تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     15-04-2022

تاریخی دھاندلی کا ذکر

جو کچھ میں اس صفحے پر لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں‘ اس کا وطنِ عزیز کی اشرافیہ‘ موروثی خاندانی سیاست‘ لوٹا بازی‘ سیاسی قلابازیوں‘ گھوڑوں کی خرید و فروخت‘ بند کمروں میں فیصلوں اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے آج کے حالات یا ماضی کی تاریخ سے بالکل کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ صاف ستھرے‘ دھلے دھلائے‘ نیک پاک حکمرانوں کا ملک ہے‘ ہمارا تو کبھی نہ تھا‘ اور نہ امکان ہے۔ یہاں دھاندلی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شکر ہے کہ یہاں آئین کی بالا دستی ہے‘ پارلیمان مقتدر ہے‘ عدالتیں فیصلے بروقت کرتی ہیں بلکہ ضرورت پڑے تو آدھی رات کو بھی دروازے کھول کر انصاف فراہم کرتی ہیں‘ میڈیا آزاد ہے‘ کوئی پسِ پشت مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرتا اور عوام میں ہر بننے بگڑنے والی حکومت مقبولیت کا نیا معیار قائم کرتی ہے۔ یہ قصہ ہے امریکہ میں ہونے والی تاریخی دھاندلی کا‘ اور اس بارے میں کہ پھر اس کے بعد کیا ہوا۔ ہمیشہ عرض کرتا ہوں کہ تاریخ عالم کھلی کتاب ہے۔ آنکھوں میں روشنی اور دل و دماغ میں رغبت ہو تو بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے‘ اور جو تاریخ کو کتابوں ہی میں بند رکھتے ہیں‘ ان کا حشر ان شخصیات جیسا ہوتا ہے‘ جنہیں وقت نے دھتکارا‘ اور عزت و وقار ان سے چھین کر پستیوں میں ڈال دیا۔ آج کل میر جعفر اور میر صادق کے بد ناموں کی گونج ہر جگہ سنائی دے رہی ہے۔
امریکی سیاسیات کی پہلی نصف صدی میں صدارتی امیدواروں کی نامزدگی کانگریس کے اندر غالب حکمران ٹولہ کرتا تھا‘ اور ہمیشہ وہی امیدوار بھاری اکثریت سے صدر منتخب ہو جاتا۔ 1824 کے صدارتی انتخابات لیکن یکسر مختلف ثابت ہوئے۔ ولیم کرافورڈ کانگریس کے اندر ڈیموکریٹک- ری پبلکن دھڑے کے سرکاری امیدوار تھے۔ دوسرے امیدواروں نے شور مچایا کہ میدان سب کے لیے کھلا ہونا چاہیے اور ایسے فیصلے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کرنے سے گریز کرے۔ کم از کم چار اور امیدواروں نے صدارتی انتخابات میں پُرجوش حصہ لیا۔ جب نتائج سامنے آئے تو غالب دھڑا سکتے میں آ گیا۔ ان کا امیدوار پانچویں پوزیشن حاصل کر سکا تھا‘ کم سے کم ووٹ۔ ایک غیر روایتی امیدوار اینڈریو جیکسن الیکٹورل کالج کے ننانوے ووٹ لے کر پہلے نمبر پر آیا تھا۔ جیکسن کی حیثیت ایک قومی ہیرو کی تھی۔ ان کی وجۂ شہرت کرکٹ کے میدان میں نہیں بلکہ 1812 کی برطانیہ اور آبائی قبیلوں کے خلاف جنگ میں امریکی فوجوں کو فتح یاب کرانے کی تھی۔ اس سے قبل وہ ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے ممبر بھی رہ چکے تھے۔ دوسری پوزیشن پر جان کوئنسی ایڈیم (John Quincy Adams) تھے‘ جو ملک کے ماضی کے ایک صدر کے فرزند تھے‘ یعنی موروثی سیاست دان۔ انہوں نے چوراسی ووٹ حاصل کئے تھے۔ یہاں ہم الیکٹورل کالج کے ووٹوں کی بات کر رہے ہیں‘ جو ہر ریاست کو اس کے ایوانِ نمائندگان اور سینیٹ کے اراکین کے برابر آج بھی ملے ہوئے ہیں۔ صدارتی امیدواروں کے ووٹ ہر ریاست میں عوام ڈالتے ہیں‘ مگر ہر ریاست میں عوامی اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار اس ریاست کے سارے الیکٹورل کالج ووٹ اپنے نام کر لیتا ہے۔ شروع سے آج تک یہی نظام برقرار ہے۔
اب ہم مجموعی قومی ووٹوں کی طرف آتے ہیں۔ اینڈریو جیکسن کے حق میں تینتالیس فیصد ووٹ پڑے۔ دوسرے نمبر پر ایڈم تھے‘ جن کا قومی ووٹوں میں حصہ تیس فیصد تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ الیکٹورل کالج میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ تعداد حاصل نہ کر سکا تھا۔ اگر ایسا ہو تو امریکی آئین میں اس کا حل یہ ہے کہ ایوانِ نمائندگان‘ جیسے ہماری قومی اسمبلی ہے‘ میں فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا لحاظ رکھا جاتا ہے یا ہیرا پھیری سے کام لیا جاتا ہے۔ ایوان نے پہلی دو پوزیشنیں لینے والے امیدواروں میں سے ایک کو منتخب کرنا تھا۔ مقابلہ اینڈریو جیکسن اور جان کوئنسی ایڈم کے درمیان تھا۔ اس مرحلے پر سب سے بڑا کردار ایوانِ نمائندگان کے سپیکر ہینری کلے (Henry Clay) کا تھا۔ انہی صدارتی انتخابات میں وہ خود بھی امیدوار تھا‘ مگر اس کی چوتھی پوزیشن تھی۔ کلے نے اینڈریو جیکسن پر انتخابی مہم کے دوران اس قسم کے ذاتی حملے کئے تھے جو ہمارے قبلہ محترم‘ لاہور اور نواب شاہ والے عمران خان صاحب پر کرتے آئے ہیں۔ ویسے خان صاحب نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی‘ حملے ان سے بڑھ کر کئے ہیں۔ خیر ہم تو یہاں کی بات نہیں کر رہے۔ وہاں بھی ذاتی مخاصمت اتنی بڑھ چکی تھی کہ کلے نے ٹھان لی کہ اینڈریو جیکسن کو‘ جس کے پاپولر اورالیکٹورل کالج ووٹ زیادہ تھے‘ منتخب نہیں ہونے دینا۔یاد دہانی کے لیے عرض کر دوں کہ اس وقت سپیکر کا عہدہ کلیدی ہوا کرتا تھا‘ اب بھی کسی درجے میں ایسا ہی ہے۔ اس نے ہمارے جیسی فنکاریاں دکھائیں اور دوسری پوزیشن‘ اور وہ بھی کوسوں پیچھے رہنے والے کوئنسی ایڈم کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اسے جتوا دیا۔ اس نے مطلوبہ تعداد میں سیاسی گھوڑوں کو خریدا اور کام دکھایا‘ مگرشرط یہ تھی کہ صدر کا عہدہ حاصل کرنے کے وہ بعد ایڈم کلے کو وزارت خارجہ کا قلم دان سونپے گا۔ امریکہ کی تاریخ میں وزارت خارجہ کابینہ کی درجہ بندی میں اعلیٰ ترین خیال کی جاتی ہے۔ شواہد موجود ہیں کہ کئی ایسے وزرا نے اس پوزیشن کو صدارتی امیدوار بننے کے لیے استعمال کیا۔ ہینری کلے کا بھی یہی خواب تھا۔ یہ تاریخی دھاندلی عوام کے سامنے ہوئی‘ مگر اس وقت آج کا سوشل میڈیا نہیں تھا‘ لیکن شہر شہر‘ گلی گلی دھاندلی کا ایسا شور اینڈریو جیکسن نے برپا کیا کہ امریکی صدر ایڈم اور سیکرٹری آف سٹیٹ کلے منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔
الزام نہیں حقیقت تھی کہ اس ''کرپٹ ڈیل‘‘ میں عوام شامل نہیں تھے۔ یہ تب کی ہمارے جیسی سیاسی اشرافیہ کی ملی بھگت کا نتیجہ تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ اینڈریو جیکسن کی اکثریت نہ تھی‘ اگر ایسا ہوتا تو اس دھاندلی کی نوبت ہی نہ آتی۔ وہاں بھی دھاندلی زدہ حکومت نے وہی کیا جو ایسی حکومتیں بعد کی تاریخ میں کرتی آئی ہیں‘ یعنی طاقتور حلقوں کے نمائندوں کو نوازیں‘ ترقیاتی فنڈز مہیا کریں‘ اعلیٰ عہدوں پر ان کے رشتے داروں اور ہرکاروں کو فائز کریں‘ اور دھاندلی میں کلیدی کردار ادا کرنے والوں کو کابینہ میں جگہ دیں۔ آپ خواہ مخواہ برا نہ منائیں‘ میں پاکستان میں موجودہ صورت حال کی بات ہرگز نہیں کر رہا کہ ہم تو اسلامی جمہوری ملک ہیں‘ ایسا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ یہ کہانی تو امریکہ کے پہلے پچاس سالوں کے سفر کی ہے۔
اینڈریو جیکسن اپنا مقدمہ عوام کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کر کے تاریخ کی لمبی مہم پر چل پڑا۔ یہ ہم انیسویں صدی کی بات کر رہے ہیں‘ جب وسائل محدود تھے‘ اس نے جگہ جگہ عوامی میلے لگائے تو لوگ جوق درجوق اس کے قافلے میں شامل ہوتے گئے۔ اگلے چار سال تک وہ عوام کا امریکہ کی کرپٹ جمہوریت اور اس پر قابض سیاسی اشرافیہ کی بے ایمانیوں کے خلاف آگہی پیدا کرتا اور شعور جگاتا رہا۔ ملک کے کونے کونے میں جلسے کئے اور لوگوں تک اپنا موقف پہنچایا۔ اگلے انتخابات میں وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا۔ پہلی مرتبہ امریکی جمہوریت اشرافیہ کی چیرہ دستیوں سے آزاد ہو کر عوام کی عدالت میں جا پہنچی۔ اینڈریو جیکسن نے جمہوریت کا رنگ اور رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔ عوام اپنے مقدر کا فیصلہ اب خود کرنے لگے‘ اور پہلی مرتبہ جمہوریت عوامی کہلانے لگی۔ ہم بھی سن اور دیکھ رہے ہیں کہ کپتان تاریخ کے بہت بڑے جلسے کر رہا ہے۔ مقدمہ اس کا اب عوام کی عدالت میں ہے۔ لگتا ہے اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ دیکھیں ہماری جمہوریت موروثیوں سے آزاد ہوتی ہے کہ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved