فرمان ہے ’’اگر تمہیں یہ علم ہو جائے کہ تم اگلے لمحے مر جائو گے تب بھی وہ کھجور کا پودا جو تم لگا رہے ہو ضرور لگائو۔‘‘ ذہین اور باعلم قارئین کو یہ بتانے کی ہر گز ضرورت نہیں کہ کھجور کا پیڑ برسوں لگاتا ہے پھل دینے میں۔ ایسی رجائیت پر مبنی راہنمائی وروشنی کے باوجود وطنِ عزیز میں جس طرف نظر اٹھائیں مایوسی و ناامیدی نے امید کی شہہ رگ میں اس بری طرح اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیںکہ بقول غالب… کوئی صورت نظر نہیں آتی کوئی امید بَر نہیں آتی آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی اب کسی بات پر نہیں آتی مئی 2013ء کی ورلڈ بینک کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں تقریباً ساٹھ فیصد کے قریب لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں… ساٹھ فیصد زبان سے ادا کرنا آسان ہے … پاکستان میں ساٹھ فیصدکا مطلب ہے بارہ کروڑ کے قریب عوام… یعنی بارہ کروڑ لوگ بمشکل پانچ ہزار روپے مہینہ کما پاتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ مزید بتاتی ہے کہ ان میں سے بھی تقریباً ڈھائی کروڑ ایسے ہیں جو پانچ ہزار بھی نہیں بلکہ روزانہ زندگی کی دوزخ میں جلنے کے بعد بمشکل چوبیس سو روپے ماہانہ کما پاتے ہیں۔ یہ تلخ حقائق جاننے کے بعد پہلا خیال یہی آتا ہے کہ 2400 روپے میں زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے؟بجلی، پانی ، گیس، اشیائے خوردونوش، لباس کی ضروریات، بیماری ، صفائی کا انتظام، بچوں کی تعلیم، کیا یہ سب کچھ کوئی جن جادوگر ،معجزہ فروش بھی چوبیس سو روپے میں کر سکتا ہے؟ کیا چوبیس سو روپے میں اسحاق ڈار جیسے ماہر معیشت دان بھی کسی گھرانے کا بجٹ بنا سکتے ہیں؟ یقینا بابائے معیشت آدم سمتھ بھی اس کوشش میں منہ کے بَل آگرے۔ بس یہ خیال آنے کی دیر ہے پھر کیسی عید؟کہاں کی عید؟ قنوطیت چھا جاتی ہے ۔ نئے کپڑے اور جوتے جو اہلیہ خرید کر لائی تھیں باوجود گھر والوں کے اصرار کے پہننے کو دل نہیں کرتا کہ جہاں تقریباً 12کروڑ اہل وطن بمشکل جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوں وہاں عمدہ کھانا کھاتے، اچھا کپڑا پہنتے، کوئی اچھی قیمتی شے استعمال کرتے شرم آتی ہے۔ خدا گواہ ہے قیمتی کپڑا پہن کر خود سے نظریں نہیں ملائی جاتیں۔ یہ فقط میرا حال نہیں ہے۔ اس ملک میں بیشتر سوچنے والے سینسیٹیو لوگ اسی المیے کا شکار ہیں۔ زندہ ہیں مگر عوام کی غربت و بے بسی دیکھ کر زندگی سے بیزار ہیں۔ شکیب جلالی کے مختصر سے مجموعۂ کلام میں عید پر پائی جانے والی امیر وغریب کے اسی تفاوت پر ایک نہیں دو نظمیں ہیں۔ دونوں نظمیں باکمال، بے مثال ہیں۔ برسوں پہلے لکھی جانی والی دونوں نظمیں یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ دہائیوں پہلے بھی ارضِ پاک پہ بسنے والے غرباء کی حالت آج جیسی ہی ابتر تھی۔ یہ الگ بات کہ اب بد سے بدتر ہو چکی ہے ۔ پاتال کی بھی عمیق ترین گہرائیوں میں پہنچی ہوئی قوم ہو چکے ہیں ہم۔ سچی بات یہ ہے کہ خواہش میری یہی تھی کہ عید کے دنوں میں کوئی ہلکا پھلکا سا کالم نذر قارئین کرتا مگر کیا کروں ۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجے شکیب کی ایک نظم کا عنوان ہے جشنِ عید… اور دوسری ہے عید کی بھیک… آج ایک ہی نظم درج کروں گا کہ اس سے زیادہ کیا بدمزہ کروں آپ کی عید۔ نظم ایک بھکاری کا نقطہ نظر ہے۔ جن کی تعداد یقینا شکیب جلالی کے دور سے بڑھ کر آج کئی گنا ہو چکی ہے۔ نظم کا آخری مصرعہ تو کلیجہ نکال لیتا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ آخری شعر اور خصوصاً آخری مصرعہ تقریباً 12 کروڑ بلکہ تقریباً 20 کروڑ کے قریب پاکستانیوں کی صدا ہے جن کے حقوق 2فیصد اشرافیہ نے غصب کر رکھے ہیں۔ انہیں ایک مجبور اورحقیر زندگی گزارنے تک محدود کر دیا ہے سو شکیب کی ’’عید کی بھیک‘‘ کے ساتھ اجازت… حضور، آپ مرے مائی باپ، اَن داتا حضور، عید کا دن روز تو نہیں آتا حضور، آج تو نذرِ علیؓ، نیازِ رسولؐ حضور، آپ کے گھر میں ہو رحمتوں کا نزول حضور، آج ملے جان و مال کی خیرات حضور، آپ کے اہل و عیال کی خیرات حضور، احمدِؐ مرسل کی آل کا صدقہ حضور، فاطمہؓ زہرا کے لال کا صدقہ حضور، آپ کی اولاد و آبرو کی خیر حضور، آپ کے بیٹے کی اور بہو کی خیر حضور، آپ کے بچے جئیں، پھلیں پھولیں حضور، آپ عزیزوں کی ہر خوشی دیکھیں حضور، آپ کو مولا سدا سُکھی رکھے حضور، آپ کی جھولی خدا بھری رکھے حضور، نامِ خدا کا رِخیر فرمائیں حضور، آپ کے دل کی مرادیں برآئیں حضور، آج گداگر کو بھیک مل جائے حضور، کب سے کھڑا ہوں میں ہاتھ پھیلائے حضور، آنے دو آنے کی بات ہی کیا ہے حضور، آنکھیں چرانے کی بات ہی کیا ہے حضور، میری صدائوں پہ غور تو کیجے فقیر یہ نہیں کہتا، گلے لگا لیجے فقیر یہ نہیں کہتا، گلے لگا لیجے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved