گزشتہ جمعرات کوئٹہ میں خود کش حملے میں پولیس کے جن بہادر افسران نے جام شہادت نوش فرمایا۔ وہ اپنے ایک ساتھی افسر کی نماز جنازہ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ اس افسر کو اسی روز شہر کے بارونق علاقے میں دن دیہاڑے ’’نامعلوم مسلح افراد‘‘ نے گولیوں کا نشانہ بنایا تھا۔ یہ نامعلوم موٹرسائیکل سوار حملہ آور حسب روایت واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ اب تک نہ ان کے موٹر سائیکلوں کا اور نہ ان کا کوئی سراغ ملا۔ اب تک ہزاروں ایسے نامعلوم حملہ آور واردات کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور ان میں سے کسی کا نہ تو پتہ چل سکا اور نہ کوئی گرفتار ہوسکا۔ حالانکہ ہمارے پاس ایک بھاری بھرکم انٹیلی جنس انفراسٹرکچر موجود ہے۔ سترھویں صدی کے مشہور سیاسی فلاسفر تھامس ہالبس (Thoms Holbes) کا کہنا تھا کہ ریاست کی سب سے اہم اور بنیادی ذمہ داری اپنے شہروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے اور جو حکومت اس میں ناکام رہے، اسے اقتدار میں رہنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایسی صورت حال میں لوگ اس طاقت کی طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں جو ان کو تحفظ فراہم کرسکے۔ خواہ وہ طاقت اندرونی ہو یا بیرونی۔ کیوں کہ عدم تحفظ کی صورت میں شہریوں کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے اور ان کا حال بھی محفوظ نہیں ہوتا۔ کاروبار زندگی معطل ہو کر رہ جاتاہے اور قومی ترقی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس لیے جو لوگ حکومت کو اپنا جمہوری حق سمجھتے ہیں اور عوام کو معاشی ترقی کی نوید سنا رہے ہیں ،ان پر یہ امر پوری طرح واضح ہونا چاہیے کہ امن و امان اور استحکام کے بغیر یہ خواب ادھورے رہ جائیں گے۔ اس لیے حکومت وقت کے سامنے اگر اولین ترجیح امن و امان کا قیام اور معاشی ترقی کی بحالی ہے تو انہیں سر جوڑ کر اس بات کا حتمی فیصلہ کرنا پڑے گا کہ سب سے پہلے دہشت گردی کا قلع قمع ہو اور پھر اس کے بعد ایجنڈے کے باقی نکات پر عملدرآمد شروع کیا جائے۔ لیکن حکومت کی جانب سے اس سمت میں ابھی ابتدائی اقدامات کے آثار بھی نظر نہیں آتے۔ آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز کی ناکامی کے بعد یوں نظر آتا ہے کہ حکومت کے پاس کوئی متبادل لائحہ عمل نہیں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ اس ماہ کے وسط تک انسداد دہشت گردی کے لیے حکمت عملی کا حتمی ڈرافٹ تیار کرلیا جائے۔ تاہم اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ یہ حکمت عملی سابقہ حکمت عملیوں سے مختلف ہوگی جنہیں پہلے مشرف اور پھر پیپلزپارٹی کے دور میں بری طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا یہ مقصد تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قومی اتفاق رائے پر مبنی پالیسی وضع کی جائے لیکن مختلف سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ظاہر کیے گئے ردعمل اور خصوصاً تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے رویّے کے بعد اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس مسئلے پر تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیاں جیسے پیپلزپارٹی، اے این پی اور ایم کیو ایم کا دہشت گردی پر موقف بالکل واضح ہے اور وہ اسے انتہا پسندانہ سوچ کی پیداوار سمجھتے ہیں۔ ان سیاسی پارٹیوں نے اس کے خلاف سینہ سپر ہو کر مقابلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں بھاری نقصان اٹھایا ہے۔ اے این پی کو لے لیجیے، بشیر احمد بلور جیسے سینئر لیڈر اور متعدد ممبران قومی وصوبائی اسمبلی کے علاوہ اے این پی کو پانچ سو سے زائد سیاسی کارکنوں کی جان کا نذرانہ دینا پڑا، پھر بھی اے این پی نے دہشت گردوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کو بھی اپنی لیڈر محترمہ بینظیر بھٹو کی قربانی دینی پڑی۔ اس طرح کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں ہیں جنہوں نے دہشت گردی کے بارے میں ایک مخصوص موقف اپنا رکھا ہے اور وہ کھلم کھلا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ امریکہ کے خلاف جنگ کاحصہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت جمعیت العلمائے اسلام کی طرف سے بلائی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک سیاسی جماعتیں، دہشت گردوں کے لیے دہشت گرد کا لفظ استعمال کرنے پر تیار نہیں تھیں۔ کچھ مذہبی سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو ان دہشت گردوں کو مجاہد سمجھتی ہیں، حالانکہ ان کے ہاتھوں چالیس ہزار سے زائد بے گناہ شہری جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، اپنی جانیں گنوا چکے ہیں اور وہ سب کے سب پاکستانی تھے۔ عمران خان ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کو ڈرون حملوں کی پیداوار سمجھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک امریکہ افغانستان میں موجود ہے، پاکستان میں دہشت گردی جاری رہے گی لیکن اب تو امریکہ افغانستان سے رخت سفر باندھ کر کوچ کرنے والا ہے بلکہ اس کی واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ افغانستان میں دفاعی ذمہ داری اب افغان فوج اور پولیس کے ہاتھ میں ہے اور وہ طالبان کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے مختلف حصوں میں تحریک طالبان پاکستان کے خودکش بمبار مسجدوں، مارکیٹوں حتی کہ جنازہ پڑھنے والوں کو کیوں اپنے حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں؟ عمران خان سے پوچھنا چاہیے کہ ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے دو ممبران صوبائی اسمبلی کو ہلاک کرکے اورڈیرہ اسماعیل خان کی جیل سے سینکڑوں خطرناک قیدی رہا کروا کر تحریک طالبان پاکستان نے امریکہ کے خلاف ’’جہاد‘‘ کی کون سی بڑی خدمت کی ہے؟ دہشت گردی کے مسئلے پر قوم مکمل کنفوژن کا شکار ہے۔ اس لیے قومی اتفاق رائے کے حصول کی تلاش ایک سعی لاحاصل ہے۔ حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کو عوام اور خصوصاً ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب نے بھاری مینڈیٹ دیا ہے۔ اس مینڈیٹ کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے پر ایک واضح اور جرأت مندانہ موقف اختیار کرے۔ اسی موقف کی روشنی میں ایک جامع اور موثر حکمت عملی وضع کرے اور پھر عوام کو اعتماد میں لے کر اس پر پوری طرح عمل کرے۔ جو عناصر دہشت گردی کے جواز میں مختلف تاویلیں پیش کررہے ہیں، عوام ان کے عزائم سے بخوبی واقف ہیں اور جس طرح انتخابات میں لوگوں نے ان کے موقف کو رد کیا، اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی لوگ موجودہ برسراقتدار پارٹی کا ساتھ دیں گے، بشرطیکہ جنگ کے اہداف اور ان کے حصول کے لیے تیار کردہ لائحہ عمل سے حکمران جماعت کی صاف اور شفاف پالیسی منعکس ہو۔بیرونی طور پر صورت حال اور بھی مخدوش ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھانے کے باوجود دنیا میں یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان کی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائی میں ناکام رہی ہیں۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے عالمی برادری کے تقریباً تمام اہم حلقے اس بات پر مصر ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی حکومت اور ریاستی اداروں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ حلقے اسے صرف پاکستان کیلئے ہی نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی امن، سلامتی اور استحکام کے لیے بھی خطرناک سمجھتے ہیں۔ خصوصاً اب جبکہ آئندہ ایک برس میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا مکمل ہونے والا ہے۔ افغانستان کے ہمسایہ ممالک یعنی ایران اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ اس خطے سے وابستہ مفادات کی حامل طاقتوں مثلاً روس، چین، امریکہ اور بھارت میں اس غیر یقینی اور خطرناک صورتحال پر سخت تشویش پائی جاتی ہے اور اگر پاکستان نے آگے بڑھ کر حالات کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں نہ لیا تو علاقائی یا عالمی سطح پر دنیا کے اس حصے میں امن و استحکام کے قیام کے لیے کوئی بھی اقدام کیا جاسکتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved