کا ساتھ دینے پر آسٹریلوی عوام نے اپنے وزیر اعظم کو امریکی پوڈل کا خطاب دیا ۔ صدر بش کی ری پبلکن پارٹی طویل عرصے بعد اقتدار سے محروم ہوئی اور ٹونی بلئیر کی اپنی جماعت میں بغاوت نے بالآخر انہیں بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔ مغربی جمہوریتوں میں احتجاج مگرپر امن تھا ۔ حکومت اور عوامی نقطہ ء نظر میں اختلاف کے باوجود اسلحے کے بل پر کوئی تخت نہ الٹا۔ بڑے سے بڑا طوفان وہاں بخیر و عافیت گزر جاتاہے ۔ مصر مختلف تھا۔ عمارت کی پہلی دیوار ہی اٹھی تھی کہ خوفناک زلزلے نے آلیا ۔ دوسرے عوامل کے علاوہ اس میں اخوان المسلمون کی نالائقی کا دخل بھی ہے۔ درست کہ نئی حکومت کی راہ میں ہر قسم کے روڑے اٹکائے گئے، اسے کام کرنے ہی نہیں دیا گیا لیکن حریف تو حریف ہیں ۔ دشمن سے اعلیٰ ظرفی کامطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ فوج کی طرف سے الٹی میٹم کے باوجود پارٹی بے حس و حرکت رہی اور حادثہ ہو کر رہا۔ معمولی سا فہم رکھنے والا کوئی بھی آدمی صدر مرسی کے استعفے کے ساتھ نئے صدارتی الیکشن کا انتخاب کرتا ۔ دوبارہ الیکشن جیت کر ان کی پارٹی لوٹ آتی تو مخالفین کے لیے ڈوب مرنے کے سوا کوئی اورچارہ نہ ہوتا۔ احتجاج کی بنیاد پر صدر مرسی کو معزول کیا گیا تھا۔ جوابی مظاہروں کی بنیاد پرکیا اب بحال نہ کر دینا چاہیے؟ سخت تشدد سہتی اخوان اب مظلوم ہے اور یہ لہو اس کی بنیادوں میں فولاد بن کے اترے گا۔ بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی موت کا میلہ سجائے بیٹھی ہے ۔ اصلاً یہ اقتدار کی جنگ ہے کہ پچھلے چار انتخابات سے صورتِ حال یہ تھی کہ ایک بار شیخ صاحبہ کو موقع ملتاہے اور دوسری بار خالدہ ضیا کو۔ باری اب خالدہ ضیا کی تھی مگر شیخہ نے قبل از انتخاب دھاندلی کا ایک منفرد طریقہ ڈھونڈا۔ قوم کے سامنے انہوںنے علیحدگی کی فلم چلا ڈالی ہے کہ بے وقوفوں کے ٹولے ماتم کرتے ہوئے ان کے گرد اکٹھے ہو جائیںاور وہی ہوا ۔ ’’تیس لاکھ‘‘ بنگالی شہریوں کا لہو جماعتِ اسلامی کے خون سے دھونے کی کوشش وہ جاری رکھیں لیکن یہ بَلی چڑھاتے ہوئے ایک دن خود وہ موت کے گھاٹ اتر جائیں توتعجب نہ ہونا چاہیے۔ حوالے کے طور پر وہ اپنے والدِ محترم اور علیحدگی کی جنگ میں ان کے وفادار میجر ضیاء الرحمٰن کی قبر دیکھ سکتی ہیں ۔ ناکافی ہوں تو کچھ قبریں پاکستان میں بھی دھری ہیں ۔ برسبیلِ تذکرہ ، یہ وہی میجر صاحب تھے ، جو بعد میں آرمی چیف بنے ، جنہوںنے اپنے ’’سپریم کمانڈر‘‘ شیخ مجیب الرحمٰن کے قاتلوں پہ دستِ شفقت رکھا تھا ۔وہی ، جن کی شریکِ حیات کب سے شیخ حسینہ واجد کی راہ میں کانٹے بچھا رہی ہے ۔ اور ترکی… جمہوریت کا شجر کاٹنے والے ایک اور فوجی سربراہ کو عمر قید ۔ شب خون مارنے والوں کو رجب طیب ایردوان نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ آنے والی سب نسلیں یاد رکھیں گی ۔ابھی حال ہی میں حکومت کے خلاف بڑے مظاہروں کے باوجود فوج کو مداخلت کی ہمت نہ ہوئی۔ ڈنکے کی چوٹ پہ سیاستدانوں کا حقِ حکمرانی انہوںنے واپس چھین لیا ہے ۔ بہت خوب! اور پاکستان ؟ سچ تو یہ ہے کہ بہتری کی شاہراہ پر مصر جیسے معاشروں سے ہم ہزاروں میل آگے ہیں ۔ آزاد میڈیا، آزاد عدالتیں ،باشعور سول سوسائٹی، بہترین فوج اور ایٹمی پروگرام لیکن ایسا کوئی لیڈر نظر نہیں آتا جو امن اور معاشی ترقی کے لیے درکار قابلیت اور دیانت دونوں سے بہرہ ور ہو۔ نوٹ چھاپ کے گردشی قرضہ چکانے، آئی ایم ایف سے قرض اور بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے کارنامے تو کوئی ان پڑھ دیہاتی بھی کر ڈالتا۔ آپ کا کمال کیا ہے ؟ ادھر کشمیر میں انسانیت کی بدترین تذلیل جاری ہے لیکن قیام کی بجائے ، ہم سجدے میں پڑے ہیں۔لے دے کہ خان صاحب سے کچھ امیدتھی ، سو انہوںنے پرویز خٹک کو چن لیا۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم بڑھکیں مارنے کے ہنر میں اپنے پڑوسی کے وہ ہم پلہ ہیں۔ دنیا کے طول و عرض میں مسلمان پست ہیںاور قدرت خاموش۔ وہ صرف ہمارا رب تو نہیں ۔ اس کی بادشاہت تو سو ارب گلیکسیز، سات آسمانوں اور سات زمینوں پہ محیط ہے ۔ اور اس جنت پر ، جس کا عرض زمین و آسمان کے برابر ہے‘ اس لیے تو یہ محفل نہیں سجائی گئی کہ خود پر سوکھا ایمان لانے والوں کوبہرصورت وہ سرفراز کرے۔ انسان اگر اس کے وجود کا قائل ہو جائے اور مرہونِ منت ہائے روزگار ہونے کے باوجود اس کے خیال سے غافل نہ ہو تو یہ دنیا قائم و دائم رہے گی ۔ میرا نہیں خیال کہ ہماری بدحالی اور ذلّت میں اچنبھے کی کوئی بات ہے۔ جو کچھ ہم کر رہے ہیں دنیاوی سرفرازی کے لیے کافی نہیں۔ اس کے لیے وہی کرنا ہوگا، جو مغرب کب کا کرچکا۔ ادارے درکار ہیں اور ان کی تعمیر کے لیے جمہوری سیاسی جدوجہد۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved