تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     12-04-2022

… سبھی ایک ہوئے

اب کرپشن کا رونا رونے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔ کسی بھی الجھن یا خرابی کا رونا اُس وقت رویا جاتا ہے جب اُس کا ارتکاب کرنے والے قلیل تعداد میں ہوں اور اکثریت اُس الجھن یا خرابی سے دور رہنے پر متوجہ رہتی ہو۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہے؟ بالکل نہیں! تیس پینتیس سال پہلے البتہ یہ معاشرہ ایسا تھا کہ کرپشن کہیں کہیں تھی‘ کسی کسی میں تھی۔ تب اگر کوئی کرپشن کی بات کرتا تھا تو لوگ متوجہ بھی ہوتے تھے اور موقف کی حقانیت کو تسلیم بھی کرتے تھے۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب معاشرہ بدل گیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ 'بدل گیا ہے‘ کہنے سے بات بنتی نہیں۔ معاشرہ پلٹ گیا ہے۔ جب معاملات اُلٹ پلٹ جائیں تو کسی بھی معاملے میں رونے پیٹنے کی زیادہ گنجائش نہیں رہتی۔ اس وقت ہمارا معاشرہ بہت عجیب نہج پر ہے۔ معاشرتی خرابیاں اس قدر ہیں کہ کسی ایک معاملے میں بھی بہتری کی امید رکھنے کے لیے جگر نہیں، جگرا چاہیے۔ کسی بھی معاشرے میں جتنے عمومی عیوب ہوسکتے ہیں وہ ہمارے ہاں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ ان عیوب کی فراوانی کے نتیجے میں کوئی ایک شعبہ بھی اب درست حالت میں نہیں رہا۔
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جب معاملات بہت زیادہ خراب ہوئے، مہنگائی سے لڑنا عام آدمی کے لیے ممکن نہ رہا تب کرپشن شروع ہوئی تو وہ اپنے خیالات سے رجوع کرے۔ جب ملک میں مہنگائی برائے نام بھی نہیں تھی اور اشیائے صرف کی قیمتیں دو‘ دو ڈھائی ڈھائی سال مستحکم رہا کرتی تھیں تب بھی لوگوں میں کرپشن تھی۔ ہاں! تب کرپشن کو شناخت کرکے اُس کا ارتکاب کرنے والوں کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشرے میں عمومی سطح پر کرپشن کو انتہائی بُرا تصور کیا جاتا تھا اور اِس سے بچنے کی اچھی خاصی کوشش کی جاتی تھی۔ خاکسار عرض یہ کرنا چاہتا ہے کہ جن کی فطرت میں کرپشن لکھی ہو وہ کسی بھی جواز کے بغیر کرپشن کرتے ہیں۔ جب اشیا و خدمات کی قیمت کا معاملہ ہر اعتبار سے معقول اور متوازن تھا تب بھی کچھ لوگ ایسے تھے جو کرپشن کی دلدل میں دھنسے ہوئے تھے۔ تب بھی سرکاری اداروں میں کچھ کیے بغیر تنخواہ وصول کرنے والے پائے جاتے تھے۔ آئیے ذرا 1980 کے کے عشرے کے ابتدائی لمحات کی سیر کرتے ہیں۔ تب ٹھنڈے مشروب کی بوتل ایک روپے کی تھی۔ فائن آٹا بھی ایک روپے فی کلو کے نرخ پر تھا۔ گھی اور تیل تین تا چار روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہوتا تھا۔ تب تک راشن کا آٹا خریدنے کا رجحان کمزور پڑچکا تھا۔ 1978 میں راشن کا آٹا دو روپے کا پانچ کلو ملا کرتا تھا۔ تنور کی روٹی چار اور آٹھ آنے کے درمیان تھی۔ ہوٹل میں کسی بھی سالن کی پلیٹ دو سے تین روپے تک تھی۔ بسوں کے کرایے ایک روپے تک تھے۔ طلبہ کا رعایتی ٹکٹ چار آنے کا تھا۔ تب تک کوچز عام نہیں ہوئی تھیں۔ چھوٹی ویگنیں بھی معقول کرایہ لیا کرتی تھیں۔ کپڑوں کی سلائی 30 تا 60 روپے تک تھی۔ مکانات کے کرایے 300 تا 800 روپے تھے۔ خاکسار نے بھی والدین اور بھائی بہنوں کے ساتھ 300، 500، 800 اور 1100 روپے ماہانہ کے مکانات میں خاصا وقت گزارا ہے۔ اچھے علاقوں میں ڈھنگ کا بنا ہوا مکان البتہ 1500 روپے ماہوار تک کرایے پر ملا کرتا تھا۔ تب عام آدمی پر فضول خرچوں کا اضافی بوجھ نہ تھا۔ فون نہیں تھے۔ موبائل فون کا تصور تک نہ تھا۔ ٹی وی ڈراموں کی پیدا کردہ چکاچوند نہ تھی۔ لوگ فیشن کے نام پر کمائی کا بڑا حصہ برباد کرنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ زندگی میں دکھاوا برائے نام تھا یعنی کچھ ہی لوگ اس معاملے میں بُرا بننا پسند کرتے تھے۔ عام آدمی کی زندگی میں دکھاوا نہیں تھا۔ سال میں ایک بار یعنی میٹھی عید (عیدالفطر) کے موقع پر کپڑے بنا کرتے تھے جو سال بھر کام آتے تھے۔ اِس دوران خاندان میں کوئی شادی بھی ہو تو یہی کپڑے پہنے جاتے تھے۔ آج کی طرح سال میں چار بار کپڑے بنوانے کا رواج نہ تھا۔ عمومی سطح پر لوگ ایسے شوق نہیں پالتے تھے جن کی خاطر کچھ الٹا سیدھا کرنا پڑتا۔ مشاغل بالعموم کم خرچ ہوا کرتے تھے۔ آج بہت سوں کو آپ دیکھیں گے کہ پچیس ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں مگر ہاتھ میں سیل فون 55 ہزار روپے والا ہوتا ہے۔ تب یہ ممکن ہی نہ تھا کہ کوئی ماہانہ 1100 روپے کماتا ہو اور تن پر 500 روپے والا جوڑا سجائے پھرتا ہو۔ کوئی اگر اپنی یافت یعنی آمدن سے مطابقت نہ رکھنے والی طرزِ زندگی اپناتا تھا تو فوراً لوگوں کی نظر میں آ جاتا تھا۔ اگر کوئی حرام کی آمدن سے اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی کوشش کرتا تھا تو لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے اور سراہنے سے گریز کرتے تھے۔ جو لوگ اپنی حلال آمدن ڈھنگ سے بروئے کار لاتے تھے اُنہیں سراہا جاتا تھا اور دوسروں کے سامنے مثال بناکر پیش بھی کیا جاتا تھا۔
خاکسار نے اُس زمانے کا تفصیلی ذکر اس لیے کیا کہ اندازہ ہوسکے کہ تب زندگی میں کوئی ایسی الجھن نہ تھی جس کے تدارک کے لیے کرپشن کی جاتی ۔ ایسے ماحول میں بھی کچھ بدبخت ایسے تھے جو کرپشن سے باز نہ آتے تھے۔ خاکسار کے مشاہدے میں آیا کہ تب بھی کچھ لوگ (سرکاری) دفتر میں حاضری دیے بغیر محض پوری تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے بلکہ اوور ٹائم بھی وصول کرتے تھے! یہ سب کچھ برائے نام کٹوتی کے عوض ہوا کرتا تھا۔ متعلقہ کلرک کی مٹھی گرم کیجیے اور پُرلطف زندگی بسر کیجیے۔ جو اندر سے کرپٹ ہوتے ہیں اُنہیں باہر سے کسی بھی طرح کی تحریک درکار نہیں ہوتی۔ وہ کرپشن ہی کے بل پر جیتے ہیں اور مرتے دم تک کرپٹ رہتے ہیں۔ آج معاملہ یہ ہے کہ لگ بھگ پورا معاشرہ کرپٹ ہوچکا ہے۔ معاشرے میں اب وہی لوگ کرپشن سے بچے ہوئے ہیں یا بہت حد تک حلال کی روٹی کمارہے ہیں جنہیں پیس ریٹ کی بنیاد پر تنخواہ ملتی ہے۔ فیکٹریوں اور دکانوں پر کام کرنے والوں میں سے جنہیں کام یا بنائی ہوئی چیز کی بنیاد پر مشاہرہ ملتا ہے وہی اب حلال کی روٹی کھاتے ہیں۔ جن مقامات پر یہ طے نہ ہو کہ کسے کتنا کام کرنا ہے وہاں ہڈ حرامی اور حرام خوری عام ہے۔ دفاتر کا یہی حال ہے۔ پانچ کلرکوں میں تین کام کر رہے ہوتے ہیں اور دو کسی نہ کسی طرح اپنے لیے بھرپور مزے لکھوا لیتے ہیں۔
ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں بہت کچھ سیکھنا ہے، بہت کچھ لینا ہے اور بہت کچھ ترک کرنا ہے۔ اصلاحِ نفس کا عمل اہلِ پاکستان پر فرض ہوچکا ہے۔ ایک قوم کس طور زندہ رہتی ہے اور خود کو دنیا کے سامنے کس طور پیش کرتی ہے یہ سب کچھ وہ ہنر ہے جو اب ہمیں سیکھنا پڑے گا۔ کئی معاشروں نے دن رات محنت کرکے خود کو ذلت کے گڑھوں سے نکالا ہے۔ اب دنیا اُنہیں احترام کی نظر سے دیکھتی ہے۔ ہمیں بھی اپنے لیے عالمی برادری میں احترام پیدا کرنا ہے۔ یہ کوئی ایسا کام نہیں کہ کہیے اور ہو جائے۔ اِس کے لیے عشروں تک محنت کرنا پڑتی ہے۔ بہت سے ممالک نے عشروں کی محنت کے بعد اپنے آپ کو منوایا ہے۔ ایسی ہی محنتِ شاقّہ ہم پر بھی فرض ہے۔
ہم ایک ایسی دنیا کا حصہ ہیں جس میں جیت اُنہی کی ہے جو کھیل کے اصول جانتے ہیں۔ ملک کے اندر چاہے کچھ بھی چل رہا ہو، ملک سے باہر ہمیں بہت کچھ درست رکھنا پڑتا ہے۔ عالمی منڈیوں میں مقابلے کیلئے لازم ہے کہ ہم کرپشن پر قابو پائیں۔ اس کیلئے بڑے پیمانے پر اصلاح کا عمل درکار ہے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کم و بیش سبھی کرپٹ ہیں۔ عام آدمی اب اشرافیہ کے کرپٹ ہونے کا رونا نہیں رو سکتا کیونکہ وہ خود بھی کرپٹ ہے اور جہاں بس چلتا ہے وہاں کرپشن کر گزرتا ہے۔ ہر شعبے کی قومی قیادت کو مل بیٹھ کر کوئی ایسی حکمتِ عملی تیار کرنا ہوگی جس پر عمل کرکے معاشرے کی اصلاح ممکن بنائی جاسکے۔ کوئی کم اور کوئی زیادہ‘ جب بیشتر افراد کرپٹ ہو جائیں تو کوئی کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتا۔ ایسے میں اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے اور اصلاحِ نفس پر مائل ہونے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔ اب ہمیں طے کرنا ہی پڑے گا کہ جانا کہاں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved