پاکستان میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم سمیت دیگر چھوٹی جماعتوں کے اتحاد سے نئی کابینہ تشکیل دی جا رہی ہے۔ بظاہر اس تبدیلی کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت تقریباً آٹھ روپے کم ہوئی ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں 1700 پوائنٹس اضافہ ہوا ہے جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس سے پہلے 5 جون 2017ء کو 1566 پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا تھا۔ میں پچھلے کالم میں ذکر کر چکا ہوں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ مصنوعی تھا۔ نئی حکومت نے نہ تو مارکیٹ میں ڈالرز پھینکے اور نہ ہی برآمدات میں کوئی اضافہ ہوا‘ اس کے باوجو دو دِنوں میں ڈالر کا ریٹ 8 روپے کم ہونا اس دعوے کو تقویت دیتا ہے کہ بڑے بروکرز غیر یقینی سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالرز کی خریدو فروخت اور سٹے کے ذریعے مصنوعی طلب پیدا کر رہے تھے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ درآمدات اور برآمدات کے حساب کتاب کے مطابق ڈالر کی قیمت 155روپے سے تجاوز نہیں کرنی چاہیے۔ مستقبل میں سٹاک مارکیٹ اور ڈالر کی قیمت کیا ہو گی‘ اس کا انحصار نئی حکومت کے اتحاد کی مضبوطی پر ہو سکتا ہے۔نئی حکومت کی مدت کے حوالے سے اتحادی جماعتوں کے ذمہ داران کی جانب سے جو بیانات سامنے آ رہے ہیں‘ ان سے مستقبل کی صورتحال کا اندازہ لگانے میں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ شاہد خاقان عباسی کے مطابق الیکشن اگلے سال اگست میں‘ خورشید شاہ صاحب کے مطابق اگلے چھ ماہ میں اوراسحاق ڈار صاحب کے مطابق انتخابات فوری بھی ہو سکتے ہیں۔اس وقت حکومت کو ایک واضح لائحہ عمل طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال رہ سکے اور دوبارہ غیر یقینی کی صورتحال پیدا نہ ہو۔
اگر زمینی حقائق پر بات کریں تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ نئی حکومت کو مشکل چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے جن میں پٹرولیم مصنوعات پر 40روپے تک کی سبسڈی اور آئل کمپنیوں کے پاس تیل درآمد کرنے کے لیے ڈالر کی کمی جیسے ایشوز سرفہرست ہیں۔آئل کمپنیوں کے پاس ڈالرز کی کمی کے باعث ملک میں لوڈ شیڈنگ کی جا رہی ہے۔یہ صورتحال معاشی عدم استحکام کی غماز ہے۔شاید اسی لیے قومی معاشی ایڈوائزری کونسل کی تشکیلِ نو کی جا رہی ہے۔ حکومت کا یہ بیان بھی شدید معاشی بحران کی طرف اشارہ کرتا دکھائی دے رہاہے کہ ''سب سے بڑا چیلنج تباہ حال معیشت اور مہنگائی پر قابو پانا ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی خزانہ خالی چھوڑ کر گئی ہیــ‘‘۔ البتہ اس بیان کے حوالے سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کے حامی بہترین معاشی اعدادوشمار چھوڑ کر جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں جبکہ نئی حکومت مختلف منظر پیش کر رہی ہے۔
شہباز گل صاحب نے ٹویٹ کیا ہے کہ تحریک انصاف 22 ارب ڈالرز کے زرمبادلہ کے ذخائر چھوڑ کر جا رہی ہے۔ اس حوالے سے سٹیٹ بینک کا ریکارڈ مستند دلیل مانا جا سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر 17 ارب 40 کروڑ ڈالر ہیں جن میں سے سٹیٹ بینک کے پاس صرف 11 ارب 30 کروڑ ڈالر ہیں۔ 6 ارب 10 کروڑ ڈالرز دیگر بینکوں کے پاس ہیں۔ سٹیٹ بینک کے پاس موجود ذخائر میں سے 4 ارب ڈالرز چین، 3 ارب ڈالرز سعودی عرب، 2 ارب 45 کروڑ ڈالرز متحدہ عرب امارات اور 500 ملین ڈالرز قطر نے پاکستان کو پارک کرنے کے لیے دے رکھے ہیں یعنی پاکستانی ملکیتی تقریباً 1 ارب 30 کروڑ ڈالرز ہیں۔ اس کے علاوہ وزارتِ خزانہ کے مطابق اس سال تقریباً 5600 ارب روپے سے زیادہ کا بجٹ خسارہ ہو سکتا ہے۔ کمپنیوں کا 8 سو ارب روپے کا خسارہ ان کے علاوہ ہے۔ تجارتی خسارہ 45 ارب ڈالرز سے تجاوز کرنے کی اطلاعات ہیں۔ یہ اعدادوشمار پاکستانی معیشت کیلئے خطرے کی گھنٹی بجانے کیلئے کافی دکھائی دیتے ہیں۔ نئی حکومت کو بجٹ خسارہ کم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ نئی حکومت کیا اقدامات کر سکتی ہے؟ بظاہر پاکستان کے پاس شاید اس وقت زیادہ آپشن نہیں بچے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر عمل درآمد کرنا ناگزیر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ وزیراعظم پاکستان کے سعودی عرب اور چین کے دوروں کی اطلاعات بھی زیر گردش ہیں۔ ممکنہ طور پر پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے کیلئے مزید مدد مانگی جا سکتی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ دوست ممالک ایک مرتبہ پھر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کر سکتے ہیں۔ملک کو کس طرح ڈیفالٹ سے بچایا سکتا ہے‘ یہ جاننے کیلئے سری لنکا کے موجودہ حالات کی وجوہات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
سری لنکن حکومت نے ملکی قرضے 52 ارب ڈالرز سے متجاوز ہونے پر‘ سرکاری سطح پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ سری لنکا کے زر مبادلہ ذخائر 1 ارب 93 کروڑ ڈالرز ہیںجبکہ اس نے امسال 4 ارب ڈالر قرض کی مد میں ادا کرنا تھے۔ اگلے ہفتے سری لنکا کو 70 ملین ڈالرز انٹرنیشنل سورین بانڈز کی مد میں ادا کرنا ہیں لیکن اب اس کے پاس ڈالرز نہیں ہیں۔ حال ہی میں سری لنکا کے سینٹرل بینک کا چیف تبدیل کیا گیا ‘شرحِ سود دو گنا کر دی گئی۔ مگر سوال یہ ہے کہ سری لنکا نے ایسی کیا غلطی کی کہ حالات اس قدر خراب ہو گئے کہ اسے خود کو دیوالیہ ڈکلیئر کرنا پڑا۔ سرکاری موقف ہے کہ ''سری لنکا کی معیشت کا انحصار سیاحت پر ہے۔ کووِڈ 19 اور یوکرین‘ روس جنگ کی وجہ سے سیاحت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ تین سال قبل سری لنکا میں گرجا گھروں پر ہونے والے بم حملوں کی وجہ سے بھی سیاح سری لنکا کا رخ نہیں کر رہے‘‘،تاہم ڈیفالٹ ہونے کے لیے یہ وجوہات ناکافی دکھائی دیتی ہیں۔ دور اندیش حکمران آنے والے خطروں کی تیاری کر کے رکھتے ہیں۔ اگر ایک شعبے سے آمدن کم ہو رہی ہے تو دیگر شعبوں پر بروقت کام کر کے برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں لیکن مبینہ طور پر سری لنکن سرکار کی کمزور معاشی ٹیم اور غیر حقیقی فیصلوں نے بحران کو جنم دیا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم کرنے کے لیے کھاد کی درآمدات پر پابندی لگا دی گئی جس سے کھانے کی اشیا کی قلت پیدا ہو گئی۔ برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ نہیں دی گئی نتیجتاً درآمدات بڑھتی چلی گئیں۔ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبے شروع کیے گئے جس سے قرض بڑھتے رہے۔ سرکار نے ملکی کرنسی کی قدر بھی کم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جب تیل اور اشیائے خورو نوش خریدنے کے لیے وسائل ختم ہو گئے تھے تو ایک ہی جھٹکے میں کرنسی کی ویلیو30 فیصد تک گرانا پڑی۔دو کروڑ بیس لاکھ آبادی کے ملک کی درآمدات اس کی برآمدات کے مقابلے میں 3 ارب ڈالر زیادہ تھیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی قائدین اس بحران کو آتا دیکھ نہیں سکے تھے یا انہوں نے جان بوجھ کر ملک کو اس نہج پر پہنچایا؟ اس حوالے سے کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی لیکن مبینہ طور پر کرسی نہ چھوڑنے اور اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی روش نے موجودہ صورتحال کو جنم دیا۔ سری لنکا میں ایک بھائی صدر اور دوسرا وزیراعظم ہے۔ اہم وزارتیں رشتہ داروں اور قریبی دوستوں میں بانٹی گئی ہیں۔ چالیس کے قریب ممبران اسمبلیوں سے مستعفی ہو گئے ہیں لیکن سرکار ہار ماننے کو تیار نہیں اور ساری توجہ اپوزیشن کو اس بحران کا ذمہ دار ٹھہرانے پر ہے۔
پاکستانی سیاستدانوں کو سری لنکا کی صورتحال سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اختلافات کو طول دینے کے بجائے ملکی مفاد میں اکٹھے بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا ناگزیر دکھائی دے رہا ہے۔ شاید اب بھی وقت سیاسی قائدین کے ہاتھ میں ہے۔