خان صاحب! السلام علیکم‘ دعا ہے کہ آپ صحت اور عافیت کے ساتھ رہیں، آپ کی زندگی محفوظ رہے کیونکہ آپ ایک قیمتی آدمی ہیں اور ہمیں یقینا آپ کی ضرورت ہے۔
میں ان لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے آپ سے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی تھیں اور بہت سی توقعات چکنا چور ہو جانے کے باوجود آپ کی ان گنت صلاحیتوں اور قربانیوں کے قائل اور معترف ہیں۔ ان کروڑوں لوگوں میں میری ایک شناخت یہ بھی ہے کہ میں نظم/ نثر میں اور ایک بڑے اردو اخبار کے کالمز میں عموماً آپ کے حق میں لکھتا رہا ہوں۔ اظہار کی یہ سہولت مجھے ان گنت لوگوں پر فوقیت دیتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ آپ اتنی بڑی اور اہم مصروفیات کے باعث نہ مجھ جیسے ایک عام آدمی سے واقف ہیں نہ میری تحریروں سے۔ میں اس وقت بھی خود کو متعارف کرانے کے لیے یہ خط نہیں لکھ رہا بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے ایک خیر خواہ کی حیثیت سے مجھے آپ کو براہ راست مخاطب کرنے کا حق ہے اور میرا یہ خط بھی صرف اور صرف خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اس میں آپ کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے آپ سے براہ راست ملنے اور قریب سے دیکھنے کا بھی ایک دو بار اتفاق ہوا۔ رو برو بیٹھ کر آپ کی گفتگو اور تقریریں بھی سنیں اور ٹی وی اور میڈیا پر بھی آپ کے بیانات سنتا اور پڑھتا رہا ہوں۔ دیگر لوگوں کے مشاہدات اور تجربات اس پر مستزاد ہیں۔ ان سب کے بعد اگر میں ایک جملے میں آپ کا تجزیہ کروں تو وہ یہ ہو گا 'ایک ایسا نادر، بیش قیمت، با صلاحیت، قابل رہنما جس کی ان گنت بڑی خوبیوں کو چند بڑی خامیاں کھا گئیں‘۔
آپ جانتے ہیں کہ بڑی قیمتی دستاویزات کو ایک معمولی سا کیڑا جسے دیمک کہتے ہیں، اس طرح کھا کر ختم کردیتا ہے کہ ان دستاویزات کی ساری قدر و قیمت بد نما برادے میں تبدیل ہوکر رہ جاتی ہے‘ جس پر کوئی دوسری نظر ڈالنا بھی پسند کرتا‘ یا ایک قیمتی ترین، پسندیدہ ترین سوٹ پر تیزاب کے چند چھینٹے اسے ہمیشہ کے لیے ناکارہ اور ناقابل استعمال بنا کر رکھ دیتے ہیں‘ یا معمولی سی فنی خرابی کسی بہت اعلیٰ ہوائی جہاز کو سیکنڈوں میں زمین بوس کر دیتی ہے۔ یہ چھوٹی خرابیاں ہمیشہ بہت بہت بڑی ہوتی ہیں۔
انسان ہیں تو ہم سب میں خرابیاں اور خامیاں بھی لازمی ہیں۔ بے عیب کوئی نہیں۔ آپ کے معاصر رہنماؤں میں آپ سے بھی زیادہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم ان سے کوئی توقع رکھتے ہی نہیں تھے اور ہم نے آپ سے توقع نہیں توقعات رکھی تھیں۔ میرا غم یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو ملک کا نہیں بلکہ امت مسلمہ کا متفقہ رہنما بننے کا اہل تھا، وہ اپنی چند کمزوریوں کی وجہ سے وہ کام نہیں کر پائے گا جو وہ کر سکتا تھا۔ چند خامیاں، محض چند خامیاں اس کی ذمے دار ہوں گی‘ جنہیں آسانی سے دور کیا جا سکتا تھا۔ بائیس سالہ سیاسی مشکل اور صبر آزما کوششوں میں سے چند ماہ ان خامیوں کے خلاف جدوجہد کی جا سکتی تھی اور انہیں ہمیشہ کے لیے مٹایا جا سکتا تھا۔ کیا یہ تکلیف کی بات نہیں کہ جس بہادر نے باہر کے دشمنوں کو زیر کر لیا، اسے اندر کے دشمنوں نے ڈھیر کر دیا۔
محبت کرنے والے عموماً جذباتی ہوتے ہیں اور اس کیفیت سے نکلنا آسان نہیں ہوتا۔ خاص طور پر دکھ کے موسم میں۔ آپ کو ایوان اقتدار سے نکلتے یا نکالے جاتے دیکھ کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ کتنے لوگ ہیں جن کی ان روزوں میں بھی بھوک پیاس ختم ہو گئی۔ وہ لوگ جن کا نام بھی آپ نہیں جانتے اور جنہیں آپ سے کوئی واسطہ مطلب نہیں اور جنہیں آپ سے کوئی فائدہ بھی نہیں چاہیے۔ جو تکلیف آپ کو یا آپ کے ساتھیوں کے دلوں میں ہو گی، اس سے کم ان لوگوں کے دلوں میں بھی نہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا صرف ایک وجہ سے ہے۔ یہ لوگ پاکستان اور پاکستانیوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کا یقین تھا کہ آپ اس ملک اور اس قوم کے نجات دہندہ ثابت ہوں گے۔ انہیں آپ سے کچھ لینا دینا ہرگز نہیں تھا‘ لیکن ان محبت کرنے والوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو جذبات سے باہر نکل کر سوچنے سمجھنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ اور باہر نکل کر دیکھیں تو منظر زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس پر تو گریہ پہلے سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بد نما چیزیں اور کھل کر نظر آنے لگتی ہیں۔ اور وہ کسی بیرونی دشمن کی مداخلت نہیں، آپ کے اپنے مزاج کی سازش ہے۔ وہ امراض اربعہ کیا ہیں؟ ناقص فہم دین جس سے ریاستِ مدینہ کے بارے میں تمام مواعظ بیکار ہو جاتے ہیں۔ پھر خود پسندی جو بسا اوقات تکبر کی حدوں تک پہنچتی ہے۔ پھر خود رائی جو خیر خواہوں کے بہترین مشوروں کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیتی ہے۔ پھر مخالفوں کے لیے جذبۂ انتقام جس کی موجودگی میں ہر درست تجویز بیکار ہو جاتی ہے۔ یہ چار عناصر آپ کے قد کو مسلسل پست کرتے رہتے ہیں۔ یہ آکاش بیل اس بلند و بالا درخت کو مسلسل کھائے جاتی ہے۔ جتنا بلند درخت اتنی اونچی بیل۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ اس جھاڑ جھنکار کو ایک بار کاٹ پھینکا جاتا جس کی موجودگی کسی پیڑ کو ننگا کر چھوڑتی ہے۔
خود اعتمادی اور خود پسندی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ نے ان دونوں کو ایک کر رکھا ہے۔ خود رائی اور ہر مخالف مشورے کو رد کر دینے کی عادت نے آپ کو رائی کا ڈھیر بنا دیا‘ لیکن آپ اس سے باہر نہیں آتے۔ آپ کے بڑے مخالفین میں میاں نواز شریف ہیں، جن کی اہم معاملات میں اپنی کوئی رائے ہوتی ہی نہیں، ساتھیوں کی مشاورت پر ان کا گزارہ ہے۔ ان کے برعکس آپ کسی بات پر کان دھرتے ہی نہیں اور سمجھتے ہیں کہ دین و دنیا کے ہر معاملے میں آپ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا‘ اس لیے رائے بھی آپ کی چلے گی۔ جنہوں نے پاکستان کو لوٹا، ان سے آپ کی نفرت قابل فہم ہے، لیکن ہر مخالف سے قابل قبول نہیں۔ پھر اس انتقام کی کوئی حد، کوئی چاردیواری ہے یا نہیں؟ یا ملک و قوم آگے بڑھنے کے بجائے اسی آگ میں جھلستے رہیں؟ دین کی طرف آپ کی توجہ خوش آئند ہے لیکن اپنے چند سالہ فہم دین کو ان لوگوں پر فائق سمجھنا جن کی ساری زندگیاں پڑھنے پڑھانے میں گزری ہیں، بذات خود ناقص عقل کی بات ہے۔ ساری زندگی کھیل کے میدانوں میں گزری اور یہی آپ کا اصل میدان رہا ہے۔ کیا آپ اس بات کو قبول کر لیں گے کہ کوئی عالم آپ کو کرکٹ پر درس دیا کرے اور آپ بیٹھے سنا کریں؟ اور یہ جو بات ہے کہ آپ کے علاوہ کوئی مخالف محب وطن نہیں‘ آخر اسے کیسے مانا جائے؟
اس بات کو کیسے قبول کیا جا سکتا ہے، حتیٰ کہ خود آپ کے مدا ح حلقوں میں، کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے سوا سب غدار، بکاؤ، لٹیرے اور سازشی ہیں۔ آپ کے اس بیانیے نے سیاست میں آپ کو سخت نقصان پہنچایا ہے حالانکہ یہ آپ کے شدید جذباتی مداحوں میں بہت مقبول ہے اور اسے وہ اول و آخر سچ سمجھتے ہیں۔ سمجھتے رہیں۔ یہ بھوت بھی وقت کے ساتھ ساتھ اسی طرح رخصت ہو جائے گا جیسے اقتدار رخصت ہو گیا۔