کہتے ہیں سمندر سطح پر تو خاموش اور پُرسکون ہوتا ہے اور اس کی تہوں میں لہروں کا الٹ پھیر ہوتا ہے۔ یہی حال ظہور اخلاق صاحب کا بھی تھا۔ وہ بہت کم گو تھے لیکن ان کے اندر ایک بیقرار روح تھی۔ ٹورانٹو میں ظہور اخلاق اور شہرزاد کے آنے سے ایک ایسے گھر کا اضافہ ہو گیا تھا جس کے دروازے ہمارے لیے ہمیشہ کھلے رہتے۔ وہاں جا کر ہمیں یوں لگتا جیسے اپنے ہی گھر میں ہوں۔
اب پیچھے مُڑ کر دیکھتا ہوں تو ٹورانٹو کے وہ شب و روز جاگ اُٹھتے ہیں جو ظہور صاحب کے ہمراہ گزرے۔ ظہور اخلاق صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار مختلف صورتوں میں ہوتا۔ وہ پاکستان کے ایک منفرد مصور، مجسمہ ساز اور تعمیراتی فن کے ماہر تھے۔ ان کے فن پر ان کے گہرے مطالعے کے اثرات نمایاں تھے۔ وہ آرٹ کی مختلف تحریکوں سے وقف تھے اور پھر ممتاز مصور شاکر علی کی صحبت نے انہیں مصوری کے جدید رویوں سے روشناس کرایا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے ظہور صاحب کے فن کی اپنی دھج تھی۔ ان کی مصوری میں ادب، موسیقی، مجسمہ سازی، رقص اور تصوف کے رنگ اپنی بہار دکھاتے ہیں۔ جدت اور روایت ان کی مصوری میں گلے ملتے نظر آتے ہیں۔
ظہور صاحب کی شخصیت میں ایک دلربا معصومیت تھی۔ وہ معصومیت جو حیرت کے ساتھ مل کر مزید دل فریب ہو جاتی۔ وہ بتایا کرتے کہ وہ گیارہ بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ ان کی آنکھوں میں اب بھی بیتے دنوں کی حیرتوں کے رنگ نظر آتے تھے۔ دہلی کے ایک متوسط خاندان میں پیدا ہونے والے اس بچے نے بہت سی دنیاؤں کو دیکھنا تھا۔ ان کی زندگی کا اہم تجربہ 1947 میں دہلی سے لاہور ہجرت تھی۔ پھر فن کی دنیا کے سمندر میں شناوری انہیں برطانیہ اور امریکہ لے گئی‘ جہاں انہوں نے مصوری میں جدید رجحانات کو قریب سے دیکھا۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ لاہور کے معروف نیشنل کالج آف آرٹس میں پڑھا رہے تھے۔ ان کی شخصیت کچھ ایسی تھی کہ کوئی بھی ان سے ملتا تو ان کی چاہت میں گرفتار ہو جاتا۔ پھر ایک روز ان کے چاہنے والوں کی فہرست ایک نئے نام کا اضافہ ہوا۔ یہ شہرزاد تھیں۔ بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی دلکش شخصیت کی مالک شہرزاد جس نے لاہور کے کنیئرڈ کالج سے انٹرمیڈیٹ کیا تھا اور پھر تخلیقی سفر میں آگے بڑھنے کی اُمنگ اسے نیشنل کالج آف آرٹس لے آئی تھی۔ یہیں پر شہرزاد کی ملاقات ظہور اخلاق صاحب سے ہوئی اور پھر نوجوان اور دلکش شہرزاد نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیاکہ وہ باقی زندگی ظہور اخلاق کے ساتھ گزارے گی‘ لیکن یہ اتنی آسان بات نہ تھی۔ شہرزاد کے خاندان کا شمار لاہور کے انتہائی ممتاز گھرانوں میں ہوتا تھا۔ شہرزاد کے دادا محبوب عالم علی گڑھ ہاکی ٹیم کے کپتان تھے اور انتہائی وجیہ شخصیت کے مالک تھے۔ شہرزاد کے والد محمود عالم ٹینس کے معروف کھلاڑی تھے‘ جنہوں نے ڈیوس کپ میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ شہرزاد کی والدہ ثریا نے لاہور میں ایک نرسری سکول قائم کیا جو اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے جانا جاتا تھا۔ شہرزاد کے دو بھائی دنیا کے معروف یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ تھے اور شہرزاد ان کی اکلوتی بہن تھی۔ لاہور کے سب سے پوش علاقے میں ان کی کوٹھی تھی۔ یوں شہرزاد کی زندگی آسائشوں میں گھری ہوئی زندگی تھی‘ ایک ایسی زندگی جو ہر لڑکی کا خواب ہوتی ہے لیکن وہ عام لڑکی نہیں تھی۔ اس نے گھر میں ظہور اخلاق کا ذکر کیا تو ایک قیامت سی آ گئی۔ شہرزاد کے انتہائی متمول خاندان کے مقابلے میں ظہور اخلاق صاحب کی واحد دولت ان کا سرمایۂ فن تھا۔ دنیاوی آرام و آسائش ان کیلئے اجنبی تھے۔ شہرزاد گھر والوں کی مخالفت کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے ایک روز چپکے سے نئے سفر پر نکل گئی۔ وہ خوش تھی کہ اس سفر میں اسے ظہور اخلاق کا ساتھ میسر تھا۔
ٹورانٹو میں جب میں پہلی بار ظہور اور شہرزاد سے ملا تو ان کی شادی کو ایک عرصہ بیت چکا تھا اس دوران ان کی دو بیٹیاں جہاں آرا اور نور جہاں بھی سنِ شعور کو پہنچ چکی تھیں‘ لیکن ظہور اور شہرزاد کو دیکھ کر یوں لگتا‘ جیسے حال ہی میں ان کی شادی ہوئی ہے۔ شہرزاد جب ہنستیں تو ان کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہلکورے پڑتے اور اس کے دانت گجر گجر چمکنے لگتے۔ ظہور صاحب کے ساتھ رہتے رہتے شہرزاد کی شخصیت میں بھی تصوف کا رنگ آگیا تھا۔ وہ اکثر لمبا ساکرتا پہنتیں اور گلے میں مالا ہوتی۔
ظہور صاحب جب بھی کوئی تصویر بنانے کے عمل میں ہوتے اپنے اردگرد کو فراموش کر دیتے۔ وہ عام زندگی میں بھی بھلکڑ تھے۔ ایک روز وہ میرے دوستوں نصیر، فاروق اور ہارون کے ہمراہ ہمارے اپارٹمنٹ تشریف لائے۔ خوب محفل جمی، اس روز ظہور صاحب فارم میں تھے۔ گپ شپ ہورہی تھی، قہقہے لگ رہے تھے۔ پھر اچانک وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کے چہرے پر تشویش تھی۔ میں نے کہا: خیریت ہے؟ ظہور صاحب بولے: خیریت ہی تو نہیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ شہرزاد نے اس روز انہیں گھر سے سبزی لینے بھیجا تھا اور وہ دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں بھول ہی گئے تھے کہ گھر سے کس کام کیلئے آئے تھے۔
ظہور صاحب کے گھر جائیں تو دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ دیوار پر مدھوبالا کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر فریم میں لگی تھی۔ پھر ظہور صاحب کی پینٹنگز کے فریم نظر آتے۔ ان تصویروں میں سیاہ اور لال رنگ نمایاں تھے۔ ایک بار باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے معروف خطاط یوسف دہلوی سے باقاعدہ خطاطی بھی سیکھی تھی۔ موسیقی سے انہیں خاصی شغف تھا۔ ظہور صاحب کے گھر اکثر کوئی نہ کوئی تقریب ہوتی۔ ایک بار شہرزاد کے فن پاروں کی نمائش تھی۔ ہم سب دوست مدعو تھے۔ میں اور اسما گھر سے پکوڑے بنا کر ایک ہاٹ پاٹ میں لے گئے۔ شہرزاد دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور پھر کئی دنوں تک پکوڑوں کا ذکر ہوتا رہا۔ پھر ایک دن ظہور اور شہرزاد نے فون کیا کہ آج جہاں آرا کے کلاسیکل رقص کا ایونٹ ہے، آپ ضرور آئیے۔ اس رات جہاں آرا نے اپنے فن کا متاثر کن مظاہرہ کیا۔ بائیس تیئس سال کی عمر میں جہاں آرا نے سخت محنت سے فن کے مدارج تیزی سے طے کیے تھے۔
پھر وہ دن آ گیا جب ہم ٹورانٹو سے پاکستان کیلئے روانہ ہو رہے تھے۔ میری پی ایچ ڈی مکمل ہو چکی تھی اور ٹورانٹو میں رہنے والے دوستوں سے رخصت ہونے کا وقت آ گیا تھا۔ ظہور صاحب اور شہرزاد نے اپنے گھر الوداعی دعوت کا اہتمام کیا تھا۔ اس دعوت میں جہاں آرا بھی تھی۔ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ وہ اگر پاکستان واپس آئے تو کیا کیا مواقع ہیں۔ اس روز میں ان کے گھر سے نکلا تو ہوا سرد تھی۔ کچھ دور جاکر میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو ظہور صاحب، شہرزاد اور جہاں آرا دروازے پر کھڑے تھے۔ مجھے کیا خبر تھی میں انہیں آخری بار دیکھ رہا ہوں اور پھر کراچی کی یہ صبح جب تھوڑی دیر پہلے مجھے خبر ملی تھی کہ ظہور اخلاق اور نور جہاں کو لاہور میں قتل کر دیا گیا ہے۔ مجھے وہ روشن دن یاد آ رہا ہے جب ٹورانٹو میں‘ میں پہلی بار ظہور صاحب اور شہرزاد سے ملا تھا۔ میرا دل اچانک اس خیال سے ڈوبنے لگا کہ اب میں ظہور اخلاق، شہرزاد اور جہاں آرا کے مہربان اور محبت سے دمکتے ہوئے چہرے کبھی نہیں دیکھ سکوں گا۔ پھر میرا دھیان شہرزاد کی طرف چلا گیا۔ اب کبھی زندگی میں شہرزاد سے ملاقات بھی ہوئی تو کیا وہ وہی شہرزاد ہو گی جس کی بڑی بڑی آنکھوں میں ہر وقت مسکراہٹ ہلکورے لیا کرتی تھی۔ پھر میں سوچتا ہوں کہ وقت اور موت پل بھر میں کیسے سب کچھ بدل دیتے ہیں۔