تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-08-2013

پاک بھارت جنگ‘ مجذوب کا خواب

پاکستان کی سیاسی منڈی میں بھارت کاخوف ‘ آسانی سے فروخت ہونے والی چیز ہے۔ حالانکہ ایٹم بموں کے ذخیرے جمع ہوجانے اور موثر ڈلیوری سسٹم دستیاب ہونے کے بعد‘ کوئی احمق ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ اب یہ دونوں ملک جنگ میں کودنے کا جرم کر نے کی پوزیشن میں رہ گئے ہیں۔ جنگ کا خوف صرف پاکستان ہی نہیں‘ بھارت میں بھی موقع بہ موقع گرم بازاری پیدا کرتا رہتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں میں یہ سودا بیچنے والے بھی کم نہیں اور خریداروں کا تو کیا ہی کہنا؟ بڑے بڑے ادارے‘ جو خطرات کے جائزے لیتے رہتے ہیں‘ وہ بھی اس سودے میں گرم بازاری دیکھ کر عوام اور فیصلہ سازوں کو اصل حقیقت سے آگاہ نہیں کرتے۔ جن ملکوں نے عشروں پہلے یہ اسلحہ حاصل کر لیا تھا‘ ان میں اس تباہ کن ہتھیار کے استعمال کے نتائج کے بارے میں شعور و آگہی پھیلانے کا عمل بھی جاری رہا۔ ان ملکوں پر بارہا آزمائش کے مواقع آئے۔ لیکن وہاں کے فیصلہ سازوں نے ایسے ہر موقعے پر انتہائی ذمہ داری اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اس تباہ کن ہتھیار کے استعمال سے گریز کیا۔ صرف امریکہ ایک ایسا ملک تھا‘ جس کی قیادت نے دنیا پر بالادستی قائم کرنے کے جنون میں‘ ایٹم بموں کے استعمال کا فیصلہ کیا اور تمام جنگی ماہرین اس پر متفق ہیں کہ یہ ایک غیرضروری اور غیرانسانی فیصلہ تھا۔ جنگ اپنے منطقی انجام کی طرف رخ کرچکی تھی۔ جاپان کے حکمران طبقے ذہنی طور پہ شکست قبول کر چکے تھے۔ جرمنی کا مفتوح ہونا یقینی تھا اور اگر امریکہ ایٹم بم نہ بھی استعمال کرتا‘ تو نتیجہ وہی ہونا تھا‘ جس کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ امریکہ نے ایٹم بموں کا استعمال نہ اتحادیوں کی مشاورت سے کیا اور نہ ہی کسی اتحادی کے مطالبے پر۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا اور جنگ کے بعد کی دنیا میں امریکہ کی بالادستی اور اس کی دھاک بٹھانے کی خاطر کیا گیا۔ لیکن ہیروشیما اور ناگاساکی کے سانحوں کے بعد یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ گئی کہ یہ ہتھیارقابل استعمال چیز نہیں ہے۔ اگر جاپان کے پاس بھی ایٹم بم ہوتے‘ تو امریکیوں کی مجال نہیں تھی کہ وہ اس پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کرتے۔ یہ جاپان کا نہتا پن تھا‘ جس کی بنا پر امریکیوں کو ایسا کرنے کا حوصلہ ہوا۔ برصغیر کی وہ صورتحال نہیں رہ گئی‘ جو اس وقت جاپان اور امریکہ کی تھی۔ یعنی ایک ایٹمی ہتھیار بنا چکا تھا اور دوسرے کے پاس جوابی اسلحہ موجود نہیں تھا۔ آج پاکستان اور بھارت دونوں ہی ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیںاور ہرفریق کو یہ علم ہے کہ اس کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال ہوا‘ تو جواب میں اس کی مکمل تباہی بھی یقینی ہے۔ بھارتی جنگجوئوں کا یہ خیال کہ خاکم بدہن وہ‘ پاکستان کو تباہ کر کے بھی بچ رہیں گے‘ خلاف حقیقت ہے۔ بھارت کو اگر اپنی جغرافیائی وسعت پر غرور ہے‘ تو اس کے اہل علم و دانش کو یقینا خبر ہے کہ رقبے کی وسعت ‘ دفاعی طاقت کو ناقابل تسخیر نہیں بناتی۔ ہر ملک میں پیداواری مراکز محدود جگہ پر ہی ہوتے ہیں۔ بھارت کے جن علاقوں میں اس کی صنعتیں‘ رصدگاہیں‘ ریسرچ لیبارٹریز اور تعلیمی مراکز موجود ہیں‘ ان کا رقبہ اتنا زیادہ نہیں کہ پاکستان انہیں ٹارگٹ نہ کر سکے اور اب تو ایٹمی اسلحہ گرانے کے خودکار طریقے ایجاد ہو چکے ہیں۔ میزائلوں کے نشانے پر جانے کی بے چوک ٹیکنالوجی‘ دونوں ملکوں کی دسترس میں ہے اور پاکستان ‘ بھارت کے پیداواری مراکز کو تباہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ اگر بھارت کے کچھ گائوں اور کھیت بچ رہتے ہیں اور پاکستان میں نہیں بچتے‘ تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ ایٹمی جنگ کے بعد تباہی دونوں طرف آئے گی اور جو بچ رہیں گے‘ ان کی زندگی مرنے والوں سے بھی بدتر ہو کر رہ جائے گی۔ دوطرفہ ایٹمی جنگ ایک ایسی تباہ کن چیز ہے‘ جس کا تجربہ دنیا آج تک نہیں کر سکی‘ اس کی وجہ یہی ہے جو میں نے ابھی عرض کیا۔ سوویت یونین اور امریکہ سرد جنگ میں ایک دوسرے کے بدترین حریف رہے ہیں۔ وہ کئی مواقع پر ایٹمی جنگ کے قریب آ کر ڈر گئے۔ کیوں؟ دونوں ملکوں کے ماہرین اور ان کی قیادتیں جانتے تھے کہ دو طرفہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں دونوں کی تباہی ناگزیر ہے۔ 50ء کے عشرے کے دوران‘ کیوبا میں ایٹمی میزائلوں کے اڈے قائم کرنے کے سوال پر امریکہ اور سوویت یونین ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔ مگر دونوں کو ہی بلاتاخیر اپنی اپنی پوزیشن سے ہٹ کر ‘ ایٹمی جنگ کے خطرے سے نکلنا پڑا۔ اس کے بعد شرق اوسط کے بحران ہوں یا ویت نام کی جنگ۔ ایٹمی جنگ کا خیال تک ان کے قریب سے نہیں گزرا۔ ایک موقع پر سوویت یونین اور چین کے مابین بھی کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ دونوں میں سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ کسی حد تک جنگ کی صورتحال بھی آئی۔ لیکن ایٹمی اسلحہ استعمال کرنے کا کوئی خیال تک نہیں کر سکا۔ اس کی بڑی وجہ اس خوفناک جنگ کے اثرات و نتائج کے بارے میں عوام کی وسیع تر آگاہی بھی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقوں اور میڈیا نے ایٹمی جنگ کے اثرات و نتائج سے عوام کو آگاہ کرنے کے معاملے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے۔ برصغیر کے امن اور محفوظ مستقبل کے لئے ضروری تھا کہ یہاں کا میڈیا اور عوامی رہنما برصغیر میں ایٹمی اسلحہ آ جانے کے بعد ‘ اس کے ذریعے پھیلنے والی تباہی و بربادی کے بارے میں عوامی شعور کو بیدار کرتے اور حقائق کو اتنا عام کر دیتے کہ کسی بھی سطح پر کوئی بھی ادارہ‘ ایٹمی اسلحہ کے استعمال کا خیال بھی ذہن میں نہ لاتا۔مگر محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادتیں اور مفاد پرست طبقے‘ ایٹمی جنگ کی تباہی و بربادی سے لاحق خطرے کی آگاہی پھیلانے سے دانستہ گریز کر رہے ہیں۔ تاکہ وہ جب چاہیں جنگ کا سودا فروخت کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتے رہیں۔ بھارت نے جنگ کے خطرے کو زیادہ بے احتیاطی اور کثرت سے استعمال کیا ہے۔ وہاں کے حکمران چھوٹے چھوٹے حادثوں کو بھی جنگ کا خطرہ کھڑا کرنے کے لئے استعمال کرلیتے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ پر مبینہ دہشت گردی اور ممبئی کے واقعات اس کی مثال ہیں۔ جب بھارتی حکمرانوں نے فوراً ہی سرحدوں پر فوجیں لا کھڑی کی تھیں اور کارگل پر احمقانہ کارروائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ جنگ کی صورتحال پیدا کر دی تھی۔ حالانکہ اس وقت دونوں ملکوں کا ایٹمی اسلحہ ابتدائی حالت میں تھا لیکن جب ایٹم بم بن جاتے ہیں‘ تو پھر ان کا استعمال دور نہیں رہتا۔ بہرحال ہر مرتبہ دونوں ملکوں کی حکومتیں جنگ سے بچ نکلیں۔ لیکن جب کسی خطرے کو پیدا کر لیا جائے‘ تو پھر اس کی اپنی حرکیات شروع ہو جاتی ہیں اور کسی بھی وقت فیصلہ سازوں کی غلطی کا احتمال ہوتا ہے۔ مناسب یہی ہوتا ہے کہ ایٹمی جنگ کے خطرے کا سودا باربار استعمال نہ کیا جائے۔ دنیا کے باقی سارے ایٹمی ملک اس کھیل کے خطرات سے واقف ہیں اور وہ کسی موقع پر ایٹمی جنگ کو تصور میں لانے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ لیکن برصغیر کے حکمران‘ اپنے عوام کو ایٹمی جنگ کے خوف میں مبتلا رکھ کر‘ اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہتے ہیں۔ ایسا پاکستان میں کم اور بھارت میں زیادہ ہوتا ہے۔ ہرچند پاکستان کے چند غیرریاستی عناصر اپنی انتہاپسندی اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے‘ بھارتی حکمرانوں کو زیادہ مواقع مہیا کرتے ہیں کہ وہ پاکستان پر جارحانہ ارادے رکھنے کے الزامات لگاتے رہیں۔ لیکن عملی طور پر اس گناہ کا ارتکاب ہمیشہ بھارت کی طرف سے ہوا۔ آج کل بھی جنگی جنون پیدا کرنے کی ابتدا بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے۔ وزیراعظم نوازشریف ‘ بھارت کے ساتھ امن بحال کرنے والے سیاستدان کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا نعرہ لگا کر کامیاب ہوئے۔ ابھی وہ ابتدائی اقدامات کر رہے تھے کہ بھارت نے کنٹرول لائن کے معمول کے واقعات کو زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا اور بھارتی حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لا کر کھڑا کر دیا تاکہ من موہن سنگھ ‘ نوازشریف کے ساتھ ملاقات کا ارادہ ترک کر دیں۔ جس کی وجہ بھارت کے دو ریاستی اور پھر عام انتخابات ہیں اور بھارتی انتہاپسندوں کے پاس الیکشن جیتنے کے لئے‘ پاکستانی خطرے کا سودا بیچنا سب سے آسان ہوتا ہے۔ جنگ اب بھی ممکن نہیں۔ لیکن جنگ کے خطرے کو بیچناآج بھارتی حکمران طبقوں کی ضرورت بن گیا ہے۔ پاکستان میں پہلے ہی انتہاپسندوں کا زور ہے۔ ان کے لئے بھی یہ سودا بیچنا انتہائی آسان ہے۔ حالانکہ بھارت کے ساتھ ہونے والی تمام جنگوں میں ہمارے فوجیوں اور شہریوں کی جانیں اتنی بڑی تعداد میں کام نہیں آئیں‘ جتنی جانیں دہشت گرد کسی جنگ کے بغیر لے چکے ہیں۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ ان کے لئے آج بھی کئی حلقوں میں ہمدردیاں پائی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر میں ایٹمی اسلحہ آ جانے کے بعد ‘ پاک بھارت جنگ محض مجذوب کا خواب ہے۔ جنگ کا خوف البتہ دونوں ملکوں کے حکمران طبقے اپنی اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ --------------

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved