تحریر : انجم فاروق تاریخ اشاعت     17-04-2022

عمران خان کیوں ناکام ہوئے ؟

خلیل جبرا ن کا قول ہے : جہاں انسان کی سانسوں میں زندگی کی روح پھونکی گئی ہے وہیں دل میں موت کا بیج بو دیا گیا ہے۔ کبھی اسے راہ ِ نشاط دکھائی جاتی ہے اور کبھی بدبختی کے راستے پرچلایا جاتا ہے ۔کبھی ہونٹوں پر مسرت بھرا نغمہ اتار ا جاتا ہے اور کبھی اس کی زبان کو آتش ِعذاب میں ڈال دیا جاتا ہے ۔کبھی انسان کو اشکوں سے غسل دے کر نکھارا جاتا ہے تو کبھی فنا کا جام پلا کر رخصت کردیاجاتاہے ۔ یہی حضرت ِانسان کی حقیقت ہے ‘کبھی خوشی کبھی غم ۔ کبھی پھول کبھی کانٹے۔ کبھی دکھ کبھی سکھ ۔ کبھی دھوپ کبھی چھاؤں ۔کبھی اقتدار کی سیج اور کبھی اپوزیشن کی کوٹھڑی ۔ہر طرح کا وقت گزر جاتا ہے مگر اہم یہ ہوتا ہے کہ آپ نے وقت کی کڑواہٹ کو محسوس کیا یا نہیں ۔ زندگی کے تلخ وشیریں ایام سے کچھ سکھایا نہیں ۔ اپنے کارناموں کے گُن ہی گاتے رہے یا غلط فیصلوں کا بوجھ بھی برداشت کیا ۔ کوئی بھی حکمران حرف ِ آخر نہیں ہوتا ۔ دوسری اور تیسری دنیا کے ممالک میں تو ہرگز بھی نہیں ۔ غلطیاں سب حکمران کرتے ہیں مگران کا ادراک کوئی کوئی کرتا ہے ۔ سابق وزیراعظم عمران خا ن نے بھی مسندِ اقتدار پر بیٹھنے سے قبل اور بعد ازاں درجنوں غلطیاں کیں ۔ اگر وہ بہتر فیصلے کرتے تو شاید آج بھی وزیراعظم ہوتے‘ مگر ایسا نہ ہوسکا ۔ ہر ناکامی کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے اور عمران خان کی ناکامی کی وجوہات پیش خدمت ہیں ۔
(1):تحریک انصاف کی سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ اس نے 2018ء کے الیکشن سے پہلے اپنی مقبولیت پر بھروسا نہیں کیا اور مختلف قسم کی بیساکھیوں کے سہارے چل کرحکومت بنائی۔ اسے الیکٹ ایبلزکو پارٹی میں جگہ دینی چاہیے تھی نہ غیر سیاسی حلقوں کو مدد کے لیے پکارنا چاہیے تھا۔ اسے ایم کیو ایم سے اتحاد کرنا چاہیے تھا نہ (ق) لیگ سے ۔ عوام نے اسے اکثریت نہیں دی تھی تو اسے جوڑتوڑ کے سہارے وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ غیر روایتی اتحادیوں کے سہارے کھڑی حکومت اپنے منشور پر عمل کرسکتی ہے نہ عوام کو مسائل کی دلدل سے نکال سکتی ہے ۔سابق حکومت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔ اگر عمران خان کی حکومت اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتے ۔
(2):سابق وزیراعظم عمران خان کو وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کا چناؤ کرتے وقت تابعداری سے زیادہ اہلیت اور صلاحیت کو دیکھنا چاہیے تھا ۔ پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہونے کے ساتھ زرعی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کی پرفارمنس وفاق کی کارکردگی کو دوبالا کردیتی ہے مگر تحریک انصاف کے دور میں ایسانہ ہوسکا ۔ میرے نزدیک اگر عثمان بزداراور محمود خان کے بجائے کوئی اور متحرک وزرائے اعلیٰ ہوتے تو یقینا معاملہ مختلف ہوتا ۔ ستم بالائے ستم یہ کہ پونے چار سال تک سابق وزیراعظم کو اپنی غلطی کا ادراک تک نہ ہوا ۔ وہ ان وزرائے اعلیٰ پر تنقید کو خاطر میں لائے نہ اپنے دوستوں کی نصیحت کو اہمیت دی ۔عثمان بزدار کی تعیناتی میرٹ کی نفی تھی۔پنجاب میں خان صاحب کے پاس متحرک اور باصلاحیت ایم پی ایز کی کمی نہیں تھی مگر نجانے کون سی ایسی مجبوری تھی جس کے باعث عثمان بزدار ناگزیر بن گئے ۔ اس ایک تعیناتی سے اتنا نقصان ہوا کہ پہلے پارٹی میں دھڑے بندی ہوئی‘ علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے ساتھی ناراض ہو کر مخالفین سے جاملے اور پھر ان کی حکومت ہی گر گئی ۔عثمان بزدار کا سب سے منفی پہلو ان کی کم گوئی تھی ۔ ان میں اتنی صلاحیت ہی نہیں تھی کہ وہ اپنے ایم پی ایزکو متحد رکھ سکتے ۔صرف عثمان بزدار اور محمود خان ہی نہیں وفاق میں بھی ایسے ایسے افراد کو وزیر بنایا گیا جنہوں نے پہلے کبھی یونین کونسل بھی نہیں چلائی تھی ۔ ایسے وزیر آخری وقت تک حکومت چلانے کے داؤپیچ سیکھتے رہے ۔ حکومت رخصت ہوگئی مگر ان کی ٹریننگ ختم نہ ہوئی ۔
(3):سابق حکومت کے معیشت کے حوالے سے سارے دعوے غلط ثابت ہوئے ۔ حکومت سنبھالتے وقت ان کے پاس معاشی ٹیم تھی ہی نہیں ‘ جس کے باعث ایک روزکیلئے بھی معیشت ان کے کنٹرول میں نہ آسکی ۔ اگر تحریک انصاف کے پاس معاشی ٹیم ہوتی تو انہیں حفیظ شیخ‘ شوکت ترین ‘ مزمل اسلم اور ڈاکٹر وقار مسعود کا سہارا نہ لینا پڑتا۔ سابق وزیرخزانہ شوکت ترین خود اعتراف کرچکے ہیں کہ ہماری سب سے بڑی ناکامی یہ تھی کہ ہمارے پاس کوئی معاشی پلان ہی نہیں تھااور معاشی پلان بناتے بناتے بہت وقت لگ گیا ۔دوسرا ‘خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کے بارے میں بھی ہم کوئی بڑا فیصلہ نہ کرسکے۔عمران خان کے دور میں مہنگائی دن بدن بڑھتی رہی ‘بے روزگاری ‘خسارے اور قرضے دوچند ہوتے رہے۔ صنعتوں کو ایمنسٹیز اور سبسڈیز کے سہارے کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی مگر بے سود۔ پچاس لاکھ گھر بنے نہ ایک کروڑ نوکریاں دی گئیں۔نئی صنعتیں لگیں نہ زراعت کے شعبے میں جدت آسکی ۔یوں کہہ لیجئے معیشت سابق حکومت کے لیے وبال ِ جان بنی رہی اور اسی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں کمی بھی آئی ۔
(4):سابق حکومت کی توجہ گورننس سے زیادہ احتساب پر رہی ۔ حکمران اپنی کارکردگی بہتر کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کے عیب ڈھونڈتے رہے ۔وہ دوسروں کو بدنام کرکے خود نیک نام بننا چاہتے تھے مگر یہ کھیل زیادہ طول نہ پکڑسکا ۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے تما م اکابرین جیل کی سلاخوں کے پیچھے گئے مگر تادمِ تحریر کچھ ثابت نہ ہوسکا ۔احتساب کی دھول اتنی تھی کہ حکومت کی اپنی کارکردگی کہیں نظر نہ آئی ۔عمران خان اپنی توجہ گورننس کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کرتے تھے تو ان کے شعلہ بیاں ساتھی کوئی نیا محاذ کھول دیتے تھے ۔یوں پونے چار سال بیت گئے ۔میرا یقین ہے اگر سابقہ حکومت غیر ضروری جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے گورننس کو مقصد ِاول بناتی تو آج حالات یقینا مختلف ہوسکتے تھے ۔
(5):سابق وزیراعظم کی طبیعت میں خود پسندی اور جذباتیت کی جھلک زیادہ تھی ۔انہیں ادراک ہی نہیں تھا کہ ملک انا اور غصے کی کیفیت میں نہیں چلتے ۔وہ مشاورت سے زیادہ اپنی بات منوانے پر یقین رکھتے تھے ۔بیوروکریسی کو اہمیت دیتے تھے نہ اپنے وزراء کو کھل کر کھیلنے دیتے تھے ۔جس طرح وزراء کے محکمے‘ چیف سیکرٹریز‘ آئی جیز اور سیکرٹری بدلے جاتے تھے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ سازی میں کمزوری تھی اور یہ کمزوری حکومت کو کمزور کرگئی ۔
(6):تحریک انصاف کی حکومت عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی میں بھی پیش پیش رہی ۔ انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بنایا جو ان کی فاش غلطی ثابت ہوا۔آج خان صاحب خود بھی مان رہے ہیں کہ انہیں ایسانہیں کرنا چاہیے تھا۔میرے نزدیک سابق حکومت سے اتنی بڑی غلطی اس لیے ہوئی کہ ان کے پاس اپنی قانونی ٹیم ہی نہیں تھی ۔ وزیر قانون فروغ نسیم ایم کیو ایم سے تعلق رکھتے تھے اور بابر اعوان پیپلزپارٹی سے آئے تھے ۔ اگر تحریک انصاف کے پاس اپنی قانونی ٹیم ہوتی تو شاید وہ بہتر مشور ہ دیتی اور حکومت کو اتنی بڑی سبکی نہ ہوتی ۔
(7):عمران خان کی حکومت دوست بنانے پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ایک ایک کرکے انہوں نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے لڑائی کی اور اتحادی بھی ان سے ناخوش ہی رہے ۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک تھا مگر حکومت نے اپنی آخری دنوں میں توپوں کا رخ دوستوں کی طرف موڈ دیا ۔ ایک تعیناتی کو لے کر جس طرح ادارے کی تضحیک کی گئی وہ حیرانی سے زیادہ باعث پریشانی تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب ادارے نیوٹرل ہوگئے اور حکومت کے ایم این ایز باغی ۔ اگر اس تعیناتی کے وقت حکمت ‘ سیاسی فہم اور دوراندیشی سے کام لیا گیا ہوتا توعمران خان کو یوں عالمی سازش کی ہنڈیا چڑھانی نہ پڑتی ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved