قوم کئی تماشے ایک زمانے سے دیکھ رہی ہے۔ سیاست کے نام پر مچائی جانے والی دھماچوکڑی نے عشروں سے قوم کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ جو سوچنے بیٹھتا ہے وہ سوچ سوچ کر اپنے دماغ کا بیڑا غرق کرلیتا ہے مگر کچھ سمجھ نہیں پاتا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے یا کیوں کرایا جارہا ہے۔
دنیا بھر میں منتخب نمائندے اصلاً صرف اس لیے ہوتے ہیں کہ ریاستی اور انتظامی امور ڈھنگ سے چلائیں تاکہ عوام کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں مدد ملے۔ منتخب نمائندوں کا بھلا اور کیا کام ہونا چاہیے؟ ہمارا معاملہ بہت ہی عجیب ہے۔ یہاں قصہ یہ ہے کہ قوم جنہیں اپنی نمائندگی کے لیے منتخب کرتی ہے وہ دن رات صرف اور صرف اقتدار اور زیادہ سے زیادہ اختیارات کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
اس معاملے میں سازشیں بھی جائز ہیں اور دھوکا دہی بھی بُری چیز نہیں۔ معاملات اگر پارٹی کی سطح پر بھی ہوں تو کوئی غم کی بات نہیں کہ چلیے پارٹی نظریے کے ساتھ چلائی جارہی ہو تو ملک و قوم کو کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ یہاں تو معاملہ خالصاً ذاتی مفادات کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے قائدین ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہو کر کچھ کرنے کا سوچتے ہی نہیں۔ یہ تماشا قوم کم و بیش ساڑھے تین عشروں سے دیکھ رہی ہے۔ اس مدت کے دوران پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہے مگر ہوش کے ناخن لینے کی توفیق کم ہی سیاسی قائدین کو مل پائی ہے۔
ذاتی مفادات کا خیال رکھنے کی ذہنیت تو پوری دنیا میں پائی جاتی ہے۔ یہ کوئی ایسی انوکھی بات نہیں مگر مہذب معاشروں میں ذاتی مفادات کے لیے ایک حد تک جایا جاتا ہے۔ اپنی ذاتی عرض کے لیے پورے ملک یا سسٹم کو ٹھکانے لگانے کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔ جن میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ملک اور قوم ہیں تو ہم ہیں۔ کسی بھی فرد کا وجود پورے ملک اور قوم سے بڑھ کر نہیں ہوسکتا۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں کوئی بھی فرد چاہے جتنا طاقتور ہو‘ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر یا اپنی انا کی تسکین کے لیے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگاتا مگر ہمارے ہاں ایسا ہوتا رہا ہے اور اس پر کسی نے اب تک شرم بھی محسوس نہیں کی‘ اظہارِ ندامت بھی نہیں کیا۔
الجھنیں ہیں کہ ساتھ نبھاتے رہنے پر مُصِر ہیں۔ حالات کی خرابی کے وار ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آتے۔ ملک و قوم کے زخم مندمل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ وقت نے جو زخم لگائے ہیں اُن کی گہرائی بھی کم نہیں اور شدت بھی بے حساب ہے۔ جب مشکلات زیادہ ہوں تو اُنہیں دور کرنے کا عزم بھی بہت بلند ہونا چاہیے اور جوش و خروش کا غیر معمولی ہونا بھی ناگزیر ہے۔ ایک دنیا ہے کہ دکھ دیے جاتی ہے‘ زخم لگائے جاتی ہے اور ادھر ہم ہیں کہ ٹھنڈے ٹھار بیٹھے ہیں۔ آپس کی لڑائی اور مار کُٹائی سے فرصت ملے تو باہر کی طرف دیکھیں۔ قومی معاملات میں بیرونی مداخلت کا سلسلہ چار پانچ عشروں سے جاری ہے اور معاملات کی خرابی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب راتوں رات تمام معاملات کو اطمینان بخش حد تک درست نہیں کیا جاسکتا۔
قوم ایک بار پھر شدید سیاسی پیچیدگی کے ہاتھوں ذہنی خلفشار کا شکار ہے۔ معاشرے کے بیشتر معاملات میں تعطل نے یوں ڈیرا ڈال رکھا ہے کہ بحالی کی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ سیاست کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ سیاسی عدم خلفشار ختم ہو تو معیشت کی بحالی کا راستہ کھلے۔ جب تک اہلِ سیاست آپس میں معاملات طے نہیں کرلیتے اور حکومتی معاملات ڈھنگ سے چلانے کی راہ ہموار نہیں ہوتی تب تک معیشتی معاملات بھی تذبذب سے عبارت رہیں گے۔
قوم جس خلجان میں مبتلا ہے اُس کے خاتمے کی معقول ترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آئین کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت چلانے کی روش اپنائی جائے۔ جن کے ہاتھوں میں اس ملک کے تمام معاملات ہیں اُنہیں سوچنا چاہیے کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں۔ اس وقت جو سیاسی رونق میلہ لگا ہوا ہے قوم اُس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ متحمل نہ ہونے کا مطلب مر جانا نہیں ہے۔ قوم زندہ تو رہے گی مگر بے حالی کی حالت میں۔ اس وقت سیاست‘ معیشت‘ معاشرت سبھی کچھ الٹا پلٹا ہوا ہے۔ ایسے میں کچھ نیا سوچنا ضروری ہے۔
ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران جو کچھ بھی ہوا ہے وہ پوری قوم کے لیے بہت بڑے دردِ سر کا سبب بنا ہے۔ ہر شعبے کے سٹیک ہولڈرز کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ سٹیکس کی یہ رسّا کشی ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کاروباری برادری کا اعتماد متزلزل ہونے سے عمومی معاشی سرگرمیاں بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ اربابِ اختیار قوم کا بھلا سوچتے ہوئے ایسے اقدامات یقینی بنائیں جن کی مدد سے معاملات کو تیزی سے درست کیا جاسکے۔ کیا اس کے آثار ہیں؟ بالکل نہیں۔ جو اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ معاملات کی درستی کے حوالے سے کچھ بھی کرنے سے گریزاں ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہ ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کوئی قوم نہیں رہتی‘ گروہ رہتے ہیں۔ یہ گروہ مختلف بنیادوں پر قائم ہیں۔ کہیں نظریات کا معاملہ ہے تو کہیں نسلی جھکاؤ کا۔ لوگ ثقافت‘ (معاشی) طبقات اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر بھی منقسم ہیں۔ ایسے میں حقیقی اور مطلوب قومی وحدت پیدا کرنا بہت مشکل کام ہے۔ یہ مشکل کام جنہیں کرنا ہے وہ بھی منتقسم ہیں اور آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ہر فریق‘ ہر گروہ کو اپنے اپنے سٹیک کی پڑی ہے۔ قوم کا مجموعی سٹیک بھی محفوظ ہونا چاہیے یہ سوچنے کی توفیق جنہیں ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اُن کی پوزیشن بھی کچھ ایسی مضبوط نہیں کہ بات منواسکیں۔
ایک بڑی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ قوم کو ہر معاملے سے لذت کشید کرنے کی عادت پڑچکی ہے۔ بحرانی کیفیت میں بھی کوئی سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا۔ کسی بھی مشکل صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے جس قدر کاوش کی جانی چاہیے اُتنی کی نہیں جاتی۔ کسی بھی بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ ہوکر محنت کرنے کی روایت نے اب تک زور نہیں پکڑا۔ ملک سیاسی بحران کی زد میں ہے اور لوگ اس سے لطف کشیدکرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کی پوسٹیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب یہ قوم رونق میلے کی نفسیات اپناچکی ہے۔ غالبؔ نے کہا
اک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے
اب یہاں یہی معاملہ ہے۔ اب لوگ کسی بھی معاملے کی سنگینی کے بارے میں فکر مند ہوئے بغیر یہ دیکھتے ہیں کہ دل بستگی کا سامان کس قدر ہوسکتا ہے! گویا ؎
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی‘ نغمۂ شادی نہ سہی
کسی بھی مشکل صورتِ حال کو بھی بہت ہلکا لینا اور اُس سے لطف کشید کرنے کی کوشش کرنا پسماندہ معاشروں میں پایا جانے والا عام ذہنی مرض ہے۔ اور یہ ذہنی مرض ہمارے ہاں شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اس وقت معاشرے کے غالب حصے کی ایک بنیادی نفسی خصوصیت یہ ہے کہ کسی بھی مشکل کو مشکل سمجھا ہی نہ جائے‘ سنجیدہ ہوا ہی نہ جائے۔ یہ ایسی دل خراش حقیقت ہے جس کا ادراک کرتے ہوئے ہمیں تدارک کی طرف مائل ہونا چاہیے مگر ہم تو اس سے محظوظ ہو رہے ہیں!
پیچیدہ مسائل کو پیچیدہ سمجھنے سے گریز کا رجحان کسی بھی قوم کی نفسی ساخت کا بنیادی حصہ بن جائے تو معاملات کی درستی کی راہیں مسدود ہو جایا کرتی ہیں۔ کسی بھی قوم کی عظمت اس بات میں ہے کہ وہ کسی بھی بحرانی کیفیت کے سامنے سینہ تان کر کھڑی ہو اور اُس کے تدارک کے حوالے سے سوچتے ہوئے حکمتِ عملی ترتیب دے۔ ہر معاملے میں سراسر غیر سنجیدہ رویہ معاشروں کو لے ڈوبتا ہے۔ ایسی دو چار نہیں‘ درجنوں مثالیں ہیں کہ معاشرے اپنی اصلاح پر متوجہ نہ ہوئے اور ذلیل و خوار ہوئے۔ قوموں کی برادری میں توقیر اُنہی کے لیے ہے جو اپنی خامیوں کو شناخت کرکے دور کرنے پر متوجہ ہوتے ہیں۔ ہر خرابی کے بطن سے محظوظ ہونے کا موقع نکالنے یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی ذہنیت سے چھٹکارا پانا اب پوری قوم پر لازم ہوچکا ہے۔ اصلاحِ احوال راتوں رات ممکن نہیں۔ یہ عمل صبر آزما بھی ہوسکتا ہے اور محنت طلب بھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قوم کو ایثار بھی بہت کرنا پڑے گا۔
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک