کبھی میں سوچتا تھا‘ آخر عام لوگ سیاستدانوں کے اتنے دیوانے کیوں ہو جاتے ہیں کہ ان کیلئے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ اگر کوئی انہیں یہ بتانے کی کوشش کرے تو وہ اس کے گلے فٹ ہو جاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ ہر بندہ خود کو درست سمجھتا ہے۔ کوئی خود کو غلط نہیں سمجھتا۔ سمجھتا ہوتا تو خود کو درست کر لیتا۔ اب مجھے سمجھ آرہی ہے کہ سیاستدان دراصل انسانی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔ وہ لوگوں کو وہ خواب دکھاتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں اس زندگی کا آئیڈیا دیتے ہیں جو انہوں نے شاید خواب میں بھی نہ دیکھی ہوگی۔ امید ہر کسی کو اچھی لگتی ہے۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا فراڈی لوگ چرب زبان ہوتے ہیں۔ وہ ایسا منظر باندھ دیتے ہیں کہ بندہ ان کی باتوں کی لہر میں بہتا چلا جاتا ہے۔ دماغ روکنے کی کوشش کرے تو بھی دل اسے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔ انسان ان باتوں پر یقین کرنا چاہتا ہے جو اس نے سوچ رکھی ہوتی ہیں چاہے اسے علم ہوکہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ فلم میں ہیرو ہمیں اس لیے اچھے لگتے ہیں کہ ہم وہی کردار بننے کی خواہش رکھتے ہیں جو سکرین پر ہمیں دکھایا جاتا ہے۔ ہم اچھا گھر، اچھی گاڑی اور دولت چاہتے ہیں۔ حسین دکھنا چاہتے ہیں اور ایک فلمی ہیرو کے پاس سب کچھ ہوتا ہے۔ ایک کامیاب انسان۔ اسی لیے کامیاب لوگوں کی بات سنی جاتی ہے اور یقین کیا جاتا ہے یہ بندہ خود بھی کامیاب ہوا ہے اور اس کے پاس کوئی گر اور گیدڑ سنگھی ہے جسے سنگھا کر یہ ہمیں بھی راتوں رات کامیاب کر دے گا۔ دیہات میں اگر آپ کے پاس ایک لینڈ کروزر ہو تو آپ الیکشن جیت سکتے تھے کیونکہ جو میرے جیسے سائیکل پر سوار ہیں انہیں لگتا ہے لینڈ کروزر یا کار نہ سہی موٹر سائیکل کا بندوبست تو وہ کرا ہی دے گا۔ میرے بچے کی نوکری کرا دے گا۔ مجھے تھانے کچہری کے وقت بچا لے گا۔ سیاستدان لوگوں کے ان خوابوں کو بیچ کر عوام کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں۔ عوام کو لگتا ہے جو بندہ انہیں ان سیاستدانوں کے پول کھول کر دکھا رہا ہے‘ چاہے وہ ٹی وی اینکر ہے، کالم نگار ہے یا صحافی وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ بک گیا ہے۔ ان کے لیڈر نے جو اس کے ساتھ وعدہ کررکھا ہے کہ وہ ان کی چٹکیوں میں زندگی بدل دے گا وہ ضرور پورا ہوگا۔ جب کچھ عرصے بعد اسے احساس ہوتا ہے وہ وعدہ پورا نہیں ہورہا بلکہ لیڈر الٹا اپنے وعدے سے ہی مکر گیا ہے تو اسے جھٹکا لگتا ہے‘ لیکن وہ اب تک عقیدت میں اتنا ڈوب چکا ہوتا ہے کہ پھر خود سے اپنے لیڈر کی چرب زبانی اور جھوٹوں کا جواز تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے تاکہ خود کو تسلی دے سکے کہ اس سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی۔ کسی بھی انسان کیلئے خود کو یہ بتانا یا سمجھانا بہت مشکل کام ہے کہ وہ غلط تھا یا اس کے ساتھ دھوکا ہوا تھا۔ اتنی دیر میں آپ اپنے رشتے دار، دوستوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کرچکے ہوتے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک دوست نے حیرانی سے بتایا اس کا رشتہ اس وجہ سے نہ ہوسکا کہ لڑکی والوں نے اس کے فیس بک پر لگائی پوسٹوں سے اندازہ لگایا کہ وہ اس سیاسی جماعت کا حامی ہے جسے وہ پسند نہیں کرتے‘ یوں رشتے سے انکار کردیا گیا۔
پھر آپ کا مہاتما لیڈر آپ کو بتانا شروع کرتا ہے کہ کیسے اس کے ساتھ پہلے دن سے ہی کوئی مخلص نہ تھا۔ وہ آپ کو بتائے گا کہ اس کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے اقتدار دیا گیا تھا۔ اس کے پاس تو پاورز بھی نہیں تھیں۔ وہ آپ کو ہر اس محکمے یا ادارے کی برائی بتائے گا جس کو سیدھا کرکے اس نے آپ کی زندگی بدلنا تھی، آپ کے خوابوں کی تعبیر حاصل کرنا تھی۔ وہ دھیرے دھیرے آپ کے ذہن میں بٹھانا شروع کرے گا کہ اس وقت تک ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی یا ان کی زندگیوں میں تبدیلی نہیں آئے گی جب تک آپ اسے دو تہائی اکثریت ساتھ وزیراعظم نہیں بناتے۔ جب آپ کو دوتہائی اکثریت مل جاتی ہے تو پھر آپ کے اندر فاشسٹ خیالات ابھرنا شروع ہوجاتے ہیں کہ اب سب اداروں اور لوگوں کو کنٹرول کیا جائے۔ ہر جگہ اپنا بندہ ہو۔ جو بھی آپ کی حکومت سے اختلاف کرتا ہے وہ اس ملک اور معاشرے کا دشمن ہے۔ پھر آپ پارلیمنٹ کے اندر ایک بل لانے کا پلان بناتے ہیں جس کے تحت آپ وزیراعظم کے بجائے خود کو ''امیرالمومنین‘‘ کا درجہ دلوا لیں گے‘ اور پھر کسی کی جرأت کہ وہ امیر کی کسی بات پر اعتراض کرے۔ یوں آپ جمہوری طریقے سے وزیراعظم بن کر ایک فاشسٹ حکمران بننا چاہتے ہیں۔
ایک اور بھی ماڈل ہے کہ تین چار سال حکومت کرنے کے بعد بھی آپ لوگوں سے کیے گئے اندھا دھند وعدے پورے نہیں کر پائے اور آپ کو لگتا ہے کہ اب نئے الیکشن میں نیا منجن بیچنا چاہیے تو پھر آپ نئی حکمت عملی تیار کرتے ہیں۔ اس بار آپ لوگوں کو یہ بتانا شروع کرتے ہیں کہ آپ سب ترقی اس لیے نہیں کر پائے کہ آپ ابھی عظیم قوم نہیں بنے۔ پہلے عظیم قوم بنیں پھر آپ ترقی کریں گے۔ پھر اس غریب کو بتانا شروع کیا جاتا ہے کہ اس کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ پوری دنیا اس کے خلاف ہوگئی ہے کیونکہ وہ انہیں ایک غیرت مند قوم بنا رہا تھا اور ابھی وہ بننے ہی لگے تھے کہ سازش ہوگئی۔ انسانی مزاج ہے کہ یہ سازشی تھیوریز کو بڑی جلدی درست تسلیم کر لیتا ہے۔
جب وہ لیڈرز آپ کو معاشی طاقت بنا رہے ہوتے ہیں تو اس وقت ان کے اپنے کاروبار دن رات ترقی کررہے ہوتے ہیں۔ ایک سے دس فیکٹریاں لگ چکی ہوتی ہیں لیکن ملکی معشیت ڈوب رہی ہوتی ہے۔ آپ کے یار دوست‘ ڈونرز اور جہازوں پر چکر لگوانے والی اے ٹی ایمز جیبیں بھر چکی ہوتی ہیں۔ لیکن آپ وہیں کے وہیں کھڑے بلکہ پہلے سے بھی بدحال ہوچکے ہوتے ہیں۔
تاریخ میں جتنا بھی انسانی لہو بہایا گیا ہے اس کے پیچھے تین چار وجوہات تھیں۔ سب سے آسان ہے کہ خود کو دوسروں سے بہتر رنگ نسل زبان کا ثابت کرو کہ ہم بہت اعلیٰ لوگ ہیں اور ہمارا حق بنتا ہے ہم دوسروں پر حکمرانی کریں اور یوں دوسرے ملکوں اور عوام پر چڑھ دوڑیں اور انسانی لہو بہائیں۔ پھر ایک اور بڑا ہتھیار جسے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ ہے قوم یا وطن پرستی کا۔ جدید دور میں اس کی مثال جرمنی ہے جس کا لیڈر بھی پاپولر تھا۔ وہ بھی دن رات جرمنوں کو بتاتا تھا وہ عظیم قوم ہیں۔ اس نے دنیا کو جنگ عظیم دوم میں دھکیلا۔ چھ سال تک تباہی بربادی ہوتی رہی۔ مائوں کے بچے ایک پاپولر اور عظیم لیڈر کے نام پر مرتے رہے اور آخر اس پاپولر لیڈر نے شکست کے بعد خود کو گولی مارلی۔
پاپولر لیڈرشپ دو دھاری تلوار ہے۔ اگر لیڈر کی نیت معاشرہ بدلنے کی ہو تو وہ یہ کام کرسکتا ہے لیکن لیڈر قوموں کو برباد بھی کرسکتے ہیں۔ لیکن بعض پاپولر لیڈران کے ساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ روز نیا ایسا کیا کام کریں کہ لوگ واہ واہ کرتے رہیں۔ وہ روز صبح اٹھ کر سوچے گا‘ آج میں کیا بڑھک ماروں کہ رات تک میری واہ واہ ہوتی رہے۔ خوشامدی اسے طریقے بتاتے رہتے ہیں۔ جب وہ دیکھے گا نہ وہ وعدے پورے کرسکا نہ ہی انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لاسکا تو پھر وہ نیا نعرہ مارے گاکہ اس کے خلاف سازش ہوگئی تھی۔ وہ قوم اس لیڈر سے کچھ سوالات کرنے کے بجائے اس نعرے کو درست مان لے گی۔
کسی نے کیا خوب کہا تھا: انسانوں کو خواب دکھا کر لوٹنا آسان ہے بہ نسبت اس کے انہیں اس بات پر قائل کیا جائے وہ لٹ رہے ہیں۔ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے لیکن انہیں اس بات پر سمجھانا مشکل ہے کہ وہ بیوقوف بن رہے ہیں۔
ویسے داد دیں ان لیڈروں کو جو کروڑوں لوگوں کو چونا لگانے کا فن جانتے ہیں۔ یہی لوگ مہان ہیں، یہی ہمارے گرو ہیں، یہی ہمارے مرشد ہیں۔